"SSC" (space) message & send to 7575

موسمِ خوش رنگ

یہ بہار کا موسم ہے‘ درختوں پر بُور آ رہا ہے‘ کونپلوں سے شگوفے اور شگوفوں سے پھول جھانک رہے ہیں۔ یہ موسمِ خوش رنگ دراصل تخلیق کا موسم ہے۔ اور ہر تخلیق کے ساتھ درد کا رشتہ جڑا ہوا ہے۔ جب بہار کے موسم میں درخت کے تنے کی سخت کھال کو چیر کر ایک کونپل باہر نکلتی ہے تو یہ اسی تخلیقی عمل کا پرتو ہوتی ہے جس میں تخلیق، درد اور خوبصورتی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
آج دنیا اخبار میں چھپنے والے کالموں پر مبنی کتاب ''موسمِ خوش رنگ‘‘ چھپ کر سامنے آئی تو مجھے کئی سال پہلے لاہور میں ستمبر کی وہ شام یاد آ گئی جب میاں عامر محمود صاحب نے مجھے اپنے اخبار دنیا میں اردو کالم لکھنے کو کہا۔ مجھے اس دن یوں لگا جیسے یہ میرے دل کی آواز ہے۔ اس سے پیشتر میں تقریباً دو دہائیوں سے انگریزی اخبارات میں کالم لکھ رہا تھا۔ اتنا عرصہ مسلسل لکھنے کے بعد انگریزی میں لکھنا میرے لیے روزمرہ کی بات ہو گئی تھی۔ اب اچانک اردو میں لکھنے کا سفر آسان نہ تھا۔
میرے لیے اردو کالم لکھنے کے سفر میں تین بڑی مشکلات تھیں۔ پہلی یہ کہ میرا پس منظر انگریزی ادب کا تھا اور انگریزی میں لکھنا میرے لیے سہل تھا۔ اردو میں لکھنا نسبتاً مشکل تھا۔ میری دوسری مشکل یہ تھی کہ اردو میں زیادہ تر کالم سیاسی ہوتے ہیں اور ذاتی طور پر میری ترجیح غیر سیاسی موضوعات تھے۔ میری تیسری مشکل یہ تھی کہ اردو میں لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد کالم نگاری میں طبع آزمائی کر رہی تھی اور ان میں بہت سے سر بلند کالم نگاروں کے نام شامل تھے۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ ان قد آور کالم نگاروں کی آوازوں میں میری آواز گم نہ ہو جائے۔ میرے لیے ابتدا ہی سے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اگر کالم میں سیاست پر نہیں لکھنا تو اس کا بدل کیا ہونا چاہیے۔ غیر سیاسی کالم کے قارئین کون ہوں گے؟ یہ سارے سوالات میرے شوق کے راستے میں حائل ہو گئے۔ اس سے پیشتر کہ میں حوصلہ ہار کر بیٹھ جاتا مجھے وہ دن یاد آنے لگے جب میں لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی میں Creative Writing کا کورس پڑھایا کرتا تھا۔ یہ ایک مختلف انداز کا کورس تھا۔ دوسرے تمام کورسز سے ہٹ کر۔ مثلاً اس میں روایتی فائنل امتحان کا تصور نہیں تھا۔ فائنل امتحان کے بجائے ہر طالب علم کو کورس کے آخر میں ایک مختصر کتاب لکھنا ہوتی۔ دراصل یہ کتاب ان تمام اسائنمنٹس اور تخلیقی تحریروں کا مجموعہ ہوتی جو طلبا کلاس روم میں یا کلاس روم سے باہر لکھتے۔ کتاب کا سائز اور دوسری ہدایات طلبا کو پہلے سے دے دی جاتیں اور جب سمسٹر کے آخر میں یہ کتابیں چھپتیں تو طالب علم خود حیران رہ جاتے کہ یہ کام انہوں نے کیا ہے؟ آخری دو دن Celebration کے ہوتے‘ جس میں سارے طالب علم اپنی کتاب میں سے اپنا پسندیدہ حصہ پڑھ کر سناتے۔ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کر کے یہ طلبا زندگی کی دوڑ دھوپ میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر برسوں بعد ان سے کہیں ملاقات ہو جاتی تو گفتگو میں وہ ضرور اپنی Creative Writing کی کلاس کا ذکر کرتے۔
لیکن یہ تو بعد کی بات ہے Creative Writing کی کلاس کا پہلا دن بہت مختلف ہوتا۔ جب میں طالب علموں سے کورس آئوٹ لائن ڈسکس کرتا۔ انہیں بتاتا کہ اس کورس کے مقاصد کیا ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن جب میں انہیں یہ بتاتا کہ اس کورس میں فائنل امتحان کے بجائے آپ کو ایک کتاب لکھنا ہو گی تو کلاس کے اکثر طلبا حیرت سے میرا منہ دیکھنے لگتے۔ ان میں سے بیشترکا خیال یہ تھا کہ وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے طور پر ایک کتاب لکھ سکیں اور بھی تخلیقی تحریروں پر مبنی کتاب۔ میں انہیں بمشکل باور کراتا کہ یہ بالکل ممکن ہے‘ لیکن اس کیلئے مجھے بہت جتن کرنے پڑتے۔
مجھے یاد ہے کہ پہلے ہفتے میں، میں انہیں معروف اینیمیٹڈ Animated)) کارٹون فلم Ratatouille دکھاتا۔ یہ دلچسپ فلم ایک چوہے ریمی (Remy) کے بارے میں تھی جس کی زندگی کا خواب یہ تھا کہ وہ پیرس کے ایک بڑے ریستوران میں شیف بنے۔ مجھے یاد ہے‘ ہم سب یہ فلم دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوتے۔ پھر میں دوبارہ فلم کا وہ حصہ چلاتا جس میں پیرس کا مشہور شیف (Chef) ریمی چوہے سے مخاطب ہو کر وہ پنچ لائن کہتا ہے:
Anyone can cook but only the fearless can be great
اس ایک سطر میں میرے Creative Writing کے کورس کا عطر تھا۔ فلم دیکھنے کے بعد میں طلبا سے کہتا کہ ہم اس پنچ لائن میں تھوڑی سی ترمیم کر کے اسے یوں پڑھتے ہیں:
Anyone can write but only the fearless can be great
میں انہیں بتاتا کہ آپ میں سے ہر ایک کے پاس ایک کہانی ہے اور اس کہانی کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ سو آپ کے پاس یہ اعتماد ہونا چاہیے کہ آپ اپنی کہانی دوسروں کو سنا سکتے ہیں۔
کورس کے ابتدائی دنوں میں ہم یہ بحث کرتے کہ عام تحریر اور تخلیقی تحریر (Creative Writing) میں کیا فرق ہے۔ یہ ایک دلچسپ بحث ہوتی۔ کیا خاص موضوعات کا چناؤ تحریر کو تخلیقی بناتا ہے؟ یا مخصوص الفاظ کا استعمال تحریر کو تخلیقی رنگ دیتا ہے؟ یا الفاظ کے در و بست کا فن (Syntax) تحریر کو تخلیق کا پیراہن پہناتا ہے؟ یا پڑھنے والے پر اثر (Impact) تخلیقی تحریر کی پہچان ہے؟ یا پھر تخلیقی تحریر ان سب یا ان میں سے کچھ خاصیتوں کا مجموعہ ہوتی ہے؟
ہم باہمی گفتگو اور بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے کہ تخلیقی تحریر عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتی ہے۔ ایک عام سے موضوع کو بھی ایک تخلیق کار اپنے اسلوب سے ایک نیا پن دے سکتا ہے۔ تخلیقی تحریر میں اصل کردار رفعتِ خیال کا ہوتا ہے۔ تخلیق دراصل Concrete سے Abstract تک کا ایک سفر ہے۔ اس سارے عمل میں سب سے اہم چیز جو تحریر کو منفرد بناتی ہے وہ آپ کا ذاتی تجربہ، شخصیت اور پس منظر ہے۔ تحریر میں ذات کا لطیف پرتو اسے مختلف، ممتاز اور قابلِ اعتبار (Reliable) بناتا ہے۔ تخلیقی عمل میں سب سے اہم مرحلہ گھڑے گھڑائے سانچوں سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ گھڑے گھڑائے سانچوں اور پٹے پٹائے راستوں (Beaten Tracks) پر چلنا آسان ہوتا ہے‘ لیکن جونہی آپ ان راستوں کو چھوڑ کر ایک نئی راہ تراشتے ہیں سدھائے ہوئے ذہن (Trained Mind) جھنجھلا اٹھتے ہیں‘ لیکن تخلیقی سفر کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو وہی تحریریں زمان و مکان کی پابندیوں سے ماورا ہوتی ہیں جو گھڑے گھڑائے سانچوں سے ہٹ کر اپنی راہ بناتی ہیں۔
Creative Writing کورس کے وہ شب و روز یاد آئے تو میرے شکستہ حوصلے کو سہارا ملا۔ مجھے یاد آیا‘ جس طرح ہر ایک کے پاس اپنی کہانی ہوتی ہے میرے پاس بھی اپنی کہانیاں ہیں جن میں تعلیم، زبان، تاریخ، گاؤں، سامراج، مزاحمت، ارد گرد کے عام لوگ، تاریخ میں سانس لیتی عمارتیں اور آزادی کی نیلم پری کی تلاش میں اپنی جانیں وارتے ہوئے کردار ہیں۔ یوں میرا اردو کالم نگاری کا سفر شروع ہوا۔ اس سفر کا پہلا پڑاؤ میری کتاب ''زیرِ آسماں‘‘ تھی۔ اس سفر کا دوسرا سنگِ میل میرے اردو کالموں کی تازہ کتاب ''موسمِ خوش رنگ‘‘ ہے جسے دیکھ کر مجھے وہ دن یاد آ گئے جب میں Creative Writing کا کورس پڑھاتا تھا اور طلبا کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کہا کرتا تھا: آپ میں سے ہر ایک کے پاس ایک کہانی ہے اور اس کہانی کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ آج میری کہانی آپ کے سامنے ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں