دینہ کی نیم تاریک سڑک پر چلتے ہوئے اچانک مجھے گگن شاہد کا خیال آیا جس کا اس علاقے اور گلزار سے گہرا تعلق تھا۔ گگن نے فون پر پتا بتاتے ہوئے کہا کہ وہ جہلم سے میری مدد کو آ سکتا ہے‘ لیکن میں نے شکریے کے ساتھ منع کر دیا۔ رستوں کی بھول بھلیوں سے گزرنے کی لذت میں اپنے اندر محسوس کرنا چاہتا تھا۔ پتے کے مطابق میں پاکستان چوک پہنچ گیا۔ اس چوک سے مجھے بائیں ہاتھ والی سڑک پر جانا تھا جہاں وہ گلی تھی جس میں گلزار کا بچپن کا گھر تھا۔ میں نے سڑک کے کنارے ایک دو دکانداروں سے پوچھا: آپ کو گلزار کے گھر کا پتہ ہے؟ انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ ان میں سے ایک نے پوچھا: گلزار کیا کام کرتا ہے؟ مجھے اب خود پر غصہ آ رہا تھا کہ بغیر کسی پلاننگ کے میں یہاں کیوں آیا تھا؟ رات گئے میں اس گلی کو کیسے تلاش کروں گا؟ پھر مجھے ایک ریڑھی نظر آئی جس پر ایک ادھیڑ عمر شخص کینو بیچ رہا تھا۔ میں اس کے پاس چلا گیا۔ دن بھر کی تھکن اس کے چہرے پر تھی۔ رات کے اس پہر گاہک دیکھ کر اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ میں نے اس سے کینو خریدے اور پھر یونہی پوچھا: آپ کو معلوم ہے یہاں گلزار کا گھر ہوا کرتا تھا۔ ریڑھی والے نے نگاہ اٹھا کر مجھے دیکھا اور پھر زور سے کسی کو پکارا۔ اس کی آواز پر ایک لڑکا بھاگتا ہوا آیا۔ ریڑھی والے نے ہاتھ کے اشارے سے کہا: ان کو سامنے والی گلی میں لے جائو۔ میں نے اس سمت دیکھا جدھر ریڑھی والے نے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا۔ مجھے کچھ نظر نہ آیا، لیکن جب دوبارہ غور سے دیکھا تو اندھیرے میں ایک تنگ سی گلی نظر آئی جو مجھے اس سے پہلے یہاں سے دو بار گزرنے کے باوجود نظر نہیں آئی تھی۔
میں بے یقینی کے عالم میں اس لڑکے کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ اب ہم اس گلی میں داخل ہو رہے تھے جو بمشکل چار فٹ چوڑی ہو گی۔ گلی میں ذرا آگے چل کر وہ لڑکا رک گیا اور دائیں ہاتھ مکان کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگا: یہ گلزار کا گھر ہے۔ میں وہاں رک گیا اور کھڑا ہو کر اس مکان کو دیکھنے لگا جہاں گلزار کے ابتدائی شب و روز گزرے تھے۔ میں سوچ رہا تھا‘ وہ اس گلی میں کتنی بار آیا گیا ہو گا کبھی صبح کے اجالوں میں، کبھی شام کے رنگوں میں، کبھی کڑکتی دھوپوں میں، کبھی ساون کی موسلا دھار بارشوں میں اور کبھی رات کے اندھیرے میں۔ بالکل ایسا ہی اندھیرا جو آج میرے ساتھ اس گلی میں رک گیا ہے۔ اسی اثناء میں گلی کے آخری سرے سے ایک صاحب ہماری طرف آتے دکھائی دیے۔ سفید اُجلا لباس اور سر پر ٹوپی۔ شاید وہ نماز پڑھنے کے لیے قریبی مسجد میں جا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر رک گئے اور مسکرا کر کہنے لگے کہ آپ گلزار صاحب کا گھر دیکھنے آئے ہیں۔ میں نے کہا: جی! وہ کہنے لگے: یہ گلزار صاحب کا ہی گھر ہے۔ بہت سے لوگ یہ گھر دیکھنے آتے ہیں۔ کچھ برس پہلے گلزار صاحب بھی یہاں آئے تھے اپنا گھر دیکھنے۔ یہ کہہ کر آگے بڑھ گئے اور مجھے گلزار کا دینہ کا سفر یاد آ گیا جب وہ اپنا گھر دیکھنے آیا تھا۔ اس گھر سے بچھڑنے کا غم ساری عمر اس کا پیچھا کرتا رہا۔ جدائی کا درد بھی کیسا درد ہے غمِ روزگار کے شور میں دب تو جاتا ہے لیکن کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یوں ہی بیٹھے بٹھائے کسی اجلی صبح، کسی سلونی شام، کسی تنہائی کے عالم میں یہ درد دبے پاؤں آتا ہے اور ہم سر تا پا اداسی میں بھیگ جاتے ہیں۔ ایسا ہی گلزار کے ساتھ بھی ہوتا رہا۔ اس کا دینہ اسے اپنی طرف بُلاتا تھا۔ اس کے نیلے آسمان کی وسعتیں، اس کے اونچے نیچے ٹیلے، اس کے سرسوں کے لہلہاتے کھیت اور اس کے صاف پانیوں کے چشمے، بمبئی کی مصروف زندگی میں بھی اس کا دامنِ دل کھینچتے تھے‘ اور پھر گلزار کا دل شدت سے دینہ سے ملنے کے لیے بے قرار ہو جاتا تھا۔ پاکستان سے گلزار کا ربط اس کی شاعری تھی۔ احمد ندیم قاسمی کے رسالے ''فنون‘‘ میں ان کی نظمیں چھپتی تھیں۔ قاسمی صاحب سے گلزار کا تعلقِ خاطر تھا۔ گلزار کی کتابیں یہاں بھی شائع ہوئی تھیں۔ یوں پاکستان میں گلزار کے چاہنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔
گلزار جب دینہ سے اپنے والد کے ہمراہ دہلی گیا تو اس کی عمر صرف آٹھ برس تھی۔ پھر دینہ اس کے لیے ایک خواب بن گیا تھا۔ 2004 میں ایک طویل عرصے کے بعد گلزار کو پاکستان آنے کا موقع ملا جب احمد ندیم قاسمی صاحب کا آپریشن ہوا تھا‘ لیکن گلزار صاحب لاہور تو آئے مگر اپنے خوابوں کے نگر دینہ نہ جا سکا۔ پھر دن، مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے۔ اب گلزار کی عمر 78 برس ہو گئی تھی۔ گلزار دولت، شہرت، عزت اور کامیابی کی بلندیوں کو سر کر چکا تھا‘ لیکن اس کی زندگی میں ایک آرزو، ایک تمنا اور ایک حسرت تھی۔ اپنے بچپن کے دینہ کو دیکھنے کی خواہش۔ گلزار کو یوں لگتا تھا‘ اب شاید ہی وہ اپنے بچپن کے نگر کو دیکھ پائے گا‘ لیکن کہتے ہیں‘ لگن سچی ہو تو راستہ نکل ہی آتا ہے۔ وہ 2013ء کا سال تھا جب گلزار کو پاکستان میں ایک لٹریچر فیسٹیول میں آنے کی دعوت ملی۔ دو دن لاہور رہنے کے بعد گلزار جب دینہ کے لیے روانہ ہوا تو دل کی عجیب حالت تھی۔ اس کے ہمراہی گفتگو کر رہے تھے لیکن گلزار سارا راستہ خاموش رہا‘ وہ 70 سال بعد اپنے گھر آرہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف اردو میں لکھے ہوئے سائن بورڈز دیکھ کر اسے خاص مسرت محسوس ہو رہی تھی۔ اب اس کے سامنے دینہ کا ریلوے سٹیشن تھا‘ جس کے ساتھ گلزار کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ سٹیشن پر کھڑے ہوئے گلزار کے بچپن کے وہ سارے منظر روشن ہو گئے۔ ان کی اگلی منزل وہ سکول تھا جہاں گلزار نے تین جماعتیں پڑھی تھیں۔ گلزار کو وہ سہانے، میٹھے اور رس بھرے دن یاد آ گئے جب وہ ٹاٹ پر بیٹھتا تھا‘ اور تختی پر اردو کے الفاظ لکھتا تھا۔ اب وہ اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے ہمراہ تھا۔ سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اپنے گھر کا نقشہ اس کے ذہن میں اسی طرح تازہ تھا۔ وہ سب سے آگے آگے چلتا ہوا سیدھا اپنی گلی میں پہنچ گیا۔ کسی زمانے میں اس گلی کا دوسرا سرا کھیتوں میں کھلتا تھا‘ لیکن اب گلی کے آخر میں دیوار بن گئی تھی۔ ستر سال بعد وہ اپنے گھر میں داخل ہو رہا تھا‘ گھر کے در و دیوار ویسے ہی تھے۔ وہ چپ تھا اور اس کے اندر جذبوں کی آبشار گر رہی تھی۔ یہاں سے واپس جاتے ہوئے واہگہ بارڈر پر گلزار نے اپنے دینہ کے بارے میں ایک نظم لکھی تھی جس کا اختتام یوں ہوتا ہے:
''مرے پیچھے مری پرچھائیں ہے/ آواز دیتی/ وہاں جب مٹی چھوڑو گے/ چلے آنا تمہارا گھر یہیں پر ہے/ تمہاری جنم بھومی ہے وطن ہے‘‘۔
آج گلزار کی گلی میں کھڑا میں سوچ رہا ہوں۔ یہاں سے جاتے وقت اس نے پلٹ کر آخری بار اپنی گلی کو دیکھا ہو گا۔ ایک آخری نظر‘ جس کے بعد شاید وہ اسے کبھی نہ دیکھ سکے گا۔ اچانک مجھے خیال آتا ہے کہ میں گلزار کی گلی میں اس کے گھر کے سامنے کب سے تنہا کھڑا ہوں۔ دینہ میں اب رات گہری ہو چکی ہے۔ بوجھل قدموں سے اپنی گاڑی کی طرف جاتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں‘ بچھڑے ہوئے راستوں پر جانے کی خواہش اپنی جگہ لیکن بچھڑے ہوئے راستوںکا سفر کتنا اداس اور تنہا کر دینے والا تجربہ ہے۔