جون ایلیا سے میرا تعارف 1980ء میں ہوا۔ یہ وہ سال تھا جب میں گورڈن کالج سے ایم اے انگلش کرنے کے بعد فارغ ہوا تھا۔ ان دنوں ہمارے گورڈن کالج ہی کے ایک سینئر دوست شاہد مسعود نے اسلام آباد کے ایف ایٹ سیکٹر میں ایک اوپن ایئر ریستوران کھولا ہوا تھا جس کا نام ''دوپیازہ‘‘ تھا۔ کیا دل فریب جگہ تھی‘ وسیع سبزہ زار پر سفید رنگ کی کرسیاں اور میز خاص ترتیب سے رکھے ہوتے۔ پس منظر میں کلاسیکی موسیقی ہلکے سُروں میں چل رہی ہوتی۔ یوں لگتا جیسے کسی خواب نگر میں بیٹھے ہوں۔ انہی دنوں میں سے ایک دن تھا کہ میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ ''دوپیازہ‘‘ جا رہا تھا۔ راستے میں میرے دوست نے ایک شعر سنایا تو میں چلتے چلتے رُک گیا اوراُسے دوبارہ شعر سنانے کو کہا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایاکہ اُسے شاعر کانام معلوم نہیں۔ شعر یہ تھا:
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو/بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
بہت بعد میں پتا چلا کہ اس شعر کا خالق جون ایلیا ہے۔ یہ میرا جون ایلیا سے پہلا بالواسطہ تعارف تھا۔ مجھے جستجو تھی کہ جون ایلیا کون ہے؟ اس نے اتنا مختلف نام کیوں رکھا؟ اس کا زندگی کے بارے میں رویہ عام ڈگر سے ہٹ کر کیوں ہے؟ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ جون ایلیا 1931ء میں امروہہ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام سید حسین جون اصغر تھا لیکن جون ایلیا کہلائے ۔کہتے ہیں امروہہ کی سرزمین انتہائی مردم خیز ہے۔ جون ایلیا کے گھرانے کو ہی دیکھ لیں‘ رئیس امروہی‘ سید محمد تقی اور محمد عباس اُن کے بھائی تھے۔ ہر ایک نے اپنے شعبے میں نام کمایا۔ ان کے چچا زاد بھائی کمال امروہی نے بالی ووڈ میں فلم کے شعبے میں بلندیوں کا سفر کیا۔ ان کی فلموں میں پاکیزہ‘ محل‘ اور رضیہ سلطان کے نام ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں ہیں۔
تقسیم کے بعد جون کے تینوں بڑے بھائی تو پاکستان آگئے لیکن جون ایلیا امروہہ میں اپنے آبائی گھر میں ہی رہے۔ جون کے والد ایک عالم اور شاعر تھے۔ شاعری‘ فلسفہ اور علمِ نجوم کا شوق انہیں وراثت میں ملا۔ گھر میں تصوف‘ فلسفہ‘ منطق اور ادب کے موضوعات پر بحثیں ہوتیں اور جون ایک سامع کے طور پر ان مجلسوں میں شریک ہوتے۔ گھر کی علمی اور ادبی فضا میں موضوعات کی رنگارنگی کے علاوہ مختلف زبانوں کی ایک قوسِ قزح تھی جس کے سارے رنگ جون نے اپنی زندگی میں سمو لیے تھے۔ اردو‘ عربی‘ فارسی‘ سنسکرت‘ انگریزی اور عبرانی زندگی کی ہمسفر بن گئی تھیں۔ ان سب علوم کے ساتھ بنیادی طور پر یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا۔ ان کے والد شفیق حسن ایلیا نے جون کی ابتدائی تعلیم اپنی نگرانی میں مکمل کروائی جس میں ادیب فاضل عربی‘ فارسی اور اردو شامل تھی۔ جون امروہہ ہی میں تھے کہ دِق کی بیماری نے انہیں آلیا۔ شاید یہ 1957ء کا سال تھا جب وہ امروہہ کا اپنا آبائی گھر چھوڑ کر کراچی آگئے۔ وہ امروہہ سے نکل تو آئے لیکن امروہہ آخری وقت تک ان کے دل سے نہ نکل سکا۔ وہ زندگی کے جھٹپٹے تک امروہہ کو یاد کرتے رہے۔
ہم تو جیسے وہاں کے تھے ہی نہیں
بے اماں تھے اماں کے تھے ہی نہیں
اب ہمارا مکان کس کا ہے
ہم تو اپنے مکاں کے تھے ہی نہیں
کراچی میں ان کے بھائیوں رئیس امروہوی‘ سید محمد تقی اور محمد عباس کی ایک بڑی کوٹھی تھی۔ وہ انہیں کے ساتھ رہنے لگے۔ لگ بھگ یہی زمانہ تھا جب 'سب رنگ‘ کے ایڈیٹر اور اردو کے سربلند نثرنگار شکیل عادل زادہ بھی رئیس امروہوی کی اس کوٹھی کے مکین بن گئے۔ شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ جون کے بھائیوں نے پاکستان آمد پران کے معاشی استحکام کیلئے ایک رسالے 'انشاء‘ کا آغاز کیا جس کا اداریہ جون ایلیا لکھا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوجوان شکیل عادل زادہ امروہوی برادران کے ساتھ انشاء رسالے کی ادارتی ٹیم میں شریک تھے۔ جون ایلیا کا اگلا ادبی پڑاؤ 'عالمی ڈائجسٹ‘ تھا۔ عالمی ڈائجسٹ میں زاہدہ حنا بھی ادارتی ٹیم کا حصہ بن گئیں۔ پھر یہی زاہدہ حناجون ایلیا کی شریکِ سفر بنیں۔ بعد میں زاہدہ حنا نے اُردو ادب اور صحافت میں ایک بلند مقام پایا۔ بدقسمتی سے ایک طویل عرصہ ساتھ رہنے کے بعد دونوں کی راہیں جُدا ہوگئیں۔ اس کے بعد جون ایلیا کی زندگی ایک کٹی پتنگ کی طرح تھی ۔ جون کی اس حالت کو ان کی بھتیجی شاہانہ امروہوی ایلیا نے اپنی کتاب ''چچا جون‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جون کو خود اذیتی میں مزہ آنے لگا۔ ان کی شاعری کو پڑھیں تو جابجا خود اذیتی کا رویہ نظر آتا ہے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
کراچی میں جون نے کچھ برس اسماعیلہ ایسوسی ایشن میں ملازمت کی جہاں کئی کتب کے تراجم کا موقع ملا۔ اسی طرح کچھ عرصہ اردو ڈکشنری بورڈ میں کام کیا۔ ابتدائی تربیت‘ گہرے مطالعے اور تراجم کے عمل میں وہ الفاظ کی نشست و برخواست سے آشنا ہوگئے تھے۔ زبان پران کی دسترس ان کی شاعری اورنثر میں یہاں وہاں جھلکتی نظر آتی ہے۔ جون ایلیا کی شاعری اوران کی زندگی کا ایک دوسرے پرگہرا اثرہے۔ وہ اپنی ہیئت‘ اپنے رویے اور اپنی متلون مزاجی سے سرتاپا شاعر نظر آتے تھے۔ وہ حُزن پسندتھے۔ اداسی کو گلے لگاکر انہیں راحت ملتی تھی۔ انیسویں صدی کے معروف انگریزی شاعر جان کیٹس نے بھی 1819ء میں نظم Ode on Melancholy لکھی تھی جس میں وہ اداسی کا طلبگار نظر آتا ہے۔ شاید اداسی کی چاہت رومان پسندوں کا خاصا ہے‘ جبھی تو جون کہتے ہیں:
بے قراری سی بے قراری ہے/ وصل ہے اور فراق طاری ہے
کبھی کبھی محسوس ہوتا‘جون اذیت میں بھی لذت کا پہلو تلاش کرتے ہیں
عجیب ہے مری فطرت کہ آج ہی مثلاً
مجھے سکون ملا ہے ترے نہ آنے سے
کہتے ہیں جون ایلیا نے سات آٹھ برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا تھا۔ شعرکہنا ان کیلئے اتنا ہی سہل تھا جیسے ہم سانس لیتے ہیں۔ لگاتار اور بے مشقت لیکن اس سارے عرصے میں انہوں نے کبھی اپنا شعری مجموعہ شائع کرنے کی خواہش نہیں کی۔ خواہش توایک طرف اگر کسی نے ایسا کرنے کا اصرار بھی کیا توانہوں نے سختی سے جھٹک دیا‘ حالانکہ وہ زود نویس اور بسیارگو تھے اوران کی بیاض میں متعدد کتابوں کے مسودے موجودتھے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ سات آٹھ برس سے شاعری کا آغاز کرنے والے جون کی پہلی کتاب ''شاید‘‘1991ء میں شائع ہوئی جبکہ جون کی عمرساٹھ برس تھی۔ یہ آج کے نوجوان فن کاروں کیلئے ایک اہم سبق بھی ہے کہ اپنے فن پر خوب محنت کریں۔ اپنے فن کی نمود کیلئے مناسب وقت کا انتظار کریں اور مقدار کے بجائے معیار کو اپنا مطمح نظر بنائیں۔ جون ایلیا کی ذاتی زندگی کے حوالے سے شکیل عادل زادہ کے پاس سب سے زیادہ یادیں اورباتیں ہیں۔ ان دنوں کی باتیں جب وہ رئیس امروہوی کی بڑی سی کوٹھی میں ایک جگہ رہا کرتے تھے۔ ان دنوں کے قصے جب وہ عالمی ڈائجسٹ میں اکٹھے کام کرتے تھے اور پھران دنوں کا احوال جب جون ایلیا 'سب رنگ‘ ڈائجسٹ کے دفتر میں آکر استراحت فرماتے تھے۔ یہ قصّے اتنے دلچسپ ہیں کہ ایک کتاب بن سکتی ہے۔ مجھے وہ دلربا چاندنی رات یاد آ رہی ہے جب ہم بھوربن کے قریب معروف قلم کار جاوید چوہدری کے لکڑی کے بنے ہوئے خوبصورت گھر کے ٹیرس پر بیٹھے تھے اور شکیل بھائی جون ایلیاکے قصّے سُنا رہے تھے‘ آنسوؤں میں ڈبڈباتے ہوئے اور مسکراہٹوں سے جھلملاتے ہوئے قصے۔ (جاری)