"SSC" (space) message & send to 7575

جون ایلیا: امروہہ کا جانی …(آخری حصہ)

مجھے کراچی کی وہ رات یاد آ رہی ہے جب شکیل عادل زادہ، عقیل عباس جعفری اور میں دو دریا کے کنارے کولاچی ریستوران کی چوبی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ اس روز ہم نے رات کے اندھیرے میں سمندر کے پانیوں پر اُڑتے سفید دودھیا پرندوں کی ہمراہی میں جون ایلیا کے حوالے سے کتنی باتیں کی تھیں۔ اس رات سمندر کے نم پانیوں کی ہوا ہم اپنے چہروں پر محسوس کر رہے تھے۔ تب میں نے شکیل عادل زادہ سے پوچھا تھا: شکیل بھائی! آپ کو جون ایلیا کی کون سی غزل سب سے زیادہ پسند ہے؟ شکیل بھائی مسکرائے اور کہنے لگے: جون کی کئی غزلیں ہیں جن کا جواب نہیں‘ مجھے ایک غزل کے چند شعر یاد آرہے ہیں:
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مُجھ کو دان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تُو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
یہ مُجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
اس روز دو دریا کے خواب جیسے منظر میں ان شعروں کا اثر سوا ہو گیا تھا۔ میں کراچی سے واپس اسلام آباد پہنچا تو سوچا جون کی زندگی کے پُراسرار گلی کوچوں کی سیاحت کی جائے۔ شکیل عادل زادہ نے خالد انصاری کا حوالہ دیا اور ان کا فون نمبر بھی بھیجاکہ وہ جون ایلیا کے شیدائی ہیں۔ میں نے انصاری صاحب سے بات کی اور انہیں سچ مچ جون ایلیا کی محبت میں شرابور پایا۔ یہ خالد انصاری ہی تھے جنہوں نے جون ایلیا کی وفات کے بعد ان کی شاعری کے مسودات کو اکٹھا کیا، ان کی چھان پھٹک کی، انہیں ترتیب دیا اور پھر زیورِ طباعت سے آراستہ کیا۔ یہ ایک ادارے کا کام تھا جو ایک فرد نے کیا۔ اس کے لیے خالد انصاری مبارک باد کے مستحق ہیں۔ عقیل عباس جعفری‘ جو ملک کے مایہ ناز محقق اور کتابوں کے رسیا ہیں‘ نے کمال مہربانی کی اور مجھے رئیس امروہوی کی بیٹی اور جون ایلیا کی بھتیجی شاہانہ رئیس ایلیا کی خوبصورت اسلوب میں لکھی ہوئی کتاب ''چچا جون‘‘اور جون ایلیا کے حوالے سے مختلف مضامین اور انٹرویوز کا مجموعہ ''میں یا میں‘‘ بھیجا۔ راولپنڈی کے شاعر دوست ارشد ملک نے میری تلاش کے نتیجے میں جون کے انشائیوں کی کتاب ''فرنود‘‘ بھیجی۔ ان سب دوستوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے جون ایلیا کی زندگی اور فن کے مختلف گوشوں تک رسائی حاصل کرنے میں مدد دی۔
جون ایلیا جانتے تھے کہ خوشی، خوبصورتی اور خواب کی زندگی مختصر ہوتی ہے۔ وہ زندگی کے عارضی پن سے آگاہ تھے۔ جون کا دلِ حساس اکثر یہ سوچتا تھا کہ خوبصورتی، خوشی اور خواب کا دورانیہ اتنا مختصر کیوں ہوتا ہے۔
کتنی دل کش ہو تم، کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
جون کی شاعری میں ایک استفہامیہ لہجہ ملتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے مختلف طرح کے سوالات جون کے ذہن میں اُٹھتے ہیں اور ان کے اشعار میں ڈھل جاتے ہیں۔ ان میں کچھ تو واقعی سوالات ہوتے ہیں لیکن کچھ سوالات کی شکل میں دراصل ان کی رائے (Statement) ہوتی ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے:؎
ترے بغیر مجھے چین کیسے پڑتا ہے
مرے بغیر تمھیں نیند کیسے آتی ہے
پھر جون کی زندگی اور شاعری میں ایک دور آتا ہے جب یوں محسوس ہوتا ہے زندگی اور وقت ان کے تصرف سے باہر نکل گئے ہیں۔ کوئی مجبوری سی مجبوری ہے۔ یہی وہ مقام ہے جب وہ اس عہدِ زیاں کی جوہری حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں:
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
اس گلی نے یہ سُن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
جون کی زندگی کا آخر آخر تاسف کے جھٹپٹے میں گزرا۔ اس عرصے کی شاعری میں ایک گہری رائیگانی کا احساس ان کی شاعری میں جھلکتا ہے:
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے/ ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
داستاں ختم ہونے والی ہے/ تم مری آخری محبت ہو
دنیا کی بے معنویت کے تکلیف دہ ادراک سے جون کی شاعری میں ایک بیگانگی اور مغائرت کا احساس جنم لیتا ہے:
کسی سے عہد و پیماں پر نہ رہیو
تم اس بستی میں رہیو پر نہ رہیو
نظر پر بار ہو جاتے ہیں منظر
جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو
جون ایلیا کی زندگی میں ان کا ایک ہی شعری مجموعہ ''شاید‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ باقی تمام مجموعے بعد از زندگی اشاعت پذیر ہوئے۔ ان مجموعوں میں 'یعنی‘، 'گمان‘، 'لیکن‘، اور 'گویا‘ شامل ہیں۔ ان شعری مجموعوں کے علاوہ انہوں نے کئی تراجم کئے اور عالمی ڈائجسٹ‘ انشا اور سسپنس ڈائجسٹ میں فکر انگیز نثر پارے لکھے۔ جون کی شاعری اور ان کی نثر کو دیکھیں تو شک ہوتا ہے‘ کیا دونوں کا خالق ایک ہی شخص ہے؟ ان کی شاعری میں ایک بے کنار جذبوں کا وفور ہے اور نثر میں منطق اور ٹھہراؤ کی حکمرانی۔ کچھ ایسا ہی دھچکا مجھے ابنِ انشا کو پڑھتے ہوئے ملا تھا جن کی نثر میں سر تا سر شوخی اور شاعری میں گہری گمبھیر اُداسی ملتی ہے۔ کہتے ہیں ایک بڑا ادب اور ایک بڑا ادیب ایک نشست میں نہیں سمجھے جا سکتے کیونکہ وہ اکثر تہہ در تہہ معنویت کے غلاف میں لپٹے ہوتے ہیں۔ ان کو جب بھی پڑھیں معنی کی ایک نئی سطح ہم پر منکشف ہوتی ہے۔ وہ جو احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:؎
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
تو کچھ یہی معاملہ جون ایلیا کا بھی تھا۔ اس کی شاعری کی چاندنی ہر گزرتے دن کے روزن سے چَھن چَھن کر باہر آنے لگی۔ میں اکثر سوچتا تھا‘ جون ایلیا کی غزلوں کو کیوں نہیں گایا گیا۔ جون ایلیا کی شاعری پر کسی کی نگاہ کیوں نہیں پڑی؟ پھر ایک دن مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب میں نے متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی گلوکارہ شمائلہ حسین کی آواز میں جون ایلیا کی غزلوں کی البم سُنی۔ البم کا نام ''جانی‘‘ ہے۔ یاد رہے ''جانی‘‘ جون ایلیا کا تکیہ کلام تھا۔ یہ مختصر بحروں پر مبنی جون ایلیا کی غزلوں کا انتخاب ہے۔ دل فریب کمپوزیشن اور سحر انگیزاسلوب۔ آواز بے حد شیریں اور انداز حد درجہ منفرد۔ ان غزلوں میں وہ غزل بھی تھی جس کا ایک شعر سن کر میں چونک اٹھا۔
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو/ بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
آج ایک طویل عرصے بعد یہ شعر سُنا تویوں لگا چار دہائیاں پہلے 1980ء کا وہ زمانہ آنکھیں جھپکتے ہوئے جاگ اٹھا ہے جب میں نے پہلی بار جون ایلیا کا یہ شعر سُنا تھا۔ میں سوچنے لگا وقت کا دریا بھی کیسا عجیب دریا ہے۔ کبھی کبھی مسافر کو اپنی پُرشور لہروں کے ساتھ اچانک اسی گُم گشتہ جزیرے پر واپس لے آتا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا ہوتا ہے۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں