"SSC" (space) message & send to 7575

حبیب جالب: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم… (2)

مری کے مشاعرے میں مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں کے علاوہ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ سب کے ذہنوں پر خوف اور مصلحت کے پہرے تھے۔ ایسے میں جب حبیب جالب نے اپنی نظم ''دستور‘‘ پڑھنے کا اعلان کیا تو ناظمِ مشاعرہ نے لپک کر جالب کو روکنے کی کوشش کی لیکن جالب نے اسے سختی سے جھٹک دیا تھا۔آج ہی تو جالب کو دل کی بات کہنے کا موقع ملا تھا۔ جالب نے ایک نگاہ سامعین پر ڈالی اور گرج دار آواز میں ترنم کے ساتھ اپنی نظم ''دستور‘‘ سُنانا شروع کی۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو‘ صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
نظم کی ابتدائی سطروں نے ہی سامعین میں بجلی کی لہر دوڑا دی تھی۔ لوگوں کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں‘ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جبر کی اس کڑکتی دوپہر میں کوئی اہلِ اقتدار سے اختلاف کی جرأت کرے۔ جالب لوگوں کے چہروں پر خوف کے آتے جاتے رنگ دیکھ رہا تھا۔ وہ خوف کے اس حصار کو توڑنا چاہتا تھا۔ اب وہ جبر کے علم برداروں کو براہِ راست للکار رہا تھا۔
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو‘ جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا
اب مشاعرے میں بیٹھے لوگوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں۔ وہ آج سے پہلے نئے دستور کی صرف برکات کے بارے میں سنتے آئے تھے۔ آج جالب اس دستور کا پردہ چاک کرکے تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہا تھا۔
پھول شاخوں پر کھلنے لگے تم کہو ؍ جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو ؍ اس کھلے جھوٹ کو
ذہن کی لُوٹ کو ؍ میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
اب لوگوں کی سرگوشیاں بلند ہونے لگی تھیں۔ جالب کی نظم جیسے گُنگ لوگوں کے دلوں کی آواز بن گئی تھی۔ وہ بات جو ان کے بند لبوں پر پھڑپھڑا کر رہ جاتی تھی آج جالب کی شاعری میں گونج رہی تھی۔ اب جالب براہِ راست جبر کے کارپردازوں سے مخاطب تھا۔
تم نے لُوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمھیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر‘ کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
نظم کی ایک ایک سطر سامعین کے لہو میں بجلیاں بھر رہی تھی۔ جالب نے جب نظم ختم کی تو مشاعرہ ایک جلسے میں بدل چکا تھا۔ جالب کے ساتھ ہی لوگ بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس کے بعد بھی شعرا نے پڑھنا تھا لیکن اب مشاعرہ اکھڑ چکا تھا۔ لوگ جالب کے اردگرد جمع ہو گئے تھے اور اب یہ ہجوم جالب کے ہمراہ مری کی مال روڈ پر چلنے لگا تھا۔ آج جالب نے آمریت کے مضبوط قلعے میں پہلا شگاف ڈال دیا تھا۔ جالب نے لوگوں کے خوف کی زنجیر توڑ دی تھیں لیکن اب اسے اس بغاوت کی کڑی قیمت چکانا تھی۔ اس کی ابتلا کا دور شروع ہو گیا تھا۔ مشاعرے کے بعد ایک سینئر شاعر نے جالب سے ناصحانہ انداز میں کہا تھا ''یہ اس نظم کا موقع نہیں تھا‘‘ جالب نے اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا ''میں موقع پرست نہیں ہوں‘‘۔ اس زمانے میں معروف وکیل منظور قادر صدر ایوب کے وزیر قانون تھے۔ وہی منظور قادر جو ایوب خان کے 1962 کے دستور کے خالق تھے۔ روایت ہے کہ جالب کی نظم دستور کی مقبولیت کے بعد وہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی صاحب سے ملے تو انہیں یہ کہا کہ ایک نوجوان شاعر جالب کی نظم نے ہمارے ''دستور‘‘ کو ختم کر دیا ہے۔ جالب کی یہ نظم جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ جالب کا کمال یہ تھا کہ وہ سادہ الفاظ میں اپنے اردگرد کے مسائل پرعام آدمی کیلئے لکھ رہے تھے۔ یوں ان کی شاعری کا ابلاغ عام آدمی تک براہِ راست ہوتا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے‘ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور آٹا 20 روپے من ہوگیا۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے کافی قیمت تھی جس سے عام غریب آدمی براہِ راست متاثر ہوا تھا۔اس پر حبیب جالب نے نظم لکھی:بیس روپے من آٹا / اس پر بھی ہے سناٹا/ گوہر‘ سہگل‘ آدم جی/ بنے ہیں برلا اور ٹاٹا/ ملک کے دشمن کہلاتے ہیں/ جب ہم کرتے ہیں فریاد/ صدرایوب زندہ باد!
پھر صدارتی الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ صدر ایوب کے مقابلے میں قائدِ اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ مجھے گھر کے بڑوں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کے حامی ہیں۔ محترمہ فاطمہ کا انتخابی نشان لالٹین اور صدر ایوب کا انتخابی نشان پھول تھا۔ اپنے گھر سے بازار تک جاتے ہوئے میں دیوا ر پر محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک انتخابی اشتہار بھی دیکھتا تھا۔ اس میں لالٹین کی تصویر کے اوپر ایک معروف شعر ذرا سی تبدیلی سے لکھا ہوتا تھا ''نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن/ ''پھولوں‘‘ سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ پھول چونکہ صدر ایوب کا انتخابی نشان تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کا ''چراغ‘‘ سے ربط تھا۔ اس طرح شعر میں ایک نئی معنویت پیدا ہو گئی تھی۔ 1965 کا صدارتی الیکشن ایک انوکھا الیکشن تھا جس میں کمپین کے لیے صرف ایک ماہ کا عرصہ دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی کڑی نگرانی میں ان جلسوں میں لوگوں کی محدود تعداد کو شرکت کی اجازت تھی۔ عوام میں فاطمہ جناح کی مقبولیت کا بڑا سبب یہ تھاکہ وہ قوم کے محبوب رہنما قائداعظم کی بہن تھیں۔ ان کی مقبولیت کا دوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ لوگ ان کی صورت میں آمریت کی تاریک رات میں روشنی کی کرن دیکھ رہے تھے‘ لیکن انتخابات بی ڈی (Basic Democracy) سسٹم کے تحت ہو رہے تھے جس میں عام لوگوں نے نہیں بی ڈی ممبرز نے ووٹ دینا تھے۔ حکمران طبقے نے لالچ اور دھونس سے بی ڈی ممبران کو اپنی حمایت پہ مجبور کر دیا۔ یوں ایوب خان الیکشن جیت گئے۔ اس دھونس اور دھاندلی کے باوجود فاطمہ جناح کراچی اور ڈھاکہ میں کامیاب ہو گئیں۔ ان دنوں میں چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا۔ اگلی صبح جب میں محلے کی ایک دکان پر کوئی چیز لینے گیا تو وہاں لوگ نوائے وقت اخبار پڑھ رہے تھے جس کی سرخی تھی انتخابات میں جھرلو چل گیا۔ بہت بعد میں مجھے پتا چلاکہ جھرلو کا مطلب کیا ہوتا ہے۔
جالب کی زندگی اب ایک نئے دور میں داخل ہوگئی تھی جس میں پولیس‘ مقدمے اور جیل اس کی زندگی کا حصہ بن گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی پاکستان میں گورنر ملک امیر محمد خان کا دبدبہ اور خوف ہر طرف چھایا ہوا تھا‘ جس نے جالب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ اور جس کے شکاری کارندے جالب کی تلاش میں تھے۔ ایک رات گھپ تاریک گلی میں چلتے ہوئے جالب کو اچانک اپنے دوست ٹیپو کا خیال آ گیا۔ وہی ٹیپو جو اس پر جان چھڑکتا تھا۔ ہمیشہ بھرا ہوا پستول جس کی جیب میں ہوتا تھا اور جو بمبئی میں بھی سائے کی طرح اس کا محافظ بنا رہا تھا۔ پتا نہیں ٹیپو آج کل کہاں ہو گا؟ تاریک گلی میں جالب اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی اور اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں