رات کے وقت تاریک گلی میں اچانک ٹارچ کی روشنی نے جالب کی آنکھیں چندھیا دی تھیں۔منظر صاف ہوا تو اس نے دیکھا کہ وہ اس کے محلے کا چوکیدار تھا۔اس نے جالب کو پہچان لیا تھا ۔ اس نے جالب کو اطلاح دی کہ تھانے سے سے پولیس کے سپاہی اس کی تلاش میں اس کے گھر پہنچے تھے ‘اسے گھر نہ پا کرو ہ واپس تو چلے گئے لیکن کل پھر آئیں گے۔ اس نے جالب کو مشورہ دیا کہ رات گھر گزار کر صبح سورج نکلنے سے پہلے گھر سے چلا جائے۔ پھر تو پولیس سے آنکھ مچولی ایک معمول بن گئی۔پھر ایک دن جالب کا دوست فضل الرحمن ٹیپو اس سے آملا ‘اب وہ مسلح گارڈ بن کر سائے کی طرح جالب کے ساتھ رہتا۔ حکومت نے الیکشن میں اپوزیشن کو دھاندلی کے ذریعے شکست تو دے دی تھی لیکن محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں نے قوم میں حریت کا شعلہ جگا دیا تھا‘ بیداری کے اس سفر میں جالب قدم بقدم محترمہ فاطمہ جنا ح کے ساتھ تھا۔اس کی شاعری ایک طرف تو جمہوریت پسندوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور دوسری طرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم پہلوؤں کو رقم کر رہی تھی ۔
مجھے وہ نظم یاد آرہی ہے جو جالب نے یونیورسٹی کے طلبا پر فائرنگ کے حوالے سے لکھی تھی۔نظم کیا تھی جذبوں کی ایک پھوار تھی۔جالب نے یہ نظم محترمہ فاطمہ جناح کے جلسے میں ان کی موجودگی میں پڑھی تھی۔اُس دن نظم کے آہنگ‘ جالب کی پڑھت ‘ محترمہ فاطمہ جناح کی موجودگی اور لوگوں کے والہانہ رد ِعمل نے ایک سماں باندھ دیا۔آئیں کچھ دیر کے لیے ہم بھی اس تاریخ ساز دن کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ ہزاروں کا مجمع ہے اور جالب کی آواز گونج رہی ہے:
بچوں پہ چلی گولی/ ماں دیکھ کے یوں بولی/ یہ دل کے مرے ٹکڑے/ یوںروئیں مرے ہوتے/ میں دُور کھڑی دیکھوں/ یہ مجھ سے نہیں ہو گا/ میداں میں نکل آئی/ اک برق سی لہرائی/ ہر دستِ ستم کانپا/ بندوق بھی تھرائی/ ہر سمت صدا گونجی/ میں آتی ہوں میں آئی/ میں آتی ہوں میں آئی۔ جالب کی یہ نظم بھی ان کی دوسری نظموں کی طرح ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی۔
1966 ء میں سیاسی فضا میں ایک جواربھاٹا آیا جب معاہدہ تاشقند کے حوالے سے بھٹو اور ایوب خان میں اختلافات کے نتیجے میں بھٹو ایوب خان کابینہ سے علیحدہ ہو گئے اور اعلان کیا کہ وہ راولپنڈی سے لاڑکانہ ریل کے ذریعے جائیں گے۔بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے ٹھہری ہوئی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کر دی۔ ریل کے سفر میں ہر سٹیشن پر لوگوں نے ان کا والہانہ خیر مقدم کیا اسی دوران بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ البانیہ جا رہے ہیں ۔ اس موقع پر جالب نے ''چھوڑ کے نہ جا ‘‘ کے عنوان سے ایک اثر انگیز نظم لکھی ۔ ان دنوں میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھایہ نظم ''نوائے وقت‘‘ میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی اس نظم کی وجہ سے اُس دن کا اخبار مہنگے داموں فروخت ہوا۔ نظم کے چند اشعار مجھے یاد آرہے ہیں۔
دستِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا/ آواز دے رہا ہے وطن چھوڑ کے نہ جا/ دل تنگ کیوں ہے رات کی تاریکیوں سے تو/ پھوٹے گی صبحِ نو کی کرن چھوڑ کے نہ جا/ اے ذوالفقار تجھ کو قسم ہے حسین کی/ کر احترامِ رسمِ کہن چھوڑ کے نہ جا۔
بھٹو بیرونی دورے پر چلے گئے۔ وہ واپس وطن آئے تو لاہور بھی آئے اور حبیب جالب سے ملنے کی خواہش کی۔ پتہ چلا کہ حبیب جالب کافی ہائوس میں دوستوں کے پاس بیٹھے ہیں۔ بھٹو وہیں آ گئے ۔ گپ شپ کے دوران بولے: جالب صاحب وہ نظم تو سنا ئیں جو آپ نے میرے لیے لکھی تھی۔ جالب نے ہنس کر کہا اس نظم کا مقصد آپ کو باہر جانے سے روکنا تھالیکن آپ تو رکے نہیں اب اس نظم کو سنانے کا کیا فائدہ ؟یوں بات ہنسی میں اُڑ گئی۔ بعد میں جالب نے بتایا کہ میں بھٹو کو ان کے بارے میں لکھی ہوئی نظم سنا کر خوشامد کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن معاشرے میں خوشامدیوں کی کمی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں جالب اکثر ایک دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کیسے ایک دن سرِ راہ ان کی ملاقات حفیظ جالندھری سے ہو گئی ‘ باتوں کے دوران حفیظ صاحب نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا میں اس کا مشیر ہو گیا ہوں ۔ مزید وضاحت پر انہوں نے بتایا صدر ایوب ان سے مشورے کرتے ہیں اور حفیظ صاحب انہیں بتاتے ہیں کہ عوام سے کیسے نپٹا جائے۔ جالب کیلئے یہ ساری صورتحال دلچسپ تھی جسے بعد میں انہوں نے اپنی معروف نظم ''مشیر‘‘ میں قلمبند کیا ۔ کہ کس طرح بادشاہِ وقت کے مشیر عوام کو جہل کا مرکب قرار دیتے اورحکمرانِ وقت کو نجات دہندہ قرار دیتے ہیں:
میں نے اس سے یہ کہا/یہ جو دس کروڑ ہیں /جہل کا نچوڑ ہیں /ان کی فکر سو گئی /ہر اُمید کی کرن/ظلمتوں میں کھو گئی/بے شعور لوگ ہیں/زندگی کا روگ ہیں/تو خدا کا نور ہے /عقل ہے شعور ہے /قوم تیرے ساتھ ہے/تیرے ہی وجود سے/ملک کی نجات ہے/تو ہے مہر ِصبح نور /تیرے بعد رات ہے /بولتے جو چند ہیں/سب یہ شر پسند ہیں /ان کی کھینچ لے زباں/ان کا گھونٹ دے گلا/دس کروڑ یہ گدھے/جن کا نام ہے عوام/کیا بنیں گے حکمران /تو یقیں ہے یہ گماں/اپنی تو دعا ہے یہ/صدر تو رہے سدا /میں نے اس سے یہ کہاـ
مزاحمت کا یہ سفر آسان نہ تھا۔جالب جیل میں ہوتا تو گھر میں فاقوں کی نوبت آجاتی لیکن اس کے گھر والے بھی اس کی طرح خود دار تھے۔کسی کے سامنے دستِ طلب دراز کرنا ان کی خصلت میں نہ تھا۔جالب کو حکومتی کارپردازوں کی طرف سے بہت سی مراعات کا لالچ بھی دیا گیا۔لیکن اس کا آزادی اور جمہوریت کا خواب اسے زیادہ عزیز تھااور وہ اسے کسی مصلحت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا تھا۔ بقول جالب :فرنگی کا جو میں دربان ہوتا/تو جینا کس قدر آسان ہوتا/میرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے/میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا/جھکا کے سرکو ہو جاتا جوسر میں/تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جبر کے خلاف مزاحمت کی تاریخ میں جالب کی قربانیاںہمیشہ جگمگاتی رہیں گی۔اور اب مجھے وہ دن یاد آرہا ہے جسے میں کبھی بھول نہ پائوں گایہ 1966ء کی بات ہے جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک شام میں سکول کا ہوم ورک کر رہا تھا‘ سب کچھ معمول کے مطابق تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی‘ میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا‘ باہر میرے ماموں کھڑے تھے۔ انہوں نے جلدی سے پلٹ کر دروازے کو چٹخنی لگائی اور کوئی بات کیے بغیر تیزی سے کمرے میں چلے گئے ۔یہ سب کچھ خلافِ معمول تھا۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔میں نے دیکھا وہ ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کے چہرے پر سنجیدگی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات تھے۔کمرے میں سناٹا بھرا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے خاموشی سے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک کتاب نکالی اور مدھم سرگوشی میں مجھے کہا : دیکھو اس کتا ب کا کسی کو علم نہ ہو‘ نہ گھر میں نہ سکول میں کیونکہ اس کتاب کا رکھنا اور پڑھناجرم ہے اور کسی کو پتہ چل گیا کہ ہمارے گھرمیں یہ کتاب ہے تو ہم سب پکڑے جائیں گے۔مجھ سے وعدہ لینے کے بعد انہوں نے مجھے کتاب کا سر ورق دکھا یا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا''سرِ مقتل‘‘ ۔ (جاری)