نورالہدیٰ شاہ کے ڈرامے ''جنگل‘‘ کی شہرت جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگوں کے لیے یہ خوش گوار حیرت کی بات تھی کہ بڑے بڑے ڈرامہ نگاروں کے درمیان نورالہدیٰ شاہ نے ڈرامے میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی تھی۔ ڈرامے کی ہدایات ہارون رند نے دی تھیں اور اداکاروں میں شفیع محمد، نور محمد لاشاری، سکینہ سموں، منصور بلوچ، عثمان پیرزادہ، اسمٰعیل شاہ، محمود علی شامل تھے۔ یہ ایک روایت شکن لکھاری کا ایک روایت شکن ڈرامہ تھا۔ اس کے بعد تو نورالہدیٰ کے ڈراموں کی ایک لمبی قطار ہے جس میں ہر ڈرامہ اپنی مثال آپ ہے۔ چند ڈراموں کے نام مجھے یاد آرہے ہیں‘ جن میں ماروی، تپش، اب مرا انتظار کر، حوا کی بیٹی اور آسمان تک دیوار شامل ہیں۔
نورالہدیٰ شاہ کے ڈراموں کی خاص بات سماجی مسائل کے حوالے سے ان کا گہرا مشاہدہ اور مکالمہ نگاری پر فنکارانہ گرفت ہے۔ نورالہدیٰ کا سماجی شعور ان کے فن میں رچ بس گیا ہے۔ جنگل ڈرامے نے جہاں ایک طرف ہم جیسے ٹیلی ویژن ڈرامے دیکھنے والوں کے دل موہ لیے تھے‘ وہیں اس نے جاگیردارانہ طبقے پر کاری وار کیا بھی تھا۔ نورالہدیٰ شاہ کو مخالفت کی یہ تپش اپنے ارد گرد محسوس ہو رہی تھی اور پھر ایک روز سادات کی انجمن کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ نورالہدیٰ شاہ کا سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ لیکن نورالہدیٰ تو کسی اور مٹی کی بنی ہوئی تھی۔ کوئی سماجی دباؤ اس کی سوچ کو اسیر نہ کر سکا، نہ ہی کوئی دھمکی اس کے قلم کے بانکپن کو کجلا سکی۔
تب ایک خوش گوار واقعہ رونما ہوا۔ نورالہدیٰ کی والدہ‘ جو ہمیشہ سے اس کے لکھنے کے خلاف تھیں‘ جنگل ڈرامہ دیکھنے کے بعد اپنی بیٹی اور اس کی تحریروں پر فخر کرنے لگیں۔ جنگل کی تاثیر لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئی تھی۔ میں نے نورالہدیٰ سے پوچھا: آپ کی والدہ جنگل کے بعد یکایک آپ کی تحریروں کے حق میں کیسے ہو گئیں۔ نورالہدیٰ کی آنکھوں میں مسکراہٹ کے بھنور پڑنے لگے۔ ہاں یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ میرے والد اور والدہ کا اکثر وقت مدینہ منورہ میں گزرتا تھا۔ وہ سچے عاشقِ رسولؐ تھے۔ ایک بار وہ جہاز میں سعودی عرب سے پاکستان آرہے تھے۔ دورانِ پرواز وہ آپس میں سندھی زبان میں گفتگو کر رہے تھے کہ ایک ایئرہوسٹس ان کے پاس آکر رُکی اور ان سے سندھی زبان میں پوچھنے لگی: آپ سندھ میں کہاں رہتے ہیں؟ جب اسے معلوم ہوا کہ وہ حیدر آباد کے رہنے والے ہیں تو اس نے معمول کا اگلا سوال کیا کہ ان کی ذات کیا ہے؟ جب اسے پتا چلا کہ وہ سادات خاندان سے ہیں تو ایئرہوسٹس نے ان سے پوچھا: پھر تو آپ نورالہدیٰ شاہ کو جانتے ہوں گے۔ نورالہدیٰ کے ماں باپ نے ایک دوسرے کو دیکھا‘ پھر والدہ نے محبت سے بتایا نورالہدیٰ میری بیٹی ہے۔ اب ایئرہوسٹس کے چونکنے کی باری تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر والدہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا‘ جُھک کر اس کو بوسہ دیا اور پھر والدہ سے کہا: آپ خوش قسمت ہیں نورالہدیٰ آپ کی بیٹی ہے۔ پھر وہ بولی: آپ گھر جائیں گے تو نورالہدیٰ کو بتائیے گا‘ میں نے اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا ہے۔ مجھے یہ واقعہ سُناتے ہوئے نورالہدیٰ کی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ گئیں۔ چاہنے والوں کی بے لوث محبت سے بڑا اعزاز کیا ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد کی رات بھیگ رہی تھی۔ میں نے نورالہدیٰ سے پوچھا: کبھی آپ کو لگا کہ آپ کی تحریروں اور ڈراموں سے واقعی سماج میں کسی سطح پر کوئی تبدیلی آئی ہے۔ نورالہدیٰ نے گلاس میں سافٹ ڈرنک انڈیلی اور ایک لمبا گھونٹ لینے کے بعد کہا: دیکھیں سماجی تبدیلی ناپنے کو کوئی پیمانہ تو نہیں‘ لیکن آپ کو ایک واقعہ سُناتی ہوں۔ کراچی کا واقعہ۔ ایک بار میں اپنی والدہ کے پاس گئی تو انہوں نے کسی کو بھیجا کہ ہمسائے میں اُس عورت کو بُلا لائے جسے نورالہدیٰ سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ وہ عورت آئی تو اس کے ہمراہ کوئی سال بھر کی ایک بچی تھی۔ نورالہدیٰ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ایک عرصے سے اس سے ملنا چاہ رہی تھی۔ پھر اس عورت نے اپنی کہانی سُنائی کہ کیسے وہ جاگیردارانہ نظام کا شکار تھی۔ اس کے ماں باپ کی حویلی کی اونچی دیواریں تھیں اور اسے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ خاندان میں لڑکیوں کی شادی کی کوئی روایت نہ تھی۔ انہی دنوں جنگل ڈرامہ ٹی وی پر چل رہا تھا اور اس کا بھائی‘ جو کراچی میں رہتا تھا‘ یہ ڈرامہ باقاعدگی سے دیکھتا تھا۔ ڈرامہ دیکھ کر اس کے ذہن نے فرسودہ جاگیردارانہ روایت سے بغاوت کی۔ وہ ایک روز گاؤں حویلی میں آیا اور بہن سے کہا: اگر تُم چاہو تو کراچی میں مَیں نے خالہ زاد بھائی سے بات کی ہے۔ لڑکی نے اقرار میں سر ہِلا دیا۔ اس رات دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے حویلی اور گاؤں سے دور کراچی آگئے۔ جہاں اس کی شادی اپنے خالہ زاد بھائی سے کر دی گئی۔ پھر ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اپنی کہانی سُنانے کے بعد اس عورت نے نورالہدیٰ سے پوچھا: آپ میری بیٹی کا نام نہیں پوچھیں گی؟ میں نے اس کا نام نورالہدیٰ رکھا ہے۔ یہی وہ نام ہے‘ جس کا یہ انعام ہے۔ یہ واقعہ سُناتے ہوئے نورالہدیٰ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ کہنے لگیں: ایک لکھنے والے کے لیے اس سے بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے؟
میں نے موضوع بدلتے ہوئے کہا: ادب اور موسیقی کا شوق آپ کے نانا، والدہ اور آپ تک پہنچا۔ کیا آپ کے بچوں کو بھی کتاب اور موسیقی کا شوق ہے؟ اس پر نورالہدیٰ نے قہقہہ لگایا اور بولیں ''لیں میں آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں۔ جیسا کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا کہ مری والدہ کو موسیقی کا حد درجہ شوق تھا اور وہ شاہ لطیف کی کافیاں اکثر گایا کرتی تھیں۔ ایک بار میں اپنے بچوں کے ہمراہ ان کے پاس گئی۔ ان دنوں وہ مدینہ منورہ میں رہتی تھیں۔ ایک روز میں بچوں کو ان کے پاس چھوڑ کر بازار گئی۔ واپس آئی تو وہ ناراض بیٹھی تھیں۔ میں پریشان ہوگئی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا: تم نے اپنے بچوں کو کچھ نہیں بتایا؟ میں نے خالی نگاہوں سے ان کو دیکھا۔ وہ بولیں: تم بازار گئی ہوئی تھی تو میں نے تمہارے بیٹے سے پوچھا: تمہیں کافی آتی ہے تو اس نے جواب دیا: جی آتی ہے‘ آپ کون سی پئیں گی؟ دودھ والی یا دودھ کے بغیر۔ اماں کی یہ بات سُن کر پہلے تو میں خوب ہنسی اور پھر سنجیدہ ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے خاص طور پر اس بات کا اہتمام کیا کہ میرے بچوں کا کتاب اور اپنی تہذیب سے رشتہ استوار ہو اور شکر ہے کہ میرے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ میں نے کہا: مجھے بہت دیر میں پتا چلا آپ شاعرہ بھی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ اپنی کوئی نظم سُنائیں اور اس پر اس رات کا اختتام ہو۔ نورالہدیٰ نے کہا: زبانی تو مجھے کچھ بھی یاد نہیں‘ اپنے موبائل فون میں دیکھتی ہوں۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔ نورالہدیٰ نے نظم سُنانا شروع کی۔ یہ ایک طویل نظم تھی‘ جس کا عنوان تھا ''عالی جاہ، میں باغی ہو گیا ہوں‘‘ اس نظم کی آخری سطریں کچھ یوں تھیں:
اُٹھ اے سنگ ریزۂ راہگزر/ ابابیلوں کی چونچ میں خود کو بھر/ اور سنگ و خشت کی برسات بن/ عالی جاہ مرا دماغ باغی ہو گیا ہے‘‘۔
اس روز میں نے نورالہدیٰ کی مزاحمتی شاعری سنی اور حیران رہ گیا۔ میں تو اسے افسانہ نویس اور ڈرامہ نگار کے طور پر جانتا تھا۔ میں نے نورالہدیٰ سے پوچھا: اگر آپ سے اب ڈرامہ لکھنے کا کہا جائے تو آپ کا کیا ردِ عمل ہو گا؟ نورالہدیٰ نے ایک لمحے کو اپنی آنکھیں بند کیں‘ چار دہائیوں کا سفر اس کی نگاہوں میں زندہ ہو گیا۔ پھر مجھے دیکھ کر کہنے لگیں: آج کا ڈرامہ میں نہیں لکھ سکتی۔ آج کے دور میں لکھنا اوّل و آخر کاروبار ہے۔ اس سے بہتر ہے اس دوران میں کچھ پڑھ لوں۔ اب نصف شب گزر چکی تھی اور اگلے روز نورالہدیٰ نے واپس کراچی جانا تھا۔ میں نے رخصت چاہی۔ واپسی کے سفر میں میرے ہمراہ اسلام آباد کی رات کی مہک تھی اور نورالہدیٰ سے گفتگو کی چاندنی‘ جو گئے دنوں کے شب و روز سے کشید کی گئی تھی۔