"SSC" (space) message & send to 7575

زیڈ اے بُخاری کی سرگزشت

بعض گھرانوں پر قدرت اپنی سخاوت میں بہت فیاض ہوتی ہے۔ اسی طرح کا ایک گھرانہ پشاور میں پیروں کا تھا‘ جہاں دو بھائیوں نے اپنی محنت‘ لگن اور تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت ملکی اور غیر ملکی سطح پر نام کمایا اور جن کا نام اپنے اپنے شعبوں میں تا دیر جگمگاتا رہے گا۔ ان بھائیوں میں ایک پطرس بُخاری اور دوسرے زیڈ ا ے بُخاری تھے۔ پطرس کا اصل نام احمد شاہ بُخاری تھا۔ پطرس بُخاری گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل رہے۔ بعد میں وہ پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے اور اقوامِ متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ اُردو ادب میں ''پطرس کے مضامین‘‘ کا تذکرہ ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ پطرس کے چھوٹے بھائی زیڈ اے بُخاری تھے جو براڈکاسٹنگ کی دنیا میں ایک اساطیری کردار کے طور ابھرے۔ کہتے ہیں‘ برگد کے درخت کے نیچے کوئی پودا نشوونما نہیں پا سکتا‘ لیکن زیڈ اے بُخاری نے اس کہاوت کو غلط ثابت کر دیا۔ ایسا کیونکر ممکن ہوا‘ یہ دلچسپ اور تفصیلی داستان ان کی آپ بیتی ''سرگزشت‘‘ میں ملتی ہے۔ کئی برس پہلے میں نے اس دلچسپ کتاب کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کا ذائقہ اب تک باقی ہے۔ کل یونہی اپنی سٹڈی میں کسی کتاب کی تلاش کر رہا تھا کہ زیڈ اے بُخاری کی سرگزشت پر نظر پڑی۔ بے اختیار میں نے ریک سے کتاب نکالی اور وہیں کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے لگا۔ اس روز اسلام آباد میں خوب بارش ہوئی تھی اور اولے پڑے تھے۔ میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا دیا تھا اور اس سرگزشت کی سحر انگیز دنیا میں کھو گیا۔ اس کتاب کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ یہ 1962ء کی بات ہے‘ پاکستان میں ایک نئے اُردو اخبار ''حریت‘‘ کے اجرا کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ اخبار کے مدیر انقلاب ماتری تھے۔ نئے اخبار کیلئے انوکھے اور دلچسپ مواد کی تیاری پر سوچ بچار ہو رہی تھی کہ اچانک معروف صحافی نصراللہ خان اور انقلاب ماتری کا خیال زیڈ اے بخاری کی طرف گیا‘ کیوں نہ ان سے درخواست کی جائے کہ وہ حریت اخبار کیلئے کالم لکھیں۔ فیصلہ ہوا کہ زیڈ اے بُخاری کو کسی خاص موضوع کا پابند بنانے کے بجائے انہیں کہا جائے وہ اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات لکھیں۔ یوں جب 3 دسمبر 1962ء کو حریت اخبار کا پہلا شمارہ آیا تو اس میں زیڈ اے بُخاری کا کالم بھی شامل تھا۔ بعد میں انہی کالموں کا انتخاب ''سرگزشت‘‘ کی صورت میں سامنے آیا‘ جو زیڈ اے بُخاری کی ہنگامہ خیز زندگی اور اس عہد کی سیاسی اور معاشرتی تاریخ ہے۔ زیڈ اے بُخاری کی ابتدائی تعلیم پشاور کے ایک سرکاری سکول کی ہے جہاں کے پرنسپل انگریز ہوا کرتے تھے۔ بہت بعد میں یہ عہدہ مقامی لوگوں کو ملا۔ زیڈ اے بُخاری کے دورِ طالبِ علمی میں علامہ مشرقی اس سکول کے پرنسپل بنے‘ جو علم و فضل کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے۔ منشی فاضل کیلئے انہوں نے اوریئنٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے وہ منشی فاضل کی ڈگری لے کے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک دوست کی وساطت سے انہیں ایک ملازمت کا اشتہار ملا جس میں شملہ میں واقع بورڈ آف ایگزامینز میں ایک ممبر کی ضرورت تھی۔ اس محکمے کا کام مشرقی زبانوں میں سیکھنے والوں کا امتحان لینا اور کامیاب امیدواروں کو سند دینا تھا۔ اشتہار میں لکھا تھا کہ امیدوار انگریزی، اُردو، فارسی، پشتو، پنجابی اور عربی جانتا ہو۔ یہ 1925ء کا سال تھا۔ زیڈ اے بُخاری نے درخواست بھیج دی۔ درخواست میں دو ریفرنسز لکھنے تھے۔ زیڈ اے بُخاری کی درخواست پر یہ دو ریفرنسز پروفیسر محمد سعید دہلوی اور ڈاکٹر محمد اقبال کے تھے۔ انٹرویو میں زیڈ اے بُخاری کا انتخاب ہو گیا‘ اور وہ شملہ میں بورڈ آف ایگزامینز میں اپنے فرائض سر انجام دینے لگے‘ لیکن زیڈ اے بُخاری کے اندر کا آرٹسٹ اپنے اظہار کے لیے نئی راہیں تلاش کر رہا تھا۔ جلد ہی یہ موقع بھی مل گیا۔ زیڈ اے بُخاری نے شملہ کے آڈیٹوریم میں امتیاز علی تاج کا مشہورِ زمانہ ڈرامہ ''انارکلی‘‘ سٹیج کیا۔ ڈرامے میں سلیم کا مرکزی کردار زیڈ اے بُخاری نے خود کیا۔ ڈرامہ دیکھنے والوں میں شملہ میں مقیم برٹش آرمی کے افسران بھی تھے‘ جنہوں نے ڈرامے پر خوب داد دی خاص طور پر سلیم کے کردار کو پسند کیا گیا۔ بعد میں یہ ڈرامہ زیڈ اے بُخاری کی زندگی میں اہم موڑ ثابت ہوا۔
ہوا یوں کہ ایک محفل میں زیڈ اے بُخاری کے ایک پُرانے دوست نے انہیں بتایا کہ لارڈ ولنگڈن کی ضیافت میں اس کی ملاقات فیلڈن نامی ایک شخص سے ہوئی جو لندن سے آیا تھا‘ اور اس کے ہندوستان آنے کا مقصد یہاں براڈ کاسٹنگ کی بنیاد رکھنا تھا۔ دوست کے اصرار پر زیڈ اے بُخاری نے اپنی درخواست بھیج دی۔ انٹرویو کی کال آئی اور جب زیڈ اے بُخاری انٹرویو کیلئے دہلی پہنچے تو انہیں پتا چلا کہ سلیکشن بورڈ میں ان کے بڑے بھائی پطرس بُخاری بھی شامل ہیں۔ زیڈ اے بُخاری فیلڈن سے ملے اور بتایا کہ چونکہ ان کے بڑے بھائی سلیکشن بورڈ میں شامل ہیں چنانچہ وہ انٹرویو نہیں دیں گے۔ ادھر جب پطرس بُخاری کو پتا چلا کہ ان کا چھوٹا بھائی امیدواروں میں شامل ہے تو انہوں نے انٹرویو بورڈ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی۔ فیلڈن کے اصرار پر زیڈ اے بُخاری انٹرویو کیلئے رضامند ہوئے اور انٹرویو کے بعد انہیں ڈائریکٹر اور پروگرامز کے عہدے کیلئے منتخب کر لیا گیا۔
دہلی میں ایک عمارت میں ریڈیو کا آغاز کیا گیا تھا۔ پہلے ہی دن زیڈ اے بُخاری کی ملاقات اسرارالحق مجاز، آغا اشرف اور سجاد سرمد نیازی سے ہوئی اور بعد میں ادیبوں، شاعروں، موسیقاروں، گلوکاروں اور سیاستدانوں کی ایک کہکشاں تھی جس سے زیڈ اے بُخاری کا تعارف ہوا۔ رشید احمد، جی کے فرید، ن م راشد، حفیظ ہو شیار پوری، کرنل چند، راجندر سنگھ بیدی، کیسے کیسے لعل و جواہر تھے جو ریڈیو کے ساتھ وابستہ تھے۔ ریڈیو کی اس ٹیم کا سربراہ فیلڈن تھا جو ایک متمول انگریز خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ریڈیو جس کا جنون تھا اور یہی جنون اسے ہندوستان لے آیا تھا۔ فیلڈن کی نظر ہر پہلو پر ہوتی تھی۔ وہ اعلیٰ پیشہ ورانہ معیارات کا قائل تھا اور اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہ کرتا تھا۔ زیڈ اے بُخاری کے ساتھ فیلڈن کا تعلق دوستی کا تھا۔ شام کا کھانا دونوں بلاناغہ فیلڈن کے گھر کھاتے تھے لیکن پیشہ ورانہ معاملات میں وہ دوستی کو بالائے طاق رکھ دیتا تھا۔ فیلڈن نے اس روز ریڈیو کی گھڑی کو لندن کے کلاک سے ملا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ریڈیو دہلی کی گھڑی لندن کے کلاک سے 3 منٹ پیچھے ہے۔ فیلڈن کا چہرہ غصّے سے سُرخ ہورہا تھا۔ اس نے پوچھا: دہلی ریڈیو اپنی گھڑی کس گھڑی سے ملاتا ہے؟ زیڈ اے بُخاری بتاتے ہیں‘ ہم نے فیلڈن کو بتایا کہ دہلی ریڈیو کی گھڑی کو ڈاک اور تار گھر کے محکمے کی گھڑی سے ملاتے ہیں۔ اس پر فیلڈن نے ڈائریکٹر جنرل پی اینڈ ٹی سے پوچھا: محکمے کی گھڑی کس گھڑی سے ملائی جاتی ہے۔ جواب ملا: ریلوے والوں کی گھڑی سے۔ جب ریلوے والوں سے پوچھا گیاکہ وہ اپنی گھڑی کس گھڑی سے ملاتے ہیں تو پتا چلاکہ وہ اپنی گھڑی دہلی ریڈیو کی گھڑی سے ملاتے ہیں۔ اس انکشاف پر فیلڈن کا ردِعمل دیدنی تھا۔ اب ریڈیو کے ساتھ معاشرے کے اہم افراد وابستہ ہورہے تھے۔ ایک دن خبر ملی کہ پطرس بُخاری نے سٹیشن ڈائریکٹر کے طور پر دہلی ریڈیو کو جوائن کرلیا ہے۔ اس سے پیشتر زیڈ اے بُخاری ڈائریکٹر پروگرامز کے عہدے سے ترقی پاکر اسسٹنٹ ڈائریکٹر بن گئے تھے۔ اب ایک بھائی سٹیشن ڈائریکٹر تھا تو دوسرا بھائی اسسٹنٹ ڈائریکٹر۔ ہر طرف چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ اس زمانے میں دیوان سنگھ مفتون کے اخبار ''ریاست‘‘ کا شہرہ تھا جو حکمرانوں اور راجاؤں کی پگڑیاں اچھالنے کیلئے جانا جاتا تھا۔ دیوان سنگھ مفتون کے ذہنِ رساکو ایک انوکھا خیال سوجھا، اس نے BBC کو ''بُخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کا مُخفف قراردیا۔ دیوان سنگھ مفتون کی ''بُخاری برادرز کارپوریشن‘‘ کی اصطلاح اتنی دلچسپ اور معنی خیز تھی کہ دنوں میں دہلی کے گلی کوچوں میں پھیل گئی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں