"SSC" (space) message & send to 7575

اپنی گلی میں اجنبی

وقت بھی کیسا جادوگر ہے‘ کس طرح اپنے سحر سے مانوس چیزوں کو اجنبی بنا دیتا ہے‘ یا شاید وقت کی دھند میں کھو کر ہم مانوس چیزوں کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ اس روز بھی میرے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ عید کا تیسرا دن تھا اور صبح کا وقت۔ عید کے پہلے دو دنوں کی ہماہمی سے تھک کر سب گھر والے سو رہے تھے۔ میں نے گاڑی نکالی اور راولپنڈی کا رُخ کیا۔ میری منزل ہارلے سٹریٹ کا قبرستان تھی‘ جہاں میرے والدین اور بھائی کی قبریں ہیں۔ اسلام آباد سے راولپنڈی کا سفر اتنا زیادہ نہیں۔ اس روز تو سڑکیں بھی خالی تھیں۔ یوں لگتا تھا راولپنڈی کی سڑکیں اور گلیاں سو رہی ہیں۔ راولپنڈی جانا میرے لیے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی خواب نگر کا سفر ہو۔ لالکرتی سے ہو کر جب میں گورا قبرستان کی سڑک سے گزر رہا تھا تو مجھے وہ سہ پہریں یاد آ گئیں جب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ گورا قبرستان کے گھنے سر بلند درختوں کی چھاؤں میں بنچ پر بیٹھ کر پڑھتا تھا۔ گورا قبرستان کے گیٹ کے بالکل سامنے مسجد تھی جس کے ایک طرف ایک دو دکانیں تھیں اور دوسری طرف ایک میدان‘ جہاں ہم کھیلا کرتے تھے۔ اس سڑک سے گزرتے ہوئے مجھے یوں لگا‘ وہ سارے دن رات ایک بار پھر سے جاگ اُٹھے ہوں۔ میں نے گاڑی دائیں طرف والی سڑک پر موڑی اور پھر ایک دو سڑکوں سے گزرتا ہوا اس مسجد کے سامنے پہنچ گیا جس کے قریب ہی ہارلے سٹریٹ کا قبرستان ہے۔ مسجد کے سامنے والی جگہ پر گاڑی پارک کر کے میں قبرستان میں داخل ہو گیا۔
ساون نے ہر طرف ہریالی کی چادر بچھائی ہوئی تھی۔ قبروں کے درمیان تنگ راستوں پر چلتے ہوئے میں آگے بڑھ رہا تھا۔ سب سے پہلے انعام بھائی کی قبر تھی جو مجھ سے پانچ سال بڑے تھے اور جو 2013 میں رمضان کی 27 تاریخ کو ہم سے بچھڑ گئے تھے۔ انعام بھائی کو جب بھی یاد کرتا ہوں تو ایک شفیق، مہربان اور دوسروں پر ہر دم سب کچھ لُٹا دینے والی شخصیت کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ یہاں سے آگے بڑھتا ہوں۔ اب میں والد صاحب کی قبر کے پاس کھڑا ہوں۔ کیا باغ و بہار اور مہربان شخص تھے بالکل دوستوں جیسے۔ ان کی شخصیت میں بہت سے فنون جمع ہو گئے تھے۔ کتابت، حکمت، خطابت، مصوری، شاعری۔ میں نے دیکھا ان کی قبر پر کاسنی رنگ کے پھول کِھلے ہوئے تھے جو رُک رُک کر چلتی ہوا میں جُھول رہے تھے۔ یہاں سے آگے کُچھ قبروں کے فاصلے پر میری والدہ کی قبر ہے۔ میں نے جُھک کر لوحِ مزار کو دیکھا جس پر تاریخِ وفات درج تھی: 5جنوری2007۔ اچانک مجھے خیال آیا آج بھی جمعہ کا دن ہے۔ والدہ کے بغیر چودہ سال کا یہ عرصہ ایسے ہی گزرا جیسے زندگی کی کڑی دھوپ میں سر پر دعائوں کا سائبان نہ ہو۔ اگر والدہ کی شخصیت کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو وہ لفظ قربانی ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے قربان کر دی تھی۔ والدہ کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر مجھے عجیب سکون محسوس ہوا۔ ایسا لگا کُچھ دیر کے لیے میں زندگی کے سارے شوروغُل سے کَٹ کر ماں کی آغوش میں سر رکھ کر سو گیا ہوں۔ قبرستان کے متولی کی آواز نے مجھے جگا دیا۔ وہ کہہ رہا تھا: ساون کی وجہ سے گھاس زیادہ اُگ آئی ہے لیکن آپ فکر نہ کریں میں قبروں کے اردگرد سے فالتو گھاس صاف کردوں گا۔ میں نے اسے ہمیشہ کی طرح کُچھ پیسے دیے اور ماں سے اجازت لے کر بوجھل قدموں سے واپس چلنے لگا۔
گاڑی میں بیٹھ کر میں نے سوچا‘ اسلام آباد میں میرے گھر والے تو ابھی تک سو رہے ہوں گے۔ کیوں نہ یہاں سے کُچھ فاصلے پر اس گلی میں جاؤں جہاں میرا بچپن اور جوانی گزرے تھے۔ وہی گھر جہاں ہم سب بہن بھائی اکٹھے رہتے تھے۔ جہاں والدہ، والد اور انعام بھائی بھی ہوتے تھے۔ اس گلی میں گئے ہوئے ایک مدت ہو گئی تھی۔ سُنا ہے گلی کے اکثر مکین اب وہاں سے چلے گئے ہیں اور ان کی جگہ نئے لوگ آ گئے ہیں۔ اب تو یہ علاقہ پہچانا نہیں جا رہا۔ ہارلے سٹریٹ سے سڑک نشیب میں آ کر اوپر اُٹھتی ہے۔ وہیں نشیب میں بائیں طرف ایک اور گہرا نشیب تھا‘ جس کے قریب اینٹیں بنانے والا بھٹہ تھا۔ اس میدان میں ہم کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ بھٹے کی وجہ سے اس میدان کو بھٹہ گراؤنڈ کہتے تھے۔ آج میرے بائیں طرف مکانوں کی قطاریں تھیں۔ اب کوئی اس جگہ کو دیکھے تو اسے یقین نہ آئے کہ یہاں ایک گہرا نشیب تھا جو بھٹہ گراؤنڈ کہلاتا تھا‘ جہاں ہر شام لڑکے کرکٹ کھیلنے آتے تھے۔ اب سڑک اونچائی کی طرف جا کر سیدھی ہو گئی ہے۔ آگے سے مجھے دائیں ہاتھ مڑنا ہے۔ اس موڑ پر گوشت کی ایک دکان ہوتی تھی اور اس کے برابر مِینے نائی کی دکان تھی۔ مِینے کا اصل نام امین تھا لیکن لوگ اسے مِینا کہہ کر بُلاتے تھے۔ ذرا آگے جا کر دائیں ہاتھ وہ گلی ہے جہاں میرا بچپن کا گھر ہوا کرتا تھا‘ جس کے قریب جاتے ہی میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہونے لگی تھیں۔ گلی میں بائیں طرف والے پہلے گھر میں شبیر رہا کرتا تھا۔ اس کی طبیعت میں شرارت کا رنگ نمایاں تھا۔ اسے موسیقی کا شوق تھا‘ اور پُرانے گیتوں کی بے شمار کیسٹس اس کے پاس تھیں۔ سرِ شام اس کی بیٹھک میں دوست آ جاتے۔ اس سے اگلے گھر میں فیصل اور طغرل رہتے تھے جن کے والد پولیس میں تھے۔ ان کی چھت شبیر کی چھت سے ملی ہوئی تھی۔
ایک روز گرمیوں کی دوپہر میں شبیر دبے پاؤں اپنی چھت سے فیصل اور طغرل کی چھت پر گیا جہاں مرغیوں کا ڈربہ بنا ہوا تھا۔ وہاں سے اس نے ایک مرغی کو پکڑا اور واپس اپنی چھت پر آ گیا۔ میں آج تک سوچتا ہوں‘ مرغی نے شور کیوں نہیں مچایا‘ اور اگر شبیر اس روز پکڑا جاتا تو کیا ہوتا؟ خیر اس روز رات کو شبیر نے سب کو گھر میں دعوت دی جس میں اس نے چکن کڑاھی بنائی تھی۔ دعوت میں فیصل اور طغرل بھی شریک تھے۔ سب نے شبیر کی کوکنگ کی تعریف کی۔ بہت دنوں بعد شبیر نے خود یہ راز فاش کیا کہ وہ مرغی کہاں سے آئی تھی۔ شبیر یہاں کرائے پر رہتا تھا۔ اسی طرح فیصل اور طغرل بھی کرائے کے گھر میں رہتے تھے۔ میں نے دیکھا‘ یہ دونوں مکان اپنی جگہ پر تھے لیکن وہاں کے مکین اب نجانے کہاں ہوں گے۔
اس سے آگے والا گھر مسعود صاحب کا تھا۔ انتہائی نفیس اور شریف النفس انسان۔ دن میں وہ کسی دفتر میں کام کرتے تھے‘ اور شام کو ٹیوشنز پڑھاتے تھے۔ ان کے پاس ویسپا سکوٹر تھا۔ جب رات کو ویسپا سکوٹر کی آواز آتی تو ہم سمجھ جاتے کہ مسعود صاحب دن بھر کی مشقت کے بعد واپس گھر لوٹے ہیں۔ ان کی بیگم مِس طاہرہ لالکرتی کے ایک سکول میں پڑھاتی تھیں۔ اسی سکول میں میری بہن بھی پڑھاتی تھیں۔ یوں دونوں کی خوب دوستی تھی۔ یہ ساٹھ کی دہائی کا زمانہ تھا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن کا نیا نیا آغاز ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں اس وقت تک ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا۔ میں سکول میں پڑھتا تھا اور 'الف نون‘ ڈرامہ دیکھنے مِس طاہرہ کے گھر جاتا تھا۔ وہیں پہ میں نے ٹی وی پر پاکستانی ٹیم کے ہاکی میچ دیکھے تھے۔ ان کا مکان یہیں ہے لیکن اب اس مکان میں نئے مکین آ گئے ہیں۔ مسعود صاحب کے فوت ہونے کے بعد مِس طاہرہ نے یہ گھر بیچ دیا تھا۔ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں‘ معلوم نہیں اب وہ کہاں رہ رہے ہوں گے۔ مِس طاہرہ کے گھر کے بالکل سامنے ہمارا گھر تھا جس کی کشش مجھے آج یہاں کھینچ لائی تھی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں