"SSC" (space) message & send to 7575

اپنی گلی میں اجنبی

اس گلی کے ہر گھر سے کتنے ہی چہروں کا تصور وابستہ تھا۔ گلی میں کچھ گھروں کو چھوڑ کر زیادہ تر گھروں میں کرایہ دار رہتے تھے جن کا قیام مستقل نہ ہوتا۔ ہمارے سامنے کئی کردار آئے او رگئے۔فیصل اور طغرل کے اس گھر میں آنے سے پہلے یہاں بابر صاحب رہا کرتے تھے۔ان کے ہمراہ ان کے بیٹے ڈاکٹر وصال بابر رہتے تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے جنرل نصیر اللہ بابر تھے جنہیں ہلالِ جرأت کا اعزاز ملا تھا۔ بعد میں وہ گورنر اور پاکستان کے وزیرِ داخلہ بھی رہے۔ ان کے والد گھر کے سامنے خالی پلاٹ پر ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھتے اور انگریزی اخبار کا مطالعہ کرتے۔ مس طاہرہ کے گھر سے آگے بھی ایک خالی پلاٹ تھا اور اس کے ساتھ والے گھر میں ماسٹر تاج صاحب رہتے تھے۔ گرمیوں کی راتوں میں وہ مجھے اکثر چھت پر بچھی چارپائی پر نیم دراز لالٹین کی روشنی میں کوئی کتاب پڑھتے نظر آتے۔ اس زمانے میں گرمیوں میں چھتوں پر چارپائیاں ڈال کر سونا معمول کی بات تھی۔ اس سے اگلے گھر میں لطیف صاحب رہتے تھے۔ انتہائی مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی۔ ان کے بیٹے کا نام عروج تھا‘ اسی نام سے انہوں نے گلی سے کچھ فاصلے پر ایک لائبریری کھول رکھی تھی۔ اس لائبریری سے میں نے بھی کرائے پر لے کر بہت سی کتابیں پڑھیں۔ انہی میں تیرتھ رام فیروزپوری کا جاسوسی ناول ''مقدس جوتا‘‘ بھی تھی جس کی کہانی نے مجھے ایک عرصے تک اپنے حصار میں لیے رکھا۔گلی کے آخر میں ایک تنگ راستہ دائیں ہاتھ جاتا تھا جو ہارلے سٹریٹ جانے والی بڑی سڑک سے مل جاتا تھا۔ گلی سے بائیں ہاتھ جانے والا راستہ ٹاہلی موہری کی طرف جاتا تھا۔ گلی کے آخری سرے پر اکا دُکا قبریں تھیں۔ پھر بہت بڑا نالہ اور اس سے پرے ہارلے سٹریٹ کی آبادی تھی۔
وہ عید کا تیسرا دن تھااور صبح کا وقت۔ گلی سنسان پڑی تھی۔ میں گلی کے آخری سرے تک جاکر واپس چلنے لگا۔ اب میرے بائیں ہاتھ وہ مکان تھا جہاں ماسٹر صاحب رہتے تھے۔ ان کا اصل نام تو کسی کو نہ پتا تھا۔ سب انہیںماسٹر صاحب کہتے تھے۔ ان کے پاس ایک سائیکل تھی۔ مجھے یاد ہے کیسے وہ سائیکل کا اگلا پہیہ اُٹھا کر اپنے گھر کی بلند دہلیز کو پار کرتے تھے۔ ماسٹر صاحب کے گھر سے آگے شفیع صاحب کا گھر تھاجو خراب صحت کے باوجود آخر دم تک مسجد جاکر نماز ادا کرتے رہے۔ وہ گلی میں ہر آنے جانے والے کو خود سلام کرتے تھے۔ شفیع صاحب کے گھر سے آگے ایک بہت بڑی حویلی تھی جہاں دو تین چھوٹے چھوٹے گھر تھے لیکن اس حویلی کی پہچان ایک بارعب خاتون تھیں جن سے سب ڈرتے تھے۔ اور اگر کبھی گلی میں کھیلتے ہوئے گیند اس حویلی میں چلی جاتی تو کوئی وہاں جانے کو تیار نہ ہوتا۔ اس حویلی سے آگے خالی جگہ اور پھر ہمارا گھر آتا تھا۔ اس سے آگے خالی پلاٹ اور پھر گلی کا اختتا م ہو جاتا تھا۔ بعد میں ان خالی پلاٹوں میں بھی مکان بن گئے۔ گلی میں چلتے چلتے میں اپنے گھر کے دروازے کے سامنے آکر رُک گیا۔ دروازے پر تالا تھا۔ میں نے سر اُٹھا کر دیکھا وہی چھت کی فصیل کی جالیاں جن میں پاؤں کی انگلیاں پھنسا کر میں گلی میں آنے جانے والوں کو دیکھا کرتا تھا۔ اس چھت پر کھڑے ہوکر ہم عید کا چاند دیکھا کرتے تھے اور پھر چاند رات کو میں انعام بھائی کے ساتھ بینک روڈ جایا کرتا تھا جہاں ہم کون آئس کریم کھاتے اور دوستوں کے ساتھ بینک روڈ پر بے مقصدگھومتے رہتے۔ پھر بچپن کا دور بیت گیا۔ اور ہم سب بہن بھائی تلاشِ روزگار میں بکھر گئے‘ لیکن یہ گھر ہمارا مرکز تھا اور اس مرکز میں ہماری والدہ کی حیثیت مقناطیس کی تھی جس کی کشش ہمیں عید کے موقع پر کھینچ کر یہاں لے آتی۔ انعام بھائی نے شادی نہیں کی تھی اور اس گھر میں والدہ کے ہمراہ رہتے تھے۔ مجھے لاہور سے آنا ہوتا تو موٹر وے کے سفر میں وقفے وقفے سے ان کے فون آتے اور جب گاڑی گلی میں داخل ہوتی تو میرا دل زورزور سے دھڑکنے لگتا۔ اس گلی میں آکر میں کیسے وہی بچہ بن جاتا جو صبح وشام اس گلی میں کھیلا کرتا تھا۔ انعام بھائی ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول کر بیٹھے ہوتے۔ آخر میں والدہ کی صحت جواب دے گئی تھی لیکن میں جب گھر میں داخل ہوتا تو وہ تیز تیز چلتی ہوئی آتیں اور مجھے گلے لگا لیتیں‘ بچوں کوپیار کرتیں۔ قربانی والی عید پر انعام بھائی میرے بیٹے صہیب کو لے کر بکرے لینے جاتے۔اب صہیب کینیڈا میں شادی شدہ زندگی گزار رہا ہے لیکن اب بھی بچپن کی یہ یاد اس کے ذہن میں جھلملاتی رہتی ہے۔ منڈی سے بکرے لانا‘قصائی کا بندوبست کرنا‘گوشت کے حصے بنانا اور پھر انہیں تقسیم کرنا۔ اس سارے عمل میں انعام بھائی متحرک ہوتے۔
ہم سب محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے۔ اس روز مسجد میں خوب رش ہوتا اور ہمیں مسجد کی دوسری منزل پر جگہ ملتی۔ اس رو ز مولوی صاحب مسجد کی تعمیر کے لیے چندے کے لیے خصوصی اپیل کرتے اور مسجد کے کچھ اہلکار چادروں کا کشکول بنائے ہر قطار کے سامنے سے گزرتے اور سب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس میں حصہ ڈالتے۔نماز کے بعد سب ایک دوسرے سے گلے ملتے۔ مسجد سے متصل ایک کٹیا نما تنور تھاجس کے مالک کا اصل نام تو مجھے پتا نہ چل سکالیکن ہم اسے ملک کا تنور کہتے تھے۔ یہ لکڑیوں کا تنور تھا اور اس کی روٹی کا اپنا ذائقہ تھا۔ وہ تنور عرصہ ہوا ختم ہو گیا۔ ملک نجانے کہاں چلا گیا لیکن میرے ذہن میں اس کی صورت روشن ہے۔ وہی لکڑیوں کا دھواں اور اس کا آنکھوں کو بار بار رومال سے صاف کرنا۔ اس زمانے میں لکڑیوں کے یہ تنور اور اس میں پکنے والی سرخ گندم کی خوشبو دار روٹی ہماری تہذیب کا حصہ تھی۔ دوپہر کو صحن میں چٹائی بچھائی جاتی۔پیڈسٹل فین لگایا جاتا اور سب مل کر کھانا کھاتے۔ میٹھے میں ہمیشہ کھیر ہوتی جووالدہ بناتیں ان کے ہاتھ میں خاص ذائقہ تھا یا پھر ان دنوں سے جڑی ہوئی ہر چیز ہمیںخوش رنگ اور خوش ذائقہ محسوس ہوتی ہے۔ پھر بچوں میں عیدی تقسیم ہوتی۔
انعام بھائی کو عید کی دعوت کا انتظام کرنے میں خاص لطف آتا تھا وہ ہم سب بہن بھائیوں کو اکٹھے دیکھ کر خوش ہوتے۔ شام کو انعام بھائی کے دوست آجاتے۔ عید کے دو تین دن آنکھ جھپکتے گزر جاتے۔ ہم سب بہن بھائی عید کے بعد مرکز سے رخصت ہوجاتے اور والدہ اور انعام بھائی کے پھر اکیلے ہوجانے کا موسم آجاتا۔ اب انعام بھائی ڈرائنگ روم کا گلی والا دروازہ کھول کر اس دن کا انتظار شروع کر دیتے جب ہم میں سے کوئی پھر واپس آئے گا لیکن آج ایک مدت بعد میں اس گلی میں کھڑا تھا۔آج یہ دروازہ بند تھا۔مجھے یوں لگا کہ جیسے بند دروازے کے باہر کھڑے کھڑے صدیاں گزر گئی ہیں۔ وقت کے ساحر نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ میں نجانے کتنی دیر یوں ہی کھڑا رہتا کہ ایک آٹھ نو سال کے بچے کی آوازنے مجھے چونکا دیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔اس نے بھولپن سے پوچھا ''آپ کس سے ملنے آئے ہیں؟‘‘ میری آواز گلے میں اٹک گئی۔ میں نے اس معصوم سے چہرے کو دیکھا اور بمشکل کہا ''کوئی نہیں بیٹا ،غلطی سے ادھر آ نکلا تھا‘‘ میرا جواب سن کراس کی آنکھوں میں حیرت جاگ اُٹھی۔میں نے آخری بار اپنے گھر پر نگاہ ڈالی اوربوجھل قدموں سے گاڑی کی طرف چلنے لگا۔میں بچے کو کیسے بتاتا کہ یہاں میں اپنے بچپن کے دنوں سے ملنے آیا تھا۔ جو اَب مجھے کبھی نہیں ملیں گے۔(ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں