"SSC" (space) message & send to 7575

امرتا پریتم …(2)

امرتا پریتم کی زندگی پُر شور پہاڑی جھرنے کی طرح تھی جس میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں۔ ایک روز اس نے سوچا‘ کیوں نہ اپنی زندگی کا احوال لکھا جائے۔ صاف صاف، لگی لپٹی کے بغیر۔ اس کا اظہار اس نے اپنے دوستوں سے بھی کیا۔ اس پر خوشونت سنگھ نے کہا: تمھاری زندگی کی کہانی تو رسیدی ٹکٹ پر لکھی جا سکتی ہے۔ اس جملے کی کاٹ کو امرتا نے بھی محسوس کیا۔ رسیدی ٹکٹ کا سائز عام ٹکٹ سے کم ہوتا ہے۔ لیکن امرتا دُھن کی پکی تھی اس طرح کے جُملے اسے اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتے تھے‘ اور رہی رسیدی ٹکٹ کی بات تو امرتا کو معلوم تھا کہ رسیدی ٹکٹ کا سائز کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو یہ کسی بھی دستاویز کو قیمتی بنا دیتا ہے۔
اس نے پنجابی ادب کو لا فانی تحریریں دی تھیں۔ وہ پنجابی اور ہندی میں یکساں سہولت سے لکھتی تھی۔ اس کے اندر تخلیقی وفور نے اپنے اظہار کے لیے کبھی نثر اور کبھی شاعری کا سہارا لیا۔ وہ بیک وقت ایک ناول نگار‘ ایک شاعر اور ایک مضمون نویس تھی۔ لکھنا اس کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ اس کی کتا بوں کی تعداد تقریباً سو کے لگ بھگ ہو گی۔ شاعری کی متعدد کتابوں کے علاوہ اس نے کئی مقبول ناول لکھے۔ انھی میں سے ایک ناول ''پنجر‘‘ بھی ہے‘ جس پر فلم بنی اور نیشنل ایوارڈ کی مستحق ٹھہری۔ اس کی کتابوں کے متعدد زبانوں میں ترجمے ہوئے اور اسے کئی ممالک میں کانفرنسوں میں بُلایا گیا۔ اس کی تحریروں پر اسے متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ بھارت کے اعلیٰ ترین ادبی ایوارڈ اس کے حصے میں آئے‘ اور پھر دہلی یونیورسٹی نے اسے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری کا مستحق قرار دیا۔ امرتا کی شاعری کا کینوس وسیع تھا۔ وہ خیال اور احساس کی شاعرہ تھی‘ جس نے غمِ جاناں کو غمِ دوراں میں بدل دیا تھا۔ اس کی نظموں میں ایک عورت کا دُکھ دیکھا جا سکتا تھا‘ جو ایک پدر سری (Patriarchate) معاشرے میں ساری عمر اپنے حقوق کی جنگ لڑتی رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امرتا ماڈرن پنجابی شاعری کا سب سے اہم نام ہے جس نے شاعری کو اپنی ذات کے دُکھوں سے بلند ہو کر زمانے کے مسائل کا آئینہ بنا دیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دولت اور شہرت اس کے گھر کی چوکھٹ کی باندیاں تھیں‘ لیکن امرتا کا اندر ایک خالی پن سے بھرا ہوا تھا۔ پریتم سنگھ سے اس کی شادی صرف سمجھوتے کی شادی تھی۔ دونوں میں ایک فکری بعد تھا۔ اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی تھی۔ وہ چیز کیا تھی خود امرتا کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ پھر ایک روز اچانک اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ یہ 1944ء کی بات ہے‘ لاہور اور دہلی کے درمیان ایک جگہ مشاعرہ تھا‘ جس میں ساحر بھی شریک تھا۔ یہیں امرتا کی ملاقات ساحر سے ہوئی‘ نجانے اسے ساحر کی آنکھوں میں کیا نظر آیا۔ اسے یوں لگا‘ جیسے اس کے دل کی دھڑکنیں رُک گئی ہوں۔ پہلی ملاقات کا یہ منظر امرتا کی زندگی میں ٹھہر گیا۔ پھر ساری عمر وہ اسی منظر کی اسیر رہی۔ وہ ساحر کی محبت میں لمحہ لمحہ پگھل رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ پریتم سنگھ کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھی ہے‘ لیکن محبت میں کوئی منطق نہیں ہوتی۔ عشق کا غبار ارد گرد کی حقیقتوں کو اپنے دامن میں چھپا لیتا ہے۔ امرتا کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ پریتم سنگھ سے اس کی شادی یوں بھی کوئی آئیڈیل شادی نہیں تھی‘ اور ساحر کے ساتھ امرتا کے تعلق کی کہانیوں نے پریتم سنگھ اور امرتا کے درمیان دیوار کھڑی کر دی۔ 1960ء میں انھوں نے خاموشی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔
ساحر کا معاملہ بھی عجیب تھا۔ وہ ایک قدم آگے بڑھتا اور پھر دو قدم پیچھے ہٹ جاتا۔ کہتے ہیں‘ ساحر پر اپنی ماں کا گہرا اثر تھا۔ ساحر تمام عمر اپنے ہر عمل کی تصدیق اپنی ماں سے چاہتا تھا۔ کہتے ہیں‘ ماں سے اس کا پیار ایک obsession بن گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کی دنیا میں کسی اور عورت کا مستقل طور پر آنا ممکن نہیں تھا۔ ادھر امرتا اپنے سارے خوابوں کا محور ساحر کو بنا چکی تھی۔
ساحر اس کے گھر آتا تو دونوں پہروں خاموش ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رہتے۔ ساحر ایک کے بعد دوسرا سگر یٹ سُلگاتا حتیٰ کہ ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر جاتی۔ کہتے ہیں‘ تعلق کا ایک مقام ایسا بھی ہے‘ جہاں خاموشی باتیں کرتی ہے‘ اور ابلاغ کے لیے لفظوں کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ گھنٹوں بیٹھ کر ساحر تو رُخصت ہو جاتا لیکن امرتا ساحر کی موجودگی تا دیر محسوس کرتی۔ ایش ٹرے میں پڑے ہوئے سگریٹ کے ٹکڑوں کو سُلگاتی اور ساحر کے انداز میں سگریٹ پینے کی اداکاری کرتی۔ وہ سگریٹ کے ان ٹکڑوں کو پھینکتی نہیں تھی بلکہ اپنی الماری میں محفوظ کر لیتی تھی۔ یہیں سے اسے سگریٹ پینے کا شوق چُرایا اور پھر سگریٹ نوشی آخر دم تک اس کی عادتوں کا حصہ رہی۔
کبھی کبھی امرتا سوچتی‘ ساحر کا خیال کیوں اس کی یادوں کی زنجیر بن گیا ہے۔ تب اسے وہ دن یاد آ جاتا جب ساحر ایک مشاعرے کے بعد سٹیج سے نیچے اُتر کر پنڈال سے باہر آرہا تھا‘ اور اس کے مداحوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔ سب آٹو گراف بُک پر اس سے آٹو گراف لے رہے تھے۔ امرتا بھی اس ہجوم کا حصہ تھی‘ لیکن اس کے پاس نہ تو آٹو گراف بک تھی اور نہ ہی کوئی کاغذ جس پر وہ آٹو گراف لیتی۔ اس نے بے ساختہ اپنی ہتھیلی ساحر کے سامنے کر دی اور ہنستے ہوئے بولی ''آٹو گراف پلیز‘‘۔ ساحر نے نگاہ اُٹھا کر امرتا کو دیکھا‘ جس کی بڑی بڑی آنکھوں میں محبت اور عقیدت کے رنگ گھل مِل گئے تھے۔ ساحر نے اپنے انگوٹھے پر پین کی روشنائی لگائی اور امرتا کی کلائی پکڑ کر اس کی ہتھیلی پر انگوٹھے کا نشان لگا دیا۔ انگوٹھے کا یہ نشان امرتا کے خیالوں میں امر ہو گیا تھا۔ پریتم سنگھ سے علیحدگی کے بعد امرتا کا پہلا خیال ساحر کی طرف گیا۔ وہ اسے فون کرکے بتانا چاہتی تھی کہ وہ شادی کے بندھن سے آزاد ہو گئی ہے‘ اور اب اس کے اور ساحر کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔ وہ فون کرنے کے لیے بڑھی تو اچانک اس کی نظر اخبار پر پڑی‘ جہاں ایک ایسی خبر اس کی منتظر تھی جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ اخبار میں ساحر لدھیانوی اور گلوکارہ سدھا ملہوترا کی محبت کی داستان چھپی تھی۔ امرتا کے جسم سے جیسے جان نکل گئی تھی۔ اس نے ٹیلی فون کا ارادہ ترک کر دیا۔ زندگی کے اس دو راہے پر اسے امروز کی شکل میں ایک ساتھی مل گیا۔ امروز ایک آرٹسٹ تھا‘ جس نے امرتا کی کتابوں کے ٹائٹل بنائے تھے۔ اس مشکل وقت میں امروز نے اسے سہارا دیا اور یہ عمر بھر کا ساتھ رہا جو چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ امروز کا کردار بھی ایک غیر معمولی شخص کا کردار تھا جس نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امرتا دل و جان سے ساحر کی محبت کی اسیر ہے‘ ساری زندگی امرتا کے ساتھ گزار دی۔ امرتا کاغذ پر اپنے خیالات تحریر کرتی اور امروز کینوس پر تصورات کے گُل بوٹے بناتا۔ امرتا اپنی زندگی میں شہرت کے بلند ترین درجوں پر پہنچی۔ اس کے چاہنے والے پاکستان اور ہندوستان میں موجود تھے لیکن پھر بھی اس کی زندگی میں ایک کمی تھی۔ اس کمی کا نام ساحر تھا۔ یہ کمی اس وقت تک اس کے ساتھ رہی جب 31 اکتوبر 2005ء کو اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ وہ اکثر سوچا کرتی‘ اگر امروز اس کے سر کی چھت ہے تو ساحر اس کا آسمان ہے۔ وہ آسمان جس کا نیلگوں رنگ اس کے رگ و پے میں اُتر گیا تھا۔ ہر دم رنگ بدلتا آسمان جسے ساری عمر وہ حیرت، عقیدت اور حسرت سے تکتی رہی لیکن اسے کبھی چھو نہ سکی۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں