ہندوستان میں انگریزی حکومت اور افغانستان کے مابین صلح کے معاہدے کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی تھی۔ افغان حکومت اب مجاہدین کی میزبانی کا خطرہ نہیں مول لے سکتی تھی۔ وہی سرزمین جس نے مجاہدین کو کُھلے بازوؤں سے خوش آمدید کہا تھا‘ اب ان پر تنگ ہو گئی تھی۔ جبل السراج میں جمع سینکڑوں مجاہدین یک لخت افغان حکومت کے لیے اجنبی بن گئے تھے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے جوان‘ جو افغانستان کی مدد سے فرنگیوں کو ہندوستان سے نکالنے کے خواب دیکھ رہے تھے‘ یک لخت بُجھ کے رہ گئے تھے۔ جبل السراج میں ہندوستان سے آئے ہوئے مجاہدین کا اجتماع بلایا گیا تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ پورے مجمع میں بے یقینی کی کیفیت تھی۔ ایسے میں ایک سفید ریش بزرگ حاجی معراج الدین تقریر کے لیے اُٹھے۔ انہوں نے تقریر کا آغاز تو تحمل سے کیا لیکن آہستہ آہستہ ان کا لہجہ جذباتی ہوتا گیا۔ حاجی صاحب نے کہا: ہم سب لوگ اپنا وطن ہندوستان چھوڑ کر یہاں آئے تھے تاکہ فرنگیوں کا مقابلہ کر سکیں‘ وہ فرنگی جنھوں نے ایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف تُرکی کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے‘ لیکن اب فرنگیوں اور افغانستان کے معاہدے کے بعد یہاں رُکنا بے سود ہے۔ اب ہمارے لیے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہم جہاد کی راہ پر آگے بڑھتے ہوئے ترکی پہنچ جائیں۔ حاجی صاحب کے لفظوں میں عجیب جادو تھا۔ حاجی صاحب بول رہے تھے ''میرا جسم نحیف ہے لیکن میں اسلام کی ناموس کے لیے جان دینے کو تیار ہوں‘ آپ میں سے کون ہے جو اسلام کی حرمت کے لیے میرا ساتھ دے‘‘۔ پورا مجمع حاجی صاحب کی حمایت میں کھڑا ہو گیا۔
اکبر شاہ قافلے کے ہمراہ چلنے کے لیے تیار ہو گیا اور وہ کابل سے طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ دشوار گزار راستوں سے گزرتے ہوئے انہیں اچانک ایک سرسبز و شاداب علاقہ نظر آیا۔ یہ پنج شیر وادی تھی۔ سرائے گُل بہار سے یہاں تک کا فاصلہ کم و بیش 100 میل کا ہوگا‘ جو پاپیادہ دو دن میں طے کیا گیا۔ وہ آگے بڑھتے گئے۔ اونچے نیچے راستوں پر یہ سفر آسان نہ تھا‘ لیکن آزادی کا جذبہ انھیں اپنی طرف بُلا رہا تھا۔ آخر وہ بالشویکوں کے علاقے میں پہنچے جہاں ان کا پُرجوش خیر مقدم کیا گیا۔ یہاں سے نکل کر پھر وہی دشوار گزار سفر درپیش تھا۔ ایک راستے میں انھیں کھیت نظر آئے جہاں فصل تیار تھی۔ قافلے میں سے ایک شخص نے جلتی ہوئی سگریٹ پھینکی تو کھڑی فصلوں نے آگ پکڑ لی اور دھڑ دھڑ جلنے لگیں۔ یہ کھیت شنواریوں کی ملکیت تھے۔ کُچھ ہی دیر میں وہ لاٹھیوں سمیت ان کے سروں پر پہنچ گئے۔ وہ سخت غصے میں تھے۔ قافلے والوں کو سزا کے طور پر آگ بُجھانے کا کام دیا گیا۔ پورا دن اور پوری رات وہ آگ بُجھاتے رہے۔ ذرا سستانے کو بیٹھتے تو انھیں کڑی سزا دی جاتی۔ خدا خدا کرکے اسی راستے پر کُچھ اور مسافر آ گئے اور ان کی جان بخشی ہوئی۔ اکبر شاہ اور اس کے ساتھیوں کی سب سے بڑی آزمائش ترکمانوں کے ہاتھوں ان کی گرفتاری تھی۔ وہ قیامت کے دن رات تھے۔ وہ دن کو انھیں کوسوں کی مسافت چلاتے اور رات کو کڑی نگرانی میں رکھتے۔ بعض اوقات انھیں چارپائیوں سے باندھ دیا جاتا۔ کڑی آزمائش کا یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہا۔ اکبر شاہ کو یاد ہے‘ ایک بار انھیں ایک جگہ بند کر کے دروازے کو تالا لگا دیا گیا تھا۔ کئی دن گزر گئے‘ کوئی نہ آیا۔ ان کے دوستوں نے سوچا‘ اب ان کا آخری وقت آ گیا ہے‘ لیکن قدرت کو ان کی زندگی منظور تھی۔ ایک روز دروازہ کُھلا اور کُچھ لوگوں نے انھیں آزاد کرایا۔ اب پھر ایک نئے سفر کا مرحلہ شروع ہوا۔ آخر کار وہ روس کے شہر تاشقند پہنچ گئے۔ یہاں ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا گیا‘ کیونکہ روس اور برطانیہ کے باہمی اختلافات تھے۔ تاشقند میں ہوائی جہازوں کے حوالے سے ایک تربیت گاہ میں ان کی تربیت کا اہتمام کیا گیا‘ جہاں انھیں جہازوں کی ساخت اور ان کے مختلف حصے کھول کر جوڑنے کی تربیت دی گئی۔ یہاں کی تربیت کے بعد انھیں لینن اکیڈمی میں مزید تربیت دی گئی۔ ادھر برطانوی فوج نے روس کی ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ آخر اس دباؤ کے نتیجے میں روس نے برطانیہ سے معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں تاشقند میں ہوائی جہازوں کی اس تربیت گاہ کو بند کر دیا گیا‘ اور انھیں تاشقند سے ماسکو منتقل کر دیا گیا۔
ماسکو کی مشرقی یونیورسٹی میں مختلف قومیتوں کے طالبِ علم زیرِ تعلیم تھے۔ یوں تو یہاں کئی مضامین پڑھائے جاتے لیکن ان کا مقصد ایک ہی تھا کہ طلبا انگریزوں کے خلاف پراپیگنڈا کی مہارت حاصل کریں۔ اسی دوران انھیں روسی زبان بھی سکھائی گئی۔ یہاں اکبر شاہ اور اس کے دوستوں کا قیام تقریباً چار مہینے رہا۔ اس دوران انھوں نے کریملن کا محل دیکھا اور وہ کمرہ بھی جہاں نپولین رہتا تھا۔ کمرے میں نپولین کا بستر اب اس کی یادگار کے طور پر رکھا ہوا تھا۔
یہ سردیوں کا موسم تھا اور ہر چیز برف سے اٹ گئی تھی۔ ایسے میں علی الصبح انھیں ڈرل کرائی جاتی۔ اکبر شاہ نے دیکھا کہ روس میں مزدوروں اور عورتوں کو ایکسرسائز کرنے کا جنون ہے۔ پڑھا ئی اور جسمانی تربیت کے علاوہ وہ یونیورسٹی کی ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے۔ ان میں سب سے دلچسپ سرگرمی ڈرامہ تھا‘ جس میں لڑکے اور لڑکیاں حصہ لیتے تھے۔ شروع شروع میں اکبر شاہ اور ہندوستان سے آئے اس کے دوستوں کو ایک حجاب سا رہا لیکن ایم این اے کی بیگم نے انھیں بتایا کہ اگر آپ یونیورسٹی کے ماحول میں گھلیں ملیں گے‘ تو یہاں کی ثقافت سے آگاہ ہوں گے۔ رفتہ رفتہ انھوں نے یونیورسٹی کی غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ انھی دنوں اکبر شاہ کی آرمستان کی رہنے والی ایک لڑکی آسیان سے کی دوستی ہو گئی۔ کلاسوں کے درمیان جب بھی وقت ملتا وہ کیفے ٹیریا میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھتے‘ جہاں دنیا جہان کی گفتگو ہوتی۔ اکبر شاہ کا دل چاہتا تھا کہ یہ دن کبھی ختم نہ ہوں‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک روز انھیں مسز ایم این اے نے بُلایا اور کہا کہ ان کے ہندوستان جانے کا وقت آ گیا ہے‘ جہاں ان کی ضرورت ہے۔ اکبر شاہ کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ایک طرف آسیان کی محبت تھی دوسری طرف انقلاب کی راہ تھی۔ مسز ایم این اے نے انھیں بتایا کہ ہندوستان میں ان کا قیام صرف چھ ماہ کا ہوگا۔ اسی دوران اسے آسیان کا خط ملا جس میں اس کی تصویر بھی تھی۔ خط میں لکھا تھا کہ تم ہندوستان ضرور جاؤ چھ مہینے کی ہی تو بات ہے۔ اسے کیا پتا تھا کہ پھر زندگی بھر ان کی ملاقات نہیں ہو سکے گی۔
1921ء میں ماسکو سے ہندوستان کا سفر شروع ہوا۔ واپسی کا سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ فیصلہ ہوا کہ وہ براستہ ایران ہندوستان جائیں گے۔ یہ انتہائی کٹھن سفر تھا۔ ایک طرف راستے کی دشواریاں تھیں اور دوسری طرف بغیر کاغذات کے سفر میں پکڑے جانے کا ڈر تھا۔ اکبر شاہ نے اپنا حلیہ بالکل ایرانیوں کی طرح بنایا ہوا تھا۔ اسے فارسی بولنے میں سہولت تھی۔ یہ 1922ء کا سال تھا جب اکبر شاہ نے تہران میں ہزاروں عورتوں کا جلوس دیکھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ عورتوں پر پردے کی پابندی عائد نہ کی جائے، عورتوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھول دیے جائیں‘ اور عورتوں کو اجازت دی جائے کہ وہ تجارت کر سکیں۔ اکبر شاہ کو فارسی زبان پر عبور حاصل تھا اور مقامی لباس نے مکمل ایرانی بنا دیا تھا‘ لیکن پھر بھی اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اس کا راز نہ فاش ہو جائے۔ ایسی صورت میں اس کا انجام خوفناک ہو سکتا تھا۔ ایک روز وہ ایرانی باشندے کے روپ میں ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہر طرف لوگوں کی بھیڑ تھی۔ اچانک ہوٹل کے ویٹر کی غراتی ہوئی آواز آئی 'نجس ہندی‘ یہ سنتے ہی اکبر شاہ کے جسم سے تو جیسے جان نکل گئی۔ (جاری)