یہ حیدر آباد کا مُکھی ہاؤس ہے۔ یوں لگتا ہے حُسن اس کے دروبام میں مجسم ہو گیا ہے۔ یہ محل تو نہیں ایک وسیع و عریض گھر ہے لیکن اسے تعمیر کرنے والے جیٹھ آنند مُکھی کا اصرار تھا کہ اسے پیلس کہا جائے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ ا پنی شان و شوکت میں کسی محل سے کم نہیں۔ مُکھی ہاؤس کا ذکر میں نے پہلے پہل اپنے دوست انعام شیخ کی زبانی سنا تھا۔ تب سے میرے دل میں مُکھی ہاؤس دیکھنے کی آرزو جاگ رہی تھی۔ اس بات کو کئی برس گزر گئے۔ زندگی اپنی ڈگر پر چلتی رہی۔پھر ایک دن بیٹھے بٹھائے حیدرآباد کا پروگرام بن گیا۔ حیدر آباد جانے کی ایک کشش یارِ عزیز عامر زاہد خان ہیں جو حیدر آباد کی علمی‘ادبی اور ثقافتی زندگی کی جان ہیں۔ کراچی سے حیدرآباد تقریباً دو گھنٹے کا راستہ ہے۔لنچ کا بندوبست عامر صاحب نے اپنے دفتر میں کیا تھا۔ منتخب مہمانوں میں ریڈیو کے عشرت علی خان‘ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر ناصرالدین شیخ‘ ٹی وی کے فن کار سلیم خان دیوالی اور سابق ڈپٹی کمشنر برکات احمد رضوی شامل تھے۔
حیدرآباد آنے سے پہلے میں نے عامر زاہد خان صاحب سے مُکھی ہاؤس دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اس لیے انہوں نے مُکھی ہاؤس کے مہتمم نعیم کو پروگرام سے آگاہ کر رکھا تھا۔ مُکھی ہاؤس تک پہنچنے کیلئے بلندی پر جاتی ہوئی ایک سڑک ہے جس پر گاہکوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے آج سے سو سال پیشتر زندگی شاید اس قدر پُر شور نہیں ہوگی۔ تب 1921ء میں سندھ کے ایک متمول خاندان کے جیٹھ آنند مُکھی نے اس جگہ کو اپنی رہائش گاہ کیلئے منتخب کیا تھا۔ اس کیلئے یہ ایک ڈریم ہوم تھا جس میں اس نے اپنے خوابوں کے سارے رنگ سموئے تھے۔ اس کی آرزو تھی کہ وہ ایک ایسا گھر بنائے جو ہر لحاظ سے منفرد ہو۔ جو دیکھنے میں آرٹ کانمونہ ہو۔ ا س کیلئے ایک اطالوی آرکیٹیکٹ کا انتخاب کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مُکھی ہاؤس کے دروبام پر اطالوی طرزِ تعمیر کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ آرکیٹیکٹ کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ سڑک کا شور رہائش گا ہ کے سکون میں خلل نہ ڈالے۔ اس نے اپنے تجربے اور مہارت سے یہ کام بھی کر دکھا یا۔ مُکھی ہاؤس کے اندر جائیں تو سکون کا احساس ہو تا ہے۔ مُکھی ہاؤس کی دو منزلیں گرائونڈ فلور سے اوپر ہیں۔ ملازمین کیلئے بغلی دروازے سے راستہ ہے جہاں سرونٹ کواٹرز ہیں۔ وہیں سے ایک پیچ دار سیڑھی اوپر جاتی ہے جہاں سے رہائش گاہ تک رسائی ہوتی ہے۔ مُکھی ہاؤس میں بارہ کمرے اور دو وسیع ہا ل ہیں اس کے علاوہ ملازمین کیلئے علیحدہ کمرے‘ طویل برآمدے اور خوب صورت ٹیرس ہیں۔ فرش کے ڈیزائن خوش نما ہیں اور ان میں رنگوں کا اجلا پن اب بھی ویسا ہی ہے۔ ہر منزل پر جھروکے بنے ہیں جہاں سے دور دور کا منظر صاف نظر آتا ہے۔ اُونچے لمبے سفیدستون اور چھت پر سفید رنگ کا خوب صورت گنبد اس عمارت کی خاص پہچان ہے۔ کہتے ہیں مُکھی ہاؤس کی تعمیر کیلئے پتھر جودھ پور سے لائے گئے۔ دروازے اور کھڑکیاں بنانے میں شیشم اور ساگوان کی لکڑی استعمال کی گئی ‘کمرے کی کھڑکیوں میں خوبصورت شیشے لگائے گئے جن پر خوب صورت نقش و نگار انتہائی مہارت سے بنائے گئے ہیں۔ہر کمرے میں اس زمانے کے رواج کے مطابق خوب صورت روشن دان ہیں‘ چھتوں پر گل کاری کے اعلیٰ نمونے ہیں۔مُکھی خاندان سندھ کی ثقافت اور سیاست میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ اسی خاندان کے دو بھائی جیٹھ آ نند مکھی اور گوربندرام مُکھی تھے جن کاسندھی ہندو کمیونٹی میں نمایاں مقام تھا۔ 1931ء میں جب جواہر لال نہرو انڈین نیشنل کانگرس کے اجلاس میں شرکت کیلئے کراچی آئے تو ان کا قیام ا سی مُکھی ہائوس میں تھا۔ یوں مُکھی ہائوس میں اس زمانے کی اہم شخصیات کا آنا جانا تھا۔ سندھ کے اہم سیاست دان بھی مُکھی ہائوس آتے تھے ‘ان کا قیام دوسری منزل پر ہوتااور آج میں مُکھی ہائوس کی راہداریوں اور کمروں میں سحر زدہ معمول کی طرح گھوم رہا ہوں۔ کہیں پرانے زمانے کا ٹائپ رائٹر اورکہیں اس زمانے کا ٹیلی فون سیٹ نظر آتا ہے جو اس خاندان کی امارت کو ظاہر کر رہا تھا۔دیواروں پر فریم شدہ تصویریں تھیں۔ ان میں کئی تصویریں ایک خوب صورت لڑکی کی تھیں۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ کہ یہ جیٹھ آنند مُکھی کی بیٹی دھرم کی تصویریں ہیں۔ دھرم سکول جاتی تو شوفر اسے نئی گاڑی میں لے کر جاتا۔ اسے رقص کا شوق تھا اس شوق کی تکمیل کیلئے ایک کمرہ تھا۔دھرم مُکھی ہاؤس کے کورٹ یارڈ میں ٹینس کھیلتی۔ اسے نت نئے کپڑے بنانے کا شوق تھا ان کپڑوں کے مختلف ڈیزائنوں میں اس کی بہت سی تصویریں تھیں جن میں سے کچھ مکھی ہاؤس کی دیواروں پر آویزاں ہیں۔ اب جیٹھ آنند مُکھی کا انتقال ہو چکا تھا اور اس کا بھائی گوبند رام مُکھی 1946ء میں دوسری بار سندھ حکومت کی کابینہ کا ممبر بن گیا تھا۔ 1947ء میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد گوبند رام مُکھی نے حیدرآباد میں رہنے کا فیصلہ کیا۔اب مُکھی ہاؤس کے ایک حصے میں گوبند رام مُکھی کی رہائش تھی اور دوسرے حصے میں انڈین قونصلیٹ کا دفتر منتقل ہو گیا تھا۔ یہ 1957ء کی بات ہے جب ایک روز گوبند رام مکھی بمبئی سے حیدرآباد آرہاتھاکہ راستے میں کار کے حادثے میں اس کی موت واقع ہو گئی۔ گوبند رام کے بعد مُکھی ہاؤس ویران ہو گیا ‘ یوں لگتا تھا مُکھی ہائوس کی رونقوں کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ اس دوران تین بار کی آتش زدگی نے مُکھی ہائوس کو بری طرح متاثر کیا۔ کچھ عرصہ یہاں پاکستان رینجرز کا قیام رہا‘ پھر یہاں خدیجہ گرلز ہائی سکول کا آغاز ہوا۔
اسی دوران 2008ء میں مکھی خاندان کے افراد نے حکومتِ سندھ کو مُکھی ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا اختیار دے دیا۔ مُکھی ہاؤس کی تزئین کرنے اور اس کو اصل شکل میں لانے کا کٹھن کام ڈاکٹر کلیم لاشاری نے اپنے ذمے لیا اور دن رات کی محنت سے ویران مُکھی ہائوس کو اپنی اصل شکل میں واپس لے آئے اور پھر 2013ء میں حکومتِ سندھ کی دعوت پر مُکھی ہائوس کے گیارہ افراد مُکھی ہائوس آئے ان میں سریش بھنوانی بھی تھا‘ جو دھرم کا بیٹا تھا۔ وہی خوب صورت اور نٹ کھٹ لڑکی جس کی تصویریں اب بھی مکھی ہاؤس کی دیواروں پر آویزاں ہیں‘ جس کا بچپن مُکھی ہاؤس کی راہداریوں میں گزرا تھا‘ جہاں کے کورٹ یارڈ میں وہ ٹینس کھیلتی اور جہاں وہ اپنے پائوں میں گھنگرو باندھ کر ناچتی تھی‘ پھر وہ یہاں سے ایسی گئی کہ کبھی لوٹ کر نہ آ ئی۔ لیکن آج ایک مدت بعد اس کا بیٹا مُکھی ہاؤس آیا تھا جس کی کتنی ہی کہانیاں امریکہ میں اس نے اپنی ماں دھرم کی زبانی سنی تھیں۔ سریش بھنوانی مُکھی ہاؤس کی دیواروں پر ہاتھ پھیر رہا تھا جہاں اسے اپنی ماں کے وجود کی خوشبو محسوس ہوتی تھی۔ آج میں بھی مُکھی ہاؤس کی انہی راہداریوں سے گزر رہا ہوں انہی کمروں میں‘ انہی کورٹ یارڈز میں اور انہی سیڑھیوں سے ہوکر میں چھت پر آجاتا ہوں جہاں سے حیدرآباد کا منظر دور دور تک نظر آتا ہے۔ میں سر اٹھا کر آسمان کو دیکھتا ہو ں صاف نیلا آسمان جس میں سفید رنگ کے اکا دُکا بادل بحری بجروں کی طرح تیر رہے ہیں۔تب میں مُکھی ہاؤس پر آخری نگاہ ڈالتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جیسے حسن اس کے دروبام میں مجسم ہو گیا ہے اور وقت جیسے ایک مقام پر رک گیا ہے۔