"SSC" (space) message & send to 7575

کتابِ زیست کا اک اور باب ختم ہوا

دسمبر کا مہینہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ اس مہینے میں کووڈ کا شکار ہوا اور دیوارِ اجل کو چھوتا ہوا واپس آیا اور پھراسی مہینے میری زندگی کی کتاب کا ایک باب بھی مجھ سے جُدا ہو گیا۔ وہ میری والدہ کے بھائی تھے اور میرے عنایت ماموں۔ ان کے والد ایک سکول میں مدرس کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ یہ سفید پوشوں کا گھر تھا جن کے پاس گاؤں کے دوسرے لوگوں کی طرح زمینیں اور جائیدادیں نہیں تھیں۔ بس شرافت اور عزت کا بھرم تھا جس پر اُن کو مان تھا اور جو ان کے والد صاحب کی عمر بھر کی کمائی تھی۔ عنایت ماموں کا پورا نام عنایت الرحمن صدیقی تھا جو بعد میں آئی آر صدیقی میں بدل گیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی۔ گھر سے سکول کا فاصلہ میلوں پر محیط تھا۔ گاؤں کی تپتی ہوئی دوپہروں اور سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی صبحوں میں کئی میل سکول تک پیدل جانا اور واپس آنا آسان نہ تھا ۔ اس زمانے میں آٹھویں جماعت کا امتحان بورڈ کا امتحان ہوتا تھا۔ اس کے لیے اساتذہ اپنے شاگردوں کو خاص تیاری کرواتے تھے۔ عنایت ماموں کے سکول میں بھی آٹھویں جماعت کے لیے بچوں کو تیاری کرائی گئی۔ نتیجہ آیا تو گھر والوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ عنایت ماموں نے پورے ضلع میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ گاؤں کے لوگ گھر میں مبارکباد دینے آرہے تھے لیکن والدین کے ذہن میں ایک خیال انہیں مسلسل پریشان کر رہا تھا کہ ہونہار بیٹے کی مزید تعلیم کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔
کہتے ہیں زندگی میں بعض دفعہ ایک دروازہ بند ہوتا ہے تو کوئی ایسا دریچہ کھل جاتا ہے جونئی دنیاؤں میں لے جاتا ہے۔ ماموں عنایت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ زندگی کے پُرپیچ راستے انہیں ندوہ لے گئے جہاں انہیں مولانا سلیمان ندوی سے براہِ راست پڑھنے اور عربی سیکھنے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میٹرک کے امتحان کی تیاری کی اور پرائیویٹ امیدوار کے طور پر میٹرک کا امتحان دیا اوراس میں بھی نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ اب انہیں ایک سکول میں ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ان کے والد نے ساری عمر تدریس کے پیشے سے وفا کی تھی اب عنایت ماموں بھی اپنے والدِ محترم کے نقوش ِپا پر چلنے لگے۔ انہوں نے راولپنڈی میں کئی سکولوں میں پڑھایا ان میں اسلامیہ سکول بھی تھا ۔ اب انہیں یہ فکر تھی کہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو بھی گاؤں سے شہر لایا جائے‘ اس کے لیے انہوں نے کالج روڈ کے قریب ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لیا۔ اسی دوران انہیں کوہ نور ملز راولپنڈی میں ایک سکول میں نوکری مل گئی اس کا فائدہ یہ تھا کہ یہاں رہائش کے لیے گھر بھی مل گیا تھا لیکن ان کے جذبے نے سستانا نہ سیکھاتھا ۔انہوں نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پرایف اے اور پھر بی اے کا امتحان پاس کر لیا۔ اس وقت تدریس کے شعبے کی ایک اہم ڈگری B.T تھی ‘انہوں نے بی ٹی کا امتحان بھی امتیازی حیثیت میں پاس کیا اور گولڈ میڈل کے حق دار ٹھہرے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب راولپنڈی کے مال روڈ کے قریب سرسید سکول کا آغاز ہوا تھا جس کے پرنسپل سکندر صاحب تھے۔ عنایت ماموں سرسید سکول کے وائس پرنسپل مقرر ہوئے۔ اب مریڑ حسن میں ایک گھر کرائے پر لے لیا گیا جہاں عنایت ماموں‘ ان کے دو چھوٹے بھائی اور ہم سب بہن بھائی اپنی والدہ اور نانا‘ نانی کے ہمراہ رہتے تھے۔ اسی دوران عنایت ماموں نے آرمی کی ایجوکیشن کور میں اپلائی کیا جہاں ان کا انتخاب ہو گیا۔ کاکول ملٹری اکیڈمی کے بعد ان کا تقرر ملٹری کالج جہلم میں ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ان دنوں میری پہلی جماعت کا سالانہ امتحان ہوا تھا اور چھٹیاں تھیں جب عنایت ماموں مجھے اور میری بڑی بہن کو چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے ساتھ لے گئے۔ گھر کے اطراف گلاب کے پھولوں کی مہک ابھی تک میری یادوں کا حصہ ہے۔
اسی دوران برطانیہ کے معروف تعلیمی ادارے گورڈن سٹون میں انہیں ایک سال کے لیے ریاضی کی تدریس کا موقع ملا۔ اس پوزیشن کے لیے اور امیدوار بھی تھے لیکن میرٹ پر عنایت ماموں کا انتخاب ہوا۔ گورڈن سٹون سکول میں ان کا قیام ایک سال کا تھا ۔ انہیں پڑھانے کو جو کلاس دی گئی تھی اس میں ایک شرمیلا سا لڑکا بھی تھا‘ بعد میں پتہ چلا کہ وہ شہزادہ چارلس ہے۔ عنایت ماموں اکثر وہاں کے تعلیمی نظام کے بارے میں بتایا کرتے تھے کہ کس طرح وہاں طلبا کو Independent Learners بنایا جاتا ہے۔
1971ء کی جنگ میں وہ سلیمانکی کے محاذ پر تھے اور اس شجاعت بھری داستان کے عینی شاہد‘ جب میجر شبیر شریف شہید نے بہادری کی نئی داستان رقم کی تھی‘ جس پر انہیں نشانِ حیدر کا اعزاز دیا گیا تھا۔ جنگ کے بعد جب وہ چھٹیوں پر آئے تو شبیر شریف کی بہادری کی کہانی ہم سب کو سنا تے تھے۔ اب وہ میجر سے بریگیڈیئر بن گئے تھے۔ کیسااتفاق ہے کہ ملٹری کالج جہلم ‘جہاں وہ ایک نوجوان انسٹرکٹر کے طور پر آئے تھے وہیں ان کی تعیناتی بطور کمانڈنٹ کے ہوئی۔
جہلم سے راولپنڈی کا فاصلہ ہی کتنا ہے‘ وہ اکثر چھٹیوں میں راولپنڈی آجاتے تھے۔ اب میں گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کا طالب علم تھا۔ وہ راولپنڈی آتے تو اکثر مجھ سے انگریزی ادب کے بارے میں گفتگو کرتے ۔انہوں نے ایم اے اردو کیا تھا اور ان کا ادبی ذوق اعلیٰ تھا۔ کئی بار میں ان کے ساتھ سینما میں انگریزی فلم دیکھنے جاتا۔ وہ کئی دفعہ میری ذاتی لائبریری سے کوئی کتاب پسند کرتے اور پڑھنے کے لیے لے جاتے لیکن کتاب پڑھ کر اہتمام سے واپس کرتے۔ آخری کتاب جو انہوں نے میری لائبریری سے انتخاب کر کے پڑھی وہ روسی ادیب تر جنیف کا ناول Fathers and Sonsتھی۔ ان کا اہم تحقیقی کام ان کی کتاب: '' سیف و قلمـ‘‘ کی صورت ہمیشہ زندہ رہے گا۔اس کتاب میں انہوں نے ان ادیبوں اور شاعروں پر تحقیق شامل کی ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی زمانے میں فوج سے رہا۔
ملٹری کالج جہلم کے علاوہ وہ اپر ٹوپہ میں بھی آرمی ایجوکیشن کالج کے کمانڈنٹ رہے۔بعد میں وہ آرمی برن ہائی سکول فار گرلز کے پرنسپل بنے۔ پھر ان کا انتخاب ڈویژنل پبلک سکول لاہور کے پرنسپل کے طور پر ہو گیا۔ اپنے کیریئر کے آخر میں وہ علی گڑھ سکول مانگا منڈی کے ساتھ وابستہ رہے۔ آخر آخر میں وہ علامہ اقبال ٹاؤن کے سکندر بلاک میں واقع اپنے گھر تک محدود ہو گئے تھے جہاں ان کے نواسے ‘ نواسیاں اور پوتے ‘ پوتیاں ان کی زندگی کی قوس قزح میں رنگ بھرتے رہے ۔ان کی رحلت سے ایک ہفتہ پیشتر میں ملاقات کے لیے ان کے گھر گیا تو ہشاش بشاش تھے۔ ہمیشہ کی طرح کھِلا ہوا چہرہ۔مجھے کیا معلوم تھا کہ میں انہیں آخری بار دیکھ رہا ہوں۔ جب ان کے جانے کی خبر ملی تومیں لاہور کے ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں کورونا سے نبردآزما تھا۔ میرے تصور میں ان کا متبسم چہرہ لو دینے لگا۔ مجھے یقین ہے کہ جب انہیں لحد میں اُتارا جا رہا ہو گا تو ان کے چہرے پر وہی شا نت مسکراہٹ ہو گی جو تمام عمر ان کی پہچان رہی۔اس روز آئی سی یو میں بستر پر لیٹے ہوئے مجھے اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہوا۔ کاش میں ان کی زندگی کے آخری سفر میں ان کے ہمراہ ہوتا۔ کاش میں آخری بار وہ شانت مسکراہٹ دیکھ سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں