"SSC" (space) message & send to 7575

ٹاہلی موہری : راولپنڈی کی قدیم بستی کی یاد … (آخری حصہ)

ٹاہلی موہری کی آسیب زدہ پیلی کوٹھی سے ذرا آگے امین الیکٹریشن کی دکان تھی۔ امین کا چھوٹا بھائی یاسین انعام بھائی کا دوست تھا۔ اس سے ذرا آگے بائیں ہاتھ ماسٹر حبیب کی ٹیلرنگ کی دکان تھی۔ ماسٹر حبیب ٹیلر کم اور دانشور زیادہ تھا۔ اس کی دکان پر ہروقت سیاسی گفتگو کی محفل سجی رہتی تھی۔ چائے کے دور چلتے اور ماسٹر حبیب گفتگو کے ہمراہ اپنا کام بھی جاری رکھتا۔ یہ بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا دور تھا۔ بھٹو صا حب کی پیپلز پارٹی نے پاکستانی سیاست کے ٹھہرے ہوئے تالاب میں ہلچل مچادی تھی۔ اقتدار ایوب خان سے یحییٰ خان کو منتقل ہو چکا تھا۔ 1970 کے الیکشن کا ڈول ڈالا جا چکا تھا۔ دکانوں اور مکانوں پر مختلف سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے لہرانے لگے تھے۔ پھر ایک روز ہم نے دیکھا کہ ماسٹر حبیب کی دکان پر عوامی لیگ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ماسٹر حبیب کی دکان سے ذرا آگے ٹاہلی موہری چوک آجاتا تھا۔ ٹاہلی موہری کے نام کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ پوٹھوہار کا خطہ اونچے نیچے ٹیلوں کی سرزمین ہے۔ پوٹھوہاری زبان میں موہری اونچی زمین کو کہتے ہیں اور ٹاہلی (شیشم) کا درخت پوٹھوہار میں فراوانی سے پایا جاتا ہے۔ ٹاہلی موہری کی بستی بلندی پر واقع تھی جہاں ٹاہلی کے درختوں کی بہتات تھی۔ ٹاہلی موہری چوک سے دائیں ہاتھ ایک سڑک بکرامنڈی کو جاتی تھی۔ دوسری سڑک لالہ زار، تیسری سڑک ہارلے سٹریٹ اور چوتھی سڑک ڈھیری حسن آباد کو جاتی تھی۔
ٹاہلی موہری چوک کے قریب ایک کونے میں تربوزوں کا ڈھیر لگا ہوتا۔ چوک سے ڈھیری حسن آباد کی طرف رُخ کریں تو دائیں ہاتھ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ایک نیا ہوٹل بننا شروع ہو ا تھا۔ اس کا نام ہما ہوٹل تھا۔ اس کے اوپر رہائشی فلیٹس تھے۔ اس ہوٹل کے پیچھے ایک گھر میں میرا دوست نوید رہتا تھا۔ ہوٹل کے پہلو میں حشمت کی پھلوں کی دکان تھی۔ حشمت پارٹ ٹائم کنویں کھودنے کا کام بھی کرتا تھا۔ اس زمانے میں تقریباً ہر گھر میں کنواں ہوتا تھا اور کنواں کھودنا ایک منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا تھا۔ حشمت کی پھلوں کی دکان سے آگے عزیز ریڈیو کے نام سے ایک دکان تھی جہاں ریڈیو اور ٹرانزسٹر ٹھیک کیے جاتے تھے۔ اب تو ٹیلی وژن اور موبائل فون کی سکرین ہماری توجہ کا مرکز بن گئی ہے لیکن اس زمانے میں ریڈیو ہی تفریح کا اہم ذریعہ تھا۔ اس سے آگے لائل پور بیکری تھی۔ بیکری کو باپ اور بیٹا مل کر چلاتے تھے۔ بیکری سے آگے ایک بینک کی عمارت تھی۔ بینک سے آگے کونے میں بیتاب پینٹر کی چھوٹی سی دکان تھی جو بورڈ لکھنے کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتا تھا۔ اس کا تخلص بے تاب تھا اور وہ اسی نام سے مشہور تھا۔ بیتاب کی دکان کے سامنے ٹرانسفارمر والے کھمبے کے نیچے ایک موچی بیٹھتا تھا۔ اس کھمبے کے ساتھ ہی دائیں طرف ایک گلی مڑتی تھی جس میں ہمارے سکول میں پڑھانے والے فیضی صاحب کا گھر تھا۔ اس سے آگے آئیں تو مسکین کا ڈپو تھا جہان سے راشن پر آٹا ملتا تھا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ چینی بھی صرف راشن کارڈ پر ملتی تھی۔ ڈپو کے ساتھ یاسین کی گوشت کی دکان تھی۔ ہم یہیں سے گوشت خریدتے تھے۔ اس سے ذرا آگے بڑھیں تو ایک وسیع میدان تھا جہاں بھینسوں کا باڑا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بھینسوں کو ٹیکے لگانے کا رواج شروع نہیں ہوا تھا۔ لوگ منہ اندھیرے اٹھتے اور فجر کی نماز پڑھنے کے بعد یہاں خالص اور تازہ دودھ لینے آتے۔ باڑے سے آگے آئیں تو عزیز میڈیکل سٹور تھا جسے دو بھائی چلاتے تھے۔ تھے تو وہ کیمسٹ لیکن خود کو ڈاکٹر ظاہر کرتے اور مرض کی شدت کو اتنا بڑھا چڑھا کر بیان کرتے کہ مریض پریشان ہو جاتا۔ فارمیسی کی اس دکان سے آگے کپڑوں کی کچھ دکانیں تھیں۔ انہیں میں سے ایک دکان نذیر کے والد صاحب کی تھی۔ نذیر سکول میں میری کلاس میں پڑھتا تھا۔ اس کے آگے ڈاکٹر عبدالمجید بھٹی کا کلینک تھا۔ یہ ایک دو منزلہ ہسپتال تھا جس کے ساتھ ہی فارمیسی کی چھوٹی سی دکان تھی۔ ٹاہلی چوک سے ڈھیری حسن آباد کے طرف جائیں تو دائیں ہاتھ یہ دکانیں آتی تھیں جن کا عکس میری یادوں میں محفوظ ہے۔
اسی طرح ٹاہلی موہری چوک سے ڈھیری حسن آباد کو جائیں تو الٹے ہاتھ سب سے پہلے امداد ہوٹل آتا تھا۔ ہوٹل کیا یہ ایک ڈھابہ تھا۔ اس کے ساتھ ایک تنور تھا۔ اس سے آگے فیصل بیکری تھی۔ بیکری کے پہلو میں شاہ جان سبزی دال کی دکان تھی۔ وہ ایک بہادر عورت تھی جو مردوں کی دنیا میں محنت سے رزقِ حلال کما رہی تھی۔ اس سے آگے سوار کا تنور تھا جو یہاں کا سب سے مقبول تنور تھا۔ میں جب اس تنور پر روٹی لینے جاتا تو یہ دیکھ کر حیران ہوتا کہ سخت گرمی میں بھی سوار تیز گرم چائے پی رہا ہوتا۔ طویل عرصے تک تنور پر کام کرنے سے سوار کی آنکھیں متاٰثر ہونے لگی تھیں۔ آخر کار اسے تنور کا کام چھوڑنا پڑا لیکن کام کے بغیر پیٹ کا دوزخ کیسے بھرتا۔ اسے صرف تنور کا کام ہی آتا تھا۔ کچھ مخیر حضرات کی مدد سے اس نے پھر سے تنور لگا لیا لیکن اب کے یہ تنور میجر انور صاحب گے گھر کے سامنے شروع کیا گیا؛ تاہم ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے آئینے تنور کے شعلوں سے پگھلنے لگے اور پھر ایک دن سوار کی آنکھوں کی روشنائی مکمل طور پر بجھ گئی۔ سوار کے پہلے تندور سے آگے تاج کی روئی کی دھنائی والی دکان تھی۔ اس سے آگے بائیں ہاتھ ایک چوڑی گلی تھی۔ اس سے ذرا آگے اشرف کریانہ سٹور تھا جو بعد میں ظریف کریانہ سٹور بن گیا۔ یہاں پر ہر ہفتے تصویر محل سینما پر چلنے والی والی فلم کا پوسٹر آویزاں ہوتا۔ کریانہ سٹور کے ساتھ سائیکلوں کی دکان تھی اور پھر رفیق آئل سپلائر تھا۔ اس کے آگے ایک چوڑی گلی تھی۔ اس سے آگے سادات کریانہ سٹور تھا۔ اس سے ذرا آگے جائیں تو ایک گلی بائیں ہاتھ جاتی تھی جہاں ہمارے فزکس کے ٹیچر انوار صاحب کا گھر تھا جن سے ہم بہت ڈرتے تھے کیونکہ وہ بات بے بات شاگردوں کی پٹائی کرتے تھے۔ اسی علاقے میں ہاکی کے اولمپیئن اشفاق کا گھر تھا جو اپنے زمانے کا معروف رائٹ اِن تھا۔ اس گلی سے آگے امام بارگاہ تھی اور پھر سادات کریانہ سٹور۔ ذرا آگے جائیں تو عزیز نیشنل سکول تھا۔ یہ ایک پرائیویٹ سکول تھا۔ یہ تو ٹاہلی موہری چوک سے ڈھیری حسن آباد کے بازار کا احوال تھا لیکن ٹاہلی موہری کا ذکر بھٹہ گراؤنڈ کے بغیر نامکمل ہے۔ ٹاہلی چوک سے ہارلے سٹریٹ کی طرف جائیں تو دائیں ہاتھ گہرائی میں ایک وسیع میدان تھا جہاں پر کرکٹ کے میچز ہوتے۔ دراصل یہاں پر اینٹیں بنانے والا ایک بھٹہ تھا ساتھ ہی ایک کنواں۔ اینٹوں کے لیے مٹی زمین کھود کر حاصل کی جاتی۔ رفتہ رفتہ زمین گہری کھائی میں بدل گئی تھی اور کنویں کی بیرونی پتھروں کی دیوار صاف نظر آتی تھی۔ قریب ہی معروف صحافی اور اینکر طلعت حسین اور ان کے بھائی فرحت حسین کا گھر تھا۔ ایک مدت کے بعد میرا گزر ادھر سے ہوا تو میں اس علاقے کہ پہچان نہ سکا۔ بھٹہ گراؤنڈ کا نشیب اب کہیں نظر نہ آتا تھا۔ سارے نشیب میں مٹی کی بھرائی کرکے اسے ہموار بنا دیا گیا تھا اور اس ہموار زمین پر مکان تعمیر ہو گئے تھے۔ میں ٹھٹک کر سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا اور حدِ نظر تک پھیلے کنکریٹ سے بنے مکانوں کو دیکھنے لگا جن کی بنیادوں میں کہیں دُور میرے بچپن کی یادیں دب گئی تھیں۔ مجھے یوں لگا پلک جھپکتے ہی وقت کے ساحر نے سب کچھ بدل دیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں