"SSC" (space) message & send to 7575

لتا: سایہ تری صدا کا مرا ہمسفر ہوا (آخری قسط)

وہ ٹورانٹو کی سرد برفانی رات تھی اور میں سائیڈ واک پر احتیاط سے چل رہا تھا۔ فاروق کے ہاسٹل سے میرے اپارٹمنٹ کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن برف نے میری رفتار کم کر دی تھی۔ بلور سٹریٹ پر چلتے ہوئے میں دائیں ہاتھ ٹورانٹو میوزیم والی سڑک پر مُڑا اور پھر کچھ دور چل کر بائیں ہاتھ وہ سڑک آتی تھی جو سیدھی 35 چارلس سٹریٹ کو جاتی تھی‘ جہاں ہماری اپارٹمنٹ بلڈنگ تھی۔ 21 منزلہ اس عمارت میں ہمارا اپارٹمنٹ 19ویں منزل پر تھا۔ میں نے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا تو خالی پن کا احساس ہوا۔ اسما اور بچے ان دنوں پاکستان گئے تھے اور میں گھر میں اکیلا رہ رہا تھا۔ کپڑے بدل کر میں نے کافی کا ایک کپ تیار کیا اور لاؤنج میں صوفے پر بیٹھ گیا۔ اپارٹمنٹ کے اندر سنٹرل ہیٹنگ کی وجہ سے درجہ حرارت نارمل تھا۔ لاؤنج کی بڑی کھڑکی سے باہر کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ برف کے گالے مسلسل آسمان سے گِر رہے تھے۔
صوفے پر بیٹھے گرم بلیک کافی کا گھونٹ لیتے ہوئے مجھے اس روز مانچسٹر میں اپنے دوست استاد راج کی یاد آئی جو یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سوشیالوجی کا پروفیسر تھا۔ اس کا تعلق جنوبی ہندوستان سے تھا‘ یہاں پڑھنے آیا تھا اور پھر اپنی بہترین تعلیمی کارکردگی کی بدولت اسے یہیں نوکری مل گئی تھی۔ میں اکثر چھٹی کے دن اس کے گھر چلا جاتا۔ راج نے شادی نہیں کی تھی اور مانچسٹر کے علاقے سکارزڈیل میں ایک چھوٹے سے گھر میں کرائے پر رہتا تھا‘ جہاں دنیا جہان کی کتابیں اس کی ساتھی تھیں۔ راج کو موسیقی سے دلچسپی تھی اور موسیقی کے حوالے سے اس کی معلومات قابلِ رشک تھیں۔ مجھے یاد ہے ایک بار میں اپنے دوست جہانگیر کے ہمراہ اس کے گھر گیا تھا۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ مانچسٹر میں اس روز خلافِ معمول ہلکی دھوپ پھیلی ہوئی تھی‘ ورنہ ہم تو ہر روز کی بارش سے تنگ آگئے تھے۔ ہم باتیں کر رہے تھے اور اس منظر میں ٹیپ ریکارڈر پر گیت چل رہے تھے۔ اچانک راج چپ ہو گیا اور کہنے لگا: لتا نے بہت سے گانے گائے لیکن یہ گانا میرا پسندیدہ ہے، گانے کے بول تھے ''رسک بلما دل کیوں لگایا‘‘ گیت کیا تھا کوئی سحر تھا جو ہم پر طاری ہو گیا تھا۔ ہم نے ٹیپ ریکارڈر پر وہ گیت کئی بار سنا۔ راج نے بتایا کہ اس گیت میں شاعری، موسیقی اور گائیکی اپنے عروج پر ہے۔ گیت کے بول حسرت جے پوری نے لکھے تھے اور اس کی دُھن شنکر جے کشن نے بنائی تھی اور لتا کی آواز نے گیت کو امر کردیا تھا۔ گیت فلم ''چوری چوری‘‘ سے تھا۔ اسی فلم میں بہترین موسیقی دینے پر شنکر جے کشن کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔ گانے میں ہماری دلچسپی دیکھ کر راج نے بتایا کہ اس زمانے کے معروف ڈائریکٹر محبوب ان دنوں لاس اینجلس کے ایک ہسپتال میں بیمار پڑے تھے۔ ایک روز لتا کو ان کا فون آیا اور انہوں نے فرمائش کی: مجھے فون پر ''رسک بلما‘‘ گیت سنا دیں۔ لتا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ کئی راتوں تک اسے محبوب صاحب کا فون آتا رہا اور ان کی ایک ہی فرمائش ہوتی تھی کہ لتا فون پر وہ گیت سنائیں۔ اس روز راج کے گھر ہمیشہ کی طرح بہت اچھی محفل رہی تھی‘ اور آج کئی سالوں بعد ٹورانٹو کی اس برفانی رات میں ہم نے فاروق کے ہاسٹل میں لتا کے گیت سنے تھے۔ اگلے روز میں ٹورانٹو کی رابرٹسن لائبریری چلا گیا اور لتا کے حوالے سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کیں۔ شام تک میں لتا کے پسِ منظر کے بارے میں بہت سی باتیں جان چکا تھا۔ لتا کے والد بھی سنگیت کار تھے‘ ان کی ایک چھوٹی سی ڈرامہ کمپنی تھی اور وہ مختلف شہروں میں جا کر پرفارم کرتے تھے۔ ان کے بہت سے شاگرد تھے جو ان سے گانا سیکھنے آتے تھے۔ یوں لتا کو بچپن ہی سے ایک ایسا ماحول ملا جس میں گیت اور سنگیت کی مرکزی اہمیت تھی۔ لتا کے والد دینانند منگیشکر کے پانچ بچے تھے جن میں لتا سب سے بڑی تھیں۔ لتا نے کم عمری میں ہی گانا شروع کر دیا تھا۔
1942ء میں جب لتا کے والد کا انتقال ہوا تو لتا کی عمر 14 برس تھی۔ یوں گھر بھر کی معاشی ذمہ داری کم سن لتا پر آ گئی تھی۔ ایسے میں ماسٹر عنایت نے اس کا ہاتھ تھاما اور پھر لتا کا گھرانہ پونا سے بمبئی آ گیا۔ لتا کی زندگی میں ماسٹر غلام حیدر کا اہم کردار ہے جن کی بدولت لتا نے 1948ء میں ''مجبور‘‘ فلم میں پہلا گیت گایا۔ یہاں یہ بات اہم ہے لتا کی مادری زبان مراٹھی تھی اور اردو سیکھنے کے لیے انہوں نے ایک استاد رکھا ہوا تھا۔ سخت محنت سے لتا نے اردو کے تلفظ پر مکمل عبور حاصل کر لیا۔ لتا نے اردو کے ہزاروں گیت گائے جنہیں سن کر یوں لگتا ہے کہ اردو اس کی اپنی زبان ہے۔ لتا کے فنی سفر میں پہلا اہم سنگِ میل ''محل‘‘ فلم میں ان کا گیت ''آئے گا آئے گا آنے والا‘‘ تھا۔ اس گیت کی دھن کھیم چند پرکاش نے بنائی تھی۔ کمال امروہوی کی فلم ''محل‘‘ جہاں کامیابی سے ہمکنار ہوئی‘ وہیں لتا پر شہرت کے دروازے کھل گئے اور پھر تو لتا سُر کے سفر میں بلندیوں کو سَر کرتی گئیں۔
کہتے ہیں لتا جب گاتیں تو اس بات کا اہتمام کرتی تھیں کہ ان کا گانا جس ہیروئن پر فلمایا جائے‘ گانے میں آواز کا آہنگ بھی ہیروئن کی آواز جیسا ہو۔ لتا کا ایک اور اعزاز بھی ہے۔ انہوںنے متعدد زبانوں میں گیت گائے۔ میں نے جب رفیع کے ہمراہ لتا کا پنجابی میں گانا سنا تو یوں لگا‘ لتا کی اپنی زبان پنجابی ہے۔ یہ لتا کی سنگیت سے محبت اور ان تھک محنت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے مختلف زبانوں کے گیت ان زبانوں کے آہنگ کو برقرار رکھتے ہوئے گائے۔ لتا کے بارے میں ان کے ہم عصر ساتھی کہتے تھے کہ لتا جب کوئی گانا گاتی تھی تو اس اہتمام سے گاتی تھی جیسے پہلی بار گا رہی ہوں۔ ایک انٹرویو میں جب لتا سے پوچھا گیا کہ آپ نے ہزاروں گیت گائے ہیں‘ کیا کوئی ایسا گیت ہے‘ جسے گانے کی خواہش باقی ہو۔ اس کے جواب میں لتا نے کہا تھا کہ پیاس ہمیشہ باقی رہنا چاہیے۔ اسی طرح کی بات Apple کمپیوٹرز کے بانی Steve Jobs نے کہی تھی۔ ایک یونیورسٹی کے کانووکیشن میں نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا "Stay hungry. stay foolish" یہی وہ ''بھوک‘‘ ہے، یہی وہ ''پیاس‘‘ ہے اور یہی وہ تشنگی ہے جو انسان کو بے قرار رکھتی ہے اور اسے جمود کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ تقریباً ستر سال کے فنی سفر میں لتا کے ساتھ کئی مسافر اس راہ پر چلے‘ کچھ دور تک چل کر تھک گئے اور ان کی جگہ نئے مسافر آ گئے‘ لیکن لتا کا سفر اسی آب و تاب سے جاری رہا۔ نئے تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا آسان کام نہیں تھا۔ اس کے لیے لتا نے سخت محنت کی اور اسی محنت کی بدولت ستر سال تک ان کا نام شہرت کے آسمان پر جگمگاتا رہا۔ آنے والے وقتوں میں جب بھی موسیقی کی تاریخ لکھی جائے گی یہ نام یونہی جگمگاتا رہے گا۔ کہتے ہیں‘ زندگی رنگ برنگ کے منظروں کا مجموعہ ہے۔ کبھی خوشی، کبھی اداسی، کبھی شور، کبھی سکوت، کبھی حیرت، کبھی مایوسی، کبھی ہجر، کبھی وصال۔ رنگ رنگ کے ان منظروں میں ایک آواز میرے ساتھ ساتھ رہی۔ لتا کی دل موہ لینے والی آواز۔ اب لتا اس فانی دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں لیکن ان کی آواز کا جادو تادیر میرے ساتھ چلتا رہے گا۔ یوسف حسن نے سچ کہا تھا:
تیرے بدن کی دھوپ دریچے میں رہ گئی
سایہ تری صدا کا مرا ہمسفر ہوا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں