مارچ کے مہینے میں کراچی کی شامیں سمندر کی ہواؤں کو چُھو کر اور حسین ہو جاتی ہیں اور جوں جوں شام رات کی دہلیز کی طرف بڑھتی ہے‘ رات کے اپنے رنگ روشن ہو جاتے ہیں۔ میں ایک طویل عرصے بعد کراچی آیا ہوں۔ کراچی سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ ان دنوں کی یادیں جب میں نوے کی دہائی میں آغا خان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور ملیر کینٹ میں رہتا تھا۔ کراچی چھوڑے ایک عرصہ بیت گیا ہے لیکن اب بھی زندگی کی بے ڈھب مصروفیتوں میں تنہا ہوتا ہوں تو کراچی کی شاموں کی مہک بے چین کر دیتی ہے‘ اور ان شاموں کے ساتھ جُڑے ہوئے دن رات روشن ہو جاتے ہیں۔ جب بھی کراچی جانا ہو پہلی محفل یارِ عزیز شکیل الرحمن کے گھر ہوتی ہے۔ مہمان نوازی کیا ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ ان کے گھر آ کر ہوتا ہے۔ اس محفل کی خاص بات ان کی بیگم کی ہاتھ کی بنی نہاری ہوتی ہے جو ذائقے اور لذت میں اپنی مثال آپ ہے۔
کراچی میں سب سے پہلا خیال شکیل عادل زادہ کا آتا ہے۔ وہی شکیل عادل زادہ جن کے سب رنگ ڈائجسٹ کا ایک زمانہ اسیر تھا‘ جن کی منفرد نثر کے دیوانے آپ کو ہر شہر میں ملتے ہیں۔ شکیل عادل زادہ کو فون کر کے اپنی کراچی آمد کا بتایا۔ طے پایا کہ ہماری ملاقات کراچی میں شکیل الرحمن صاحب کے گھر ہو گی۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا اور شام کے رنگ سمندر کی ہواؤں میں گھل مل گئے تھے جن میں کراچی کی روشنیاں اور بھلی لگ رہی تھیں۔
شکیل الرحمن کے گھر پہنچا تو ان کے ڈرائنگ روم میں پہلے سے ہی شکیل عادل زادہ اور عقیل عباس جعفری صاحب بیٹھے تھے‘ دوسرے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ کچھ ہی دیر میں محفل اپنے عروج پر تھی۔ عقیل عباس جعفری‘ جو ایک معروف شاعر اور محقق ہیں‘ اپنی پی ایچ ڈی کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ان کی تحقیق کا موضوع پاکستان میں فلم انڈسٹری تھا۔ وہ بتا رہے تھے کہ لاہور اور بمبئی فلم سازی کے دو بڑے مراکز تھے۔ انہوں نے دلچسپ بات بتائی کہ مشرقی پاکستان، جہاں بنگلہ زبان بولنے والوں کی اکثریت تھی‘ میں بھی ساٹھ کے قریب اردو فلمیں بنائی گئیں۔ مجھے یقین ہے تیرہ ابواب پر مشتمل یہ تحقیقی مقالہ جب کتابی شکل میں سامنے آئے گا تو بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔
شکیل عادل زادہ سے جب بھی ملاقات ہو ان کی گفتگو کی قوس قزح آپ کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ 'وہ کہیں اور سنا کرے کوئی‘ کی کیفیت ہوتی ہے۔ ان کی نثر کی خوبصورتی ان کی گفتگو میں بھی نظر آتی ہے۔ آج کل وہ اپنی کہانی ''بازی گر‘‘ کی آخری قسط پر کام کر رہے ہیں۔ ''بازی گر‘‘ کہانی ایک زمانے میں سب رنگ ڈائجسٹ کی پیشانی کا جھومر تھی جس کا کردار بابر زمان خان نوجوانوں کے دلوں سے بہت قریب تھا اور کہانی کا کردار بٹھل اردو ادب کے بہترین کرداروں میں سے ایک تھا۔ سب رنگ کا انتظار بے چینی سے ہوتا۔ پھر سب رنگ کی ماہانہ اشاعت میں تاخیر ہونے لگی اور ایک دن پتہ چلا کہ سب رنگ بند ہو گیا ہے۔ اس بندش کو کئی برس ہو گئے لیکن لوگوں کے دلوں میں اس حشر ساماں سب رنگ کی یادیں اب بھی مہک رہی ہیں۔ سب رنگ کی بندش پر شکیل عادل زادہ نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی۔ مجھے یاد ہے‘ جب ہم نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں لٹریچر کارنیوال کا اہتمام کیا تھا تو شکیل عادل زادہ کے ساتھ ایک محفل کا اہتمام کیا تھا۔ اس روز دور و نزدیک سے شکیل عادل زادہ کے چاہنے والے امڈ آئے تھے۔ سٹیج پر میں نے اور عزیز دوست رؤف کلاسرا نے شکیل عادل زادہ کا انٹرویو کیا تھا‘ اور پھر سامعین کے سوالات پوچھنے کی باری تھی۔ اس روز سامعین کی اکثریت نے شکیل عادل زادہ سے ایک ہی سوال پوچھا تھا: سب رنگ کب شائع ہو رہا ہے؟ ''بازی گر‘‘ کی اگلی قسط کب آئے گی؟ پھر ایک روز پتہ چلا کہ وہ بازی گر کی آخری قسط پر کام کر رہے ہیں‘ لیکن اس بات کو بھی ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ آج بھی پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ بازی گر کی آخری قسط پر کام جاری ہے‘ لیکن اس دوران ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ ایک روز اچانک بازار میں ''بازی گر‘‘ نامی کتاب آ گئی جس میں کہانی کی آخری قسط بھی موجود تھی۔ یہ خبر سب کے لیے ایک خوش گوار حیرت تھی لیکن شکیل عادل زادہ کو قریب سے جاننے والے تذبذب میں تھے۔ ان کا شک اس وقت یقین میں بدل گیا جب شکیل عادل زادہ نے بازار میں آنے والی کتاب سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تب یہ راز کھلا کہ لاہور میں رہنے والے ایک ستم ظریف نے خود ہی ''بازی گر‘‘ کہانی کی آخری قسط لکھ کر یہ کتاب شائع کر دی ہے۔ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی جس پر کتاب لکھنے والے کو قانونی نوٹس دیا گیا‘ جس پر اس نے اپنا معافی نامہ مختلف اخبارات میں شائع کرایا۔ اسی محفل میں نوجوان حسن رضا گوندل بھی تھا جس نے شکیل عادل زادہ کے سب رنگ کا ایک نئی طرز میں احیا کیا۔ اس سارے عمل میں گگن شاہد اور امر شاہد کا مرکزی کردار ہے جنہوں نے سب رنگ میں چھپنے والی غیرملکی کہانیوں کے تراجم پر مبنی کتابیں طباعت کے اعلیٰ معیار کے ساتھ شائع کیں۔ اسی محفل میں کراچی آرٹس کونسل کے شکیل خان بھی تھے جنہیں ہزاروں اشعار زبانی یاد ہیں۔ ہماری فرمائش پر انہوں نے اقبال عظیم کی ایک طویل بحر والی غزل سنائی۔ یہیں کراچی پر یس کلب کے فاضل جمیلی بھی مدعو تھے اور ایک مقامی میڈیا گروپ کے محمد عرفان بھی جو عمدہ شعری ذوق کے مالک ہیں اور کتنے ہی شاعروں کا کلام انہیں حفظ ہے۔
ڈرائنگ روم میں میرے سامنے والے صوفے پر کونے میں آرٹسٹ شاہد رسان بیٹھے تھے جنہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے سب سے بڑے قرآن پاک کی کتابت کر رہے ہیں۔ اسی محفل میں میری ملاقات مجاہد مرزا سے بھی ہوئی جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں جن کی عمر کا ایک حصہ بائیں بازو کی سیاست میں گزرا‘ پھر وہ روس گئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اب ان کی سوانح عمری شائع ہوئی ہے۔ یہ کتاب زاہد کاظمی نے شائع کی ہے جن کا تعلق ہری پور سے ہے۔ کاظمی صاحب سے غائبانہ تعارف تو پہلے سے تھا‘ آج اس محفل میں ان سے ملاقات بھی ہو گئی۔ ان کی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کی تعداد میں کتابیں ہیں‘ اور آپ بیتیوں کا بڑا ذخیرہ ان کی لائبریری میں موجود ہے۔ کتابوں سے محبت میں انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے۔ اب کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ محفل اپنے عروج پر تھی کہ اعلان ہوا کہ کھانا تیار ہے۔ یہ نہاری کی محفل تھی لیکن ہمارے میزبان نے نہاری کے ساتھ انواع و اقسا م کی ڈشز تیاری کر رکھی تھیں۔ کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں دوبارہ محفل جمی۔ باتوں کے رنگ تھے کہ بکھرتے چلے جا رہے تھے۔ اس چھت کے نیچے کتنے ہی مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ یہ سب یارِ عزیز شکیل الرحمن کی مقناطیسی شخصیت کی بدولت کھینچے آئے تھے۔ اب رات بھیگ چلی تھی۔ میں محفل میں دوستوں سے رخصت ہو کر باہر آ گیا۔ کراچی کی رات سمندر کی ہواؤں کو چُھو کر اور حسین ہو گئی تھی اور میں سڑک پر بہتی روشنیوں کے ساتھ اپنے ہوٹل کی طرف جا رہا تھا۔