یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب میں کراچی کی آغا خان یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا اور شہر کے ہنگاموں سے دور ملیر کینٹ میں رہتا تھا۔ یہ نوے کی دہائی کی بات ہے۔ ان دنوں ملیر کینٹ ایک خاموش اور پُرسکون علاقہ تھا۔ گھر سے آفس تک پہنچنے میں مجھے آدھا گھنٹہ لگتا تھا۔ وہ سردیوں کا موسم تھا اور جنوری کی اٹھارہ تاریخ جب ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ تب تک موبائل فون عام نہیں ہوئے تھے اور گھروں میں صرف پی ٹی سی ایل فون ہوا کرتا تھا۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف ہمارے ادارے کا ڈائریکٹر رابرٹ بیکر تھا۔ یقیناً کوئی غیرمعمولی بات تھی جو رابرٹ نے اس وقت فون کیا تھا۔ میں نے فون اٹھایا تو رابرٹ کی آواز میں واضح تشویش تھی۔ بغیر کسی تمہید کے وہ بولا ''تمہیں معلوم ہے لاہور میں ظہور اخلاق اور ان کی بیٹی جہاں آرا کا قتل ہو گیا ہے‘‘ میں یہ سن کر سکتے میں آ گیا۔ رابرٹ کہہ رہا تھا ''النور کی کیا خبر ہے؟‘‘ النور جہاں آرا کا منگیتر تھا جس نے حال ہی میں ہمارے ادارے کو جوائن کیا تھا۔ رابرٹ کو معلوم تھا کہ میری ظہور صاحب سے دوستی ہے اور مجھے اس خبر کے بارے میں معلوم ہو گا۔ میں نے رابرٹ کو بتایا کہ یہ خبر میں اس کی زبانی سن رہا ہوں۔
رابرٹ کا فون بند ہوا تو مجھے یوں لگا میرے جسم میں جان نہیں رہی۔ میں لائونج میں پڑے صوفے پر ڈھیر ہو گیا اور مجھے ٹورانٹوکا وہ خوبصورت دن یاد آنے لگا جب میں پہلی بار پاکستان کے معروف مصور اور نیشنل کالج آف آرٹس میں فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ظہور اخلاق سے ملا تھا۔ ان دنوں میں یونیورسٹی آف ٹورانٹو سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور یونیورسٹی کی فیملی اکاموڈیشن بلڈنگ میں 19ویں منزل پر واقع اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ یہ بلڈنگ 35 چارلس سٹریٹ ویسٹ کہلاتی تھی اور اس میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے طلباء اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے۔ میں اور اسماء بھی اپنے دو بچوں صہیب اور ہاجرہ کے ہمراہ یہاںمقیم تھے۔
وہ معمول کا ایک دن تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف میرا دوست امین الرحمن تھا۔ امین نے لاہور کے نیشنل کالج آف آرٹس سے تعلیم حاصل کی تھی اور آج کل ٹورانٹو میں پینٹنگ کر رہا تھا۔ اس سے میری پہلی ملاقات مانچسٹر میں ہوئی تھی جہاں میں انگریزی میں ایم اے اور امین فائن آرٹس میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ میں تعلیم مکمل کرکے پاکستان آ گیا اور پھر کئی برس بعد پی ایچ ڈی کیلئے ٹورانٹو یونیورسٹی چلا گیا۔ ایک روز میں سب وے میں سفر کر رہا تھا تو کسی نے میرے نام سے پکارا۔ دیکھا تو وہ امین تھا۔ ہم کئی برس بعد ایک غیر متوقع مقام پر ملے تھے۔ یہ ایک دلچسپ اتفاق تھا۔ پھر ہم تواتر سے ملنے لگے۔ کبھی میں اس کے گھر چلا جاتا اور کبھی وہ ہمارے ہاں آ جاتا۔ اس روز امین کا فون آیا تو اس نے بتایا وہ میری طرف آرہا ہے اور اس کے ہمراہ دو مہمان بھی ہوں گے۔ میں نے کہا: ضرور۔
کچھ ہی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو امین تھا اور اس کے ہمراہ دو لوگ تھے۔ ہم لِونگ روم (Living Room) میں بیٹھ گئے۔ امین نے تعارف کرایا: یہ ظہور اخلاق ہیں اور یہ ان کی بیگم شہرزاد ہیں۔ دونوں کی دلکش شخصیتوں میں ضرور کوئی سحر تھا کہ کچھ ہی دیر میں مجھے یوں محسوس ہوا ہم ایک مدت سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ ظہور اخلاق سے مل کر لگتا ہی نہیںتھاکہ ہم پاکستان کے نامور مصور سے مل رہے ہیں جس نے مصوری کی دنیا میں نئے رجحانات متعارف کرائے اور روایت کا دامن بھی تھامے رکھا۔ اس کی وجہ ان کی طبیعت میں حد درجہ حلم اور عاجزی تھی۔ ادھر شہرزاد کی اپنی پہچان تھی۔ وہ پاکستان میں سرامکس (Ceramics) کے شعبے کی ماہر تھیں اور مٹی کے برتن بنانے میں ممتاز مقام رکھتی تھیں۔
شہرزاد اور ظہور اخلاق سے پہلی ملاقات ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔ میرے لیے یہ خوش کُن خبر تھی کہ ظہور اور شہرزاد نے پاکستان سے ٹورانٹو منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور انہوں نے ہمارے گھر سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر ایک گھر کرائے پر لے لیا تھا۔ ان دنوں پاکستان سے میرے تین اور دوست نصیر، ہارون اور فاروق بھی یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں پڑھ رہے تھے۔ یہ اکثر ہمارے گھر آجاتے۔ ظہور صاحب کی ان سے بھی دوستی ہو گئی تھی۔ ظہور صاحب اور شہرزاد کا گھر مہمانوں کیلئے ہمیشہ کھلا رہتا۔ اکثر میں اور اسماء بچوں کے ہمراہ ان کے گھر جاتے۔ اسی طرح ظہور صاحب بھی ہمارے ہاں آجاتے اور خوب گپ شپ ہوتی۔ ظہور صاحب اونٹیریو کالج آف آرٹ سے جزوقتی طور پر وابستہ ہو گئے تھے۔
ایک بار انہیں کسی کانفرنس میں جانا تھا اور کانفرنس کے آرگنائزز کو ان کے تازہ سی وی کی ضرورت تھی۔ ظہور صاحب نے مجھے کچھ کاغذات ٹائپ کرنے کو دئیے۔ ان کا سی وی واقعی متاثر کن تھا۔ ظہور صاحب ایک سیلف میڈ شخص تھے‘ جنہوں نے اپنی محنت اور بے پناہ تخلیقی صلاحیت کی بدولت فن کی دنیا میں اپنا مقام بنایا۔ ظہور صاحب کی جائے پیدائش دہلی تھی جہاں وہ 1941 میں پیدا ہوئے۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد لاہور آ گئے اور پھر کراچی میں ڈیرہ جمایا۔ نوجوانی سے ہی ظہور اخلاق کا رجحان آرٹ کی طرف تھا۔ لاہور میں لاہور میو سکول آف آرٹس کے نام سے آرٹ کا ایک اہم تعلیمی ادارہ ہوا کرتا تھا‘ جہاں پاکستان کے معروف آرٹسٹ شاکر علی بھی پڑھاتے تھے۔ وہی شاکر علی جنہوں نے مصوری میں Cubism کی روایت کو آگے بڑھایا۔ بعد میں جب لاہور میو سکول آف آرٹس کا نام نیشنل کالج آف آرٹس رکھ دیا گیا تو شاکر علی 1962میں اس کے پہلے پاکستانی پرنسپل بنے تھے۔
جب نوجوان ظہور اخلاق کراچی سے لاہور آیا تو شاکر علی نے اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتے وہ خواب دیکھ لیے جن کی تعبیر نے ظہور اخلاق کو پاکستان کا ایک بڑا مصور بنانا تھا۔ شاکر علی نے ہونہار ظہور اخلاق کو اپنے حلقہ اثر میں لے لیا۔ ظہور صاحب ہمیشہ شاکر علی کا ذکر محبت سے کرتے۔ جب پہلی بار میں ظہور اور شہرزاد کے گھر گیا تو ان کی دو بیٹیوں سے ملاقات ہوئی۔ بڑی بیٹی جہاں آرا‘ جس نے اپنے لیے کلاسیکل رقص کا شعبہ منتخب کیا تھا‘ اپنے سربلند ماں باپ کی طرح تیزی سے فن کی دنیا میں اپنا مقام بنا رہی تھی۔ چھوٹی بیٹی نور جہاں کالج میں تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ میں ان کے گھر جب بھی گیا ہمیشہ خوش دلانہ تپاک کا احساس ہوا۔ ان کے گھر ہم بے تکلف لوِنگ روم میں بیٹھتے اور طرح طرح کے موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ ان کے گھر اکثر اپنے شعبوں کے ممتاز افراد سے ملاقات ہوتی۔ میری پہلی بار آئی اے رحمن سے اسی گھر میں ملاقات ہوئی۔ اسی طرح گوپی چند نارنگ سے بھی پہلی بار میں یہیں ملا۔ پھرایک محفل میں گلزار پر ڈاکومنٹری بنانے والی ایک نوجوان فلم میکر سے بھی یہیں ملاقات ہوئی۔ اس روز ہم رات گئے تک گلزار کی فلموں اور شاعری پر بات کرتے رہے۔ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ جب میں ظہور صاحب اور شہرزاد کو خدا حافظ کہہ کر گھر سے باہر نکلا تو ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی تھی۔ ہوا میں خاص طرح کی کاٹ تھی۔ میں نے جیکٹ کی زِپ کالر تک بند کر لی اور سائڈ واک کی نرم برف پر احتیاط سے پاؤں رکھتا ہوا خراماں خراماںگھر کی طرف چلنے لگا۔ (جاری)