ان دنوں میں سکول میں پڑھتا تھا جب پہلے پہل میری فلم سے شناسائی ہوئی۔ تب مختلف کمپنیوں کی مصنوعات کی تشہیر کے لیے کھلے میدان میں بڑی سکرین پر فلم دکھائی جاتی۔ لوگ کثیر تعداد میں فلم دیکھنے کے لیے آتے اور پھر فلم کے ساتھ ساتھ اشتہاروں کے ذریعے لوگوں تک پیغام پہنچایا جاتا۔ میرا پرائمری سکول لال کرتی میں تھا۔ ہمارے سکول سے چند قدموں کے فاصلے پر راولپنڈی کا ایک قدیم سینما تصویر محل تھا۔ آتے جاتے ہم بچے اداکاروں کے بڑے بڑے پوسٹر دیکھتے۔ یہ پوسٹر بنانے والے اس مہارت سے تصویریں بناتے کہ یوں لگتا یہ تصویریں نہیں زندہ انسان ہیں۔ ان پینٹرز کی کاریگری اور مہارت پر میری حیرت آج بھی میرے ساتھ ہے۔ اکثر نئی فلم کا آغاز جمعہ کے دن ہوتا۔ فلم کی مارکیٹنگ کے لیے تانگے پر پوسٹر لگائے جاتے، ڈھول بجا کر لوگوں کو متوجہ کیا جاتا اور مائیک سے فلم کے بارے میں اعلان کیا جاتا۔ آتے جاتے ہر روز ہم تصویر محل سینما اور اس پر لگے پوسٹرز کو بڑے اشتیاق سے دیکھتے۔ اس زمانے میں ہمارے گھر کے قریب عابد مجید روڈ پر گیریژن سینما ہوا کرتا تھا جہاں اردو فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ گیریژن سینما کی طرح قاسم ایوی ایشن بیس (دھمیال کیمپ) میں ایک سینما تھا۔ اسی طرح راول روڈ پر پی اے ایف سینما ہوا کرتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب گھر گھر ٹی وی نہیں آیا تھا اور جن گھروں میں ٹی وی تھا‘ وہاں بھی صرف ایک سرکاری چینل ہوا کرتا تھا جس کی نشریات محدود اوقات کے لیے ہوتی تھیں۔ نہ ہی اس وقت موبائل فون کا دور دورہ تھا۔ سینما گھر ہی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ یوں سینما گھروں پر لوگوں کی خوب بھیڑ ہوتی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سینما گھروں میں تین شوز ہوا کرتے تھے۔ اتوار کو صبح سپیشل شو ہوا کرتا تھا۔ کوئی نئی فلم آتی تو لوگوں کا ہجوم اُمڈ آتا۔ ٹکٹ لینے والی کھڑکی تک پہنچنے کے لیے دھکم پیل ہوتی۔ کچھ من چلے قمیصیں اتار کر قطار کو چیرتے ہوئے اس طرح ٹکٹ والی کھڑکی تک پہنچتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ ایسے میں کچھ پیشہ ور ٹکٹ بلیک میں بیچتے تھے، یعنی ٹکٹ کی قیمت سے زیادہ پیسے وصول کرتے۔ ایسے میں وہ لوگ جو لمبی قطار میں کھڑے ہونے سے بچنا چاہتے‘ زیادہ پیسے دے کر ٹکٹ بلیک میں حاصل کر لیتے۔ یوں فریقین کا کام ہو جاتا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سینما گھروں میں لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ آتے اور سینما گھر ہمارے کلچر کا حصہ بن چکے تھے۔
سکول کے بعد میں پہلے سرسید کالج اور پھر گورڈن کالج کا طالب علم بنا۔ یوں میں صدر، مری روڈ، کمیٹی چوک، سیٹلائٹ ٹاؤن‘ راجہ بازار اور سٹی صدر روڈ کے علاقوں سے شناسا ہوا۔ راولپنڈی کے صدر بازار میں تین اہم سینما گھر تھے۔ ان میں سے ایک سیروز سینما تھا۔ میں نے اپنی زندگی کی بیشتر فلمیں یہاں دیکھیں۔ یہ سینما انگریزی فلموں کی نمائش کے لیے جانا جاتا تھا۔ یہیں میں نے سمر آف 42 دیکھی تھی جس کا تاثر ابھی تک میرے ساتھ ہے۔ سیروز کے علاوہ صدر میں دو اور سینما گھر اوڈین اور پلازہ تھے۔ اوڈین سینما کا پہلا نام لینس ڈاؤن سینما تھا جو لینس ڈاؤن گارڈن کی حدود میں تعمیر کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں اس کی تعمیر میں سوجان سنگھ رائے بہادر کا ہاتھ تھا۔ سوجان سنگھ کا شمار راولپنڈی کے رؤسا میں ہوتا تھا۔ اس کے قریب ہی پلازہ سینما تھا۔ پلازہ سینما کا پرانا نام الفنسٹن تھا‘ جہاں ڈانسنگ فلور تھا۔ یاد رہے‘ یہ ان زمانوں کی یادگار تھا جب چھاؤنی میں برطانوی فوج کے افسر مقیم تھے اور تفریح کے لیے پلازہ کے ڈانسنگ فلور پر آتے تھے۔ مجھے یاد ہے میں نے یہاں معروف ہارر فلم The Exorcist دیکھی تھی اور اس کے ٹکٹ کے حصول کے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔ صدر میں ہی ایک سینما کیپٹل ہوا کرتا تھا جس کا شمار راولپنڈی کے پرانے سینماؤں میں ہوتا تھا۔ چکلالہ کے علاقے میں شاہین سینما ہوا کرتا تھا جہاں اردو فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ راولپنڈی کے علاقے ویسٹرج میں ریکس (Rex) کے نام سے ایک سینما تھا جو یہاں کے قدیم سینما گھروں میں شمار ہوتا تھا۔ میں نے جب گورڈن کالج میں ایم اے انگلش کے لیے داخلہ لیا تو مری روڈ میری راہ گزر بن گئی۔ صدر سے لیاقت آباد کی طرف آتے ہوئے مریڑ حسن کے پل کے نیچے سے آگے آئیں تو دائیں ہاتھ دو سینما ریالٹو اور سنگیت تھے۔ سنگیت سینما ملکہ ترنم نور جہاں کا تھا‘ اور اس کا نام بھی نور جہاں کی سنگیت سے وابستگی کی بنیاد پر رکھا گیا تھا۔ مری روڈ پر آگے جائیں تو سینما گھروں کا ایک جھرمٹ آتا تھا ان میں ایک تو موتی محل سینما تھا جس کا مالک گوجر خان کا ملک محبوب تھا۔ کمیٹی چوک میں ایک سینما شبستان کے نام سے تھا جس کے مالک پرویز خٹک کے والد رستم خٹک تھے۔ اس سے کچھ فاصلے پر شبستان سینما تھا جس کے مالک آغا جی اے گل تھے۔ یہ وہی آغا جی اے گل ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلا سینما پشاور میں بنایا تھا۔ اس سینما کا نام فردوس تھا اور اس کا افتتاح 15 اگست 1947 کو ہوا تھا۔ آغا جی اے گل کا بنایا ہوا ایورنیو سٹوڈیو لاہور میں اب بھی کام کر رہا ہے۔ آغا صاحب کے بیٹے سجاد گل بھی فلم اور ڈرامہ کی انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ شبستان سینما کے قریب ہی ایک اور سینما کہکشاں تھا یوں کمیٹی چوک میں سینما گھروں کا ایک جھرمٹ تھا۔ مری روڈ پر آگے جائیں تو دائیں طرف ناز سینما تھا۔ مری روڈ سے بائیں طرف سیٹلائٹ ٹاؤن کی طرف آئیں تو وہاں نادر سینما تھا۔ یہ سینما نادر پرویز کی فیملی کا تھا۔ نادر پرویز کی وجہ شہرت یہ بھی ہے کہ وہ بھارت کی فتح گڑھ جیل سے سرنگ بنا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے۔ مجھے یاد ہے ایک روز زور کا مینہ برس رہا تھا‘ جب ہم دوستوں نے جارج سیگل اور گلینڈا جیکسن کی فلم A Touch of Class دیکھی تھی۔ اس فلم میں گلینڈا جیکسن کو بہترین اداکاری پر اکیڈمی ایوارڈ ملا تھا۔
شہر اور صدر کو ملانے والی سٹی صدر روڈ پر ایک سینما تاج محل کے نام سے ہوا کرتا تھا‘ جس کے مالک گوالمنڈی میں رہتے تھے۔ کشمیری بازار میں ایک قدیم سینما ناولٹی تھا۔ راجہ بازار میں بھی سینما گھروں کا ایک جھرمٹ تھا جن میں ایک سینما نشاط تھا۔ اس کے قریب ہی ایک اور سینما امپریل کے نام سے تھا۔ اسی علاقے میں ایک اور پرانا سینما خورشید تھا۔ فوارہ چوک کے پاس راولپنڈی کا قدیم ترین سینما روز تھا جو 1926 میں قائم ہوا۔ بلراج ساہنی نے اپنی یادداشتوں میں روز سینما کے قیام کا حال لکھا ہے جس کے افتتاح کے موقع پر ڈپٹی کمشنر اور شہر کے عمائدین کو دعوت دی گئی تھی۔ روز سینما میں پہلے شو میں Rupert of Hentzau نامی فلم دکھائی گئی‘ جو اسی نام کے ناول پر بنائی گئی تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ سینما کا کلچر کمزور پڑتا گیا۔ وہ سینما گھر جہاں ہر وقت بھیڑ لگی رہتی‘ تماشائیوں کی راہ تکنے لگے۔ گھروں میں پہلے وی سی آرز پھر ٹیلی ویژن اور بعد میں موبائل فونز نے لے لی۔ یوٹیوب اور Netflix نے فلموں کو گھروں تک پہنچا دیا۔ یوں ایک ایک کرکے یہ سینما گھر بند ہونے لگتے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے راولپنڈی کا منظرنامہ بدل گیا۔ آج طویل عرصے بعد راولپنڈی آیا اور پرانے راستوں پر گیا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ صبح شام، نہ وہ لوگ رہے نہ وہ دلچسپیاں۔ پرانے راستوں پر چلتے ہوئے مجھے شوکت واسطی کا شعر یاد آ گیا:
شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا