چھ جون کو صبح چار بجے جب لاہور سے پی آئی اے کے جہاز نے ٹورانٹو کے لیے ٹیک آف کیا تو یہ ایک طویل سفر کا آغاز تھا۔ لاہور سے ٹورانٹو تک کی یہ پرواز تیرہ گھنٹوں پر محیط ہے۔ کچھ دیر عمودی پرواز کے بعد جہاز میںسیٹ بیلٹس باندھنے کے نشانات بجھا دیے گئے اور جہاز نے ایک خاص بلندی پر اُڑنا شروع کر دیا۔ میرے دائیں ہاتھ کی سیٹ پر اسما بیٹھی تھی اور ہم دونوں ٹورانٹو اپنے بیٹوں صہیب اور شعیب سے ملنے جا رہے تھے۔ صہیب ہمارا بڑا بیٹا ہے‘ اس نے جنیوا سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ چند برس ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف میں ملازمت کی اور آج کل ٹورانٹو میں کینیڈین کانفرنس بورڈ کے ساتھ وابستہ ہے۔ شعیب اس سے چھوٹا ہے اور وہ یونیورسٹی آف ٹورانٹو کا طالب علم ہے۔ وہی یونیورسٹی آف ٹورانٹو‘ جس سے میرا بھی دیرینہ تعلق ہے۔ اس تعلق کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ یہ 1985ء کی بات ہے جب میں امریکی ایمبیسی کے انٹرنیشنل وزیٹرز پروگرام پر امریکہ آیا ہوا تھا‘ یہ پروگرام انگلش پڑھانے والے اساتذہ کے لیے تھا۔ دنیا کے مختلف ممالک سے اساتذہ یہاں آئے ہوئے تھے۔ اس پروگرام کا اہتمام سکول آف انٹرنیشنل لوِنگ (School of International Living) نے کیا تھا جو Brattleboro میں واقع تھا۔ پروگرام کی انچارج معروف زبان دانDiane Larsen -Freeman تھیں‘ جن کی انگریزی زبان کے حوالے سے کتابیں تعلیمی حلقوں میں مقبول ہیں۔ اس دورے میں مجھے امریکہ کے مختلف شہر وں میں جانے کا موقع ملا جن میں نیویارک‘ فلاڈیلفیا‘ واشنگٹن ڈی سی‘ پورٹ لینڈ‘ سین ڈی ایگو اور سین فرانسسکو شامل ہیں۔ ایک روز Diane سے گفتگو کے دوران میں نے پوچھا: میں مستقبل میں انگریزی زبان اور اس کی تدریس کے حوالے سے پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔ Dianeنے ایک لمحے کو سوچا اور پھر کہنے لگی: میرے خیال میں یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں OISE ‘ (Ontario Institute for Studies in Education) اس کے لیے بہترین جگہ ہے۔ اس بات کو کئی برس گرز گئے اور میں Diane سے اس گفتگو کو بھول گیا۔ 1991ء میں اخبارات میں کینیڈین کامن ویلتھ سکالرشپ کا اشتہار آیا‘ میں نے بھی اپلائی کیا۔ خوش قسمتی سے پی ایچ ڈی کے لیے میر ا انتخاب ہوگیا۔ اس سلسلے میں جب مجھ سے پوچھا گیا کہ کون سی یونیورسٹی میری ترجیح ہو گی تو مجھے کئی برس پہلے Dianeکی بات یاد آگئی اور میں نے اپنی پہلی ترجیح میںیونیورسٹی آف ٹورانٹو کا نام لکھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد مجھے یونیورسٹی آف ٹورانٹو کی طرف سے خط موصول ہو ا کہ میرا پی ایچ ڈی پروگرام میں داخلہ ہو گیا ہے۔ یہ آج سے تیس برس پہلے کی کہانی ہے لیکن آج بھی مجھے یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہو۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل فون نہیں ہوتے تھے اور انٹرنیٹ کا استعمال خال خال تھا‘ تب پاکستان سے کینیڈا جانا کسی دوسرے سیارے کا سفر لگتا تھا۔ کینیڈین کامن ویلتھ سکالرشپ میں میرج الاؤنس بھی شامل تھا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ شروع میں‘ میں ٹورانٹو اکیلا جاؤں اور رہائش کا انتظام ہونے پر ایک دو ماہ بعد بچوں کو بلا لیا جائے۔ اس وقت ہمارے دو بچے تھے‘ صہیب‘ جس کی عمر پانچ سال اور ہاجرہ‘ جس کی عمر تین سال تھی۔
یونیورسٹی کی طرف سے مجھے بتایا گیا تھا کہ یونیورسٹی میں نئے آنے والے طالب علموں کو Buddy Systemکے تحت کچھ پرانے طالب علموں سے ملایا جاتا ہے۔ خط میں بتایا گیا تھا کہ میرا Buddy انڈیا سے تعلق رکھنے والا یونیورسٹی کا سینئر طالب علم رَوی ہوگا‘ اسی دوران میرا رابطہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم Oswaldسے ہوا جس کا تعلق افریقہ سے تھا اور وہ یونیورسٹی آف ٹورانٹو میں ایجوکیشنل لیڈر شپ میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا اور اپنی بیوی اور ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ یونیورسٹی اکاموڈیشن کی عمارت 35چارلس سٹریٹ میں رہ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ میں اس کے اپارٹمنٹ کے ایک کمرے میں کرائے پر رہ سکتا ہوں۔ ٹورانٹو ایئر پورٹ پر اتر کر میں نے سر اٹھا کر نیلے آسمان کو دیکھا اور ایئر پورٹ سے چلنے والی بس میں بیٹھ کر Oswald کے دیے گئے پتے پر 35 چارلس سٹریٹ پہنچ گیا۔ یہ ایک 22منزلہ عمارت تھی اور Oswaldاس کی چھٹی منزل پر رہتا تھا۔ آسوالڈ اور اس کی بیوی نے میرا استقبال کیا اور مجھے میرا کمرہ دکھایا جہا ںمجھے عارضی طور پر رہنا تھا‘ جب تک مجھے اپنا گھر نہیں مل جاتا۔ میں نے کمرے میں سامان رکھا اور یونیورسٹی چلا گیا جو وہاں سے 10منٹ کے فاصلے پر تھی۔ رَوی سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے اپنی ڈگری مکمل ہونے پر واپس انڈیا جا رہا ہے۔ اسی روز میری ایک ایرانی طالب علم نور سے ملاقات ہوئی جس نے مجھے کافی کی دعوت دی اور کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی لڑکی سے کہا ''ڈبل ڈبل‘‘ میں حیران ہوا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ نور نے میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر کہا کہ ڈبل ڈبل کا مطلب ہے کہ کافی میں دو گنا دودھ اور شکر ڈالی جائے۔ اس کے بعد میں اور نور ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ آسوالڈ کے ہاں میں 35 چارلس سٹریٹ میں تقریباً ایک یا دو ماہ رہا۔ میں روز اخبار میں کرا ئے کے گھروں کو دیکھتا تھا۔ آخر ایک گھر کے مالک سے بات ہوئی‘ اس کا نام مسٹر خان تھا اور وہ انڈیا کے مسلمان تھے۔ مسٹر خان کی بیوی ایک ہسپتال میں ڈاکٹر تھی جو بعد میں ہماری فیملی ڈاکٹر بھی بن گئی۔ یہ گھر Ossington Avenue میں تھا۔ دو ماہ بعد میں وہاں شفٹ ہو گیا۔ یہ گھر یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر واقع تھا‘ جہاں سے میں انڈر گراؤنڈ ٹرین (جسے یہاں سب وے کہا جاتا ہے) سے یونیورسٹی آتا جاتا تھا۔ یہ ایک بوسیدہ گھر تھا جس کے فرش لکڑی کے تھے اور ان پر چلتے ہوئے شور ہوتا تھا اوپر کی منزل پر ایک کینیڈین گورا رہتا تھا اور عقب میں تنزانیہ کی ایک فیملی تھی‘ عورت کا نام بی بی تھا‘ اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ گھر کے قریب فوڈ فیکٹری کے نام سے سپر سٹور تھا۔ میں اس گھر میں اکیلا رہتا تھا اور شدت سے انتظار کر رہا تھا کہ کب اسما‘ صہیب اور ہاجرہ یہاں آئیں گے۔ پھر وہ دن آ ہی گیا جب میں ایئر پورٹ پر بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔ تب میں نے مسافروں کی بھیڑ میں دیکھا اسما نے ہاجرہ کو اُٹھایا ہوا تھا اور صہیب نے اس کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔
اچانک جہاز میں اناؤنسمنٹ سے میں حال کی دنیا میں آگیا‘ جہاز میں کھانا سرو ہو رہا تھا‘ میں نے ساتھ والی سیٹ پر سوئی ہوئی اسما کو جگایا‘ کھانا کھاتے ہوئے میں نے اسما سے کہا: یاد ہے 31 برس پہلے جب تم صہیب اور ہاجرہ کے ہمراہ کینیڈا آئی تھیں اور میں تمہیں لینے ایئرپورٹ آیا ہوا تھا۔ اس نے کہا: ہاں‘ یاد ہے‘ صہیب بار بار پوچھتا تھا: جہاز کب لینڈ کرے گا اور آج وہ ہمیں لینے کے لیے ایئر پورٹ پر ہو گا۔ ہم ہنسنے لگے۔ 31 برس کا عرصہ کیسے گزر گیا‘ پتا ہی نہیں چلا۔ اسما نے کہا :یاد ہے Ossington Avenueمیں ہمارا گھر کتنا پُراسرار تھا۔ میں نے کہا: ہاں! ایک دفعہ کا ذکر ہے‘ نصف شب کا وقت تھا اور ہم گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ اچانک شور سے ہماری آنکھ کھل گئی۔ کوئی ہمارے دروازے کو دھڑ دھڑ پیٹ رہا تھا۔ میں آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھا۔ اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ میں نے پاؤں گھسیٹتے ہوئے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ باہر دو پولیس آفیسر کھڑے تھے۔ ان کے پیچھے پولیس کی گاڑی تھی جس کی فرنٹ لائٹس کی تیز روشنی میںمیری آنکھیں چندھیا گئیں۔ (جاری)