35چارلس سٹریٹ کی 22 منزلہ عمارت ٹورونٹو شہر کے عین وسط میں واقع تھی اور یونیورسٹی آف ٹورونٹو کی ملکیت تھی۔ یہاں یونیورسٹی کے طلبا اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے۔ شروع شروع میں تو ہمیں اس بلند و بالا عمارت کی انیسویں منزل پر رہنا عجیب سا لگتا تھا لیکن پھر وہاں چار سال قیام کے دوران ہم اس کے عادی ہو گئے۔ عمارت میں تین Elevatorsتھے۔ ہمارا اپارٹمنٹ انیسویں منزل پر تھا۔ اپارٹمنٹ میں داخل ہوں تو بائیں ہاتھ کپڑوں کی closetتھی اور نچلے حصے میں جوتے رکھنے کا خانہ تھا۔ یہاں سے گزر کر آگے جائیں تو دائیں ہاتھ کچن تھا۔ پھر ایک کشادہ Living Room تھا جس میں ہم نے ایک دکان سے خریدا ہوا سیکنڈ ہینڈ صوفہ‘ ڈائننگ ٹیبل اور ایک 12انچ کا ٹی وی رکھا ہوا تھا۔ Living Room میں شیشے کی بڑی کھڑکی تھی جہاں سے نیچے دیکھیں تو چارلس سٹریٹ کے مناظر صاف نظر آتے۔ کھڑکی کے سامنے کھڑے ہوں تو دائیں ہاتھ Yonge streetکے کچھ حصے کا منظر بھی نظر آتا تھا۔ اپارٹمنٹ کا ایک چھوٹا سا ٹیرس تھا یہاں پر کھڑے ہوں تو باہر کی دنیا کی چہل پہل دیکھ سکتے تھے۔ اپارٹمنٹ میں لِونگ روم کے علاوہ دو بیڈ رومز تھے‘ ایک واش روم اور دیوار پر بنی الماریاں۔ یوں ہماری رہائش کے لیے یہ ایک مناسب جگہ تھی جو ٹورونٹو کی دو مرکزی شاہراہوں بلور (Bloor) اور ینگ (Yonge) کے سنگم پر واقع تھی۔ یہ ٹورونٹو کا مہنگا ترین علاقہ تھا۔ شہر کے اہم جلوس ینگ سٹریٹ پر نکلتے جو ہمارے اپارٹمنٹ کی کھڑکی سے صاف نظر آتے تھے۔ یوں ہم Ossington Avenueکے خاموش علاقے سے ایک انتہائی با رونق جگہ پر آ گئے تھے۔ اس جگہ کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ یہاں سے میری یونیورسٹی صرف 10 منٹ کے فاصلے پر تھی۔ برفباری کے موسم میں جب پیدل سفر کرنا مشکل ہوتا تو میں سڑک پار کر کے سامنے والی عمارت میں چلا جاتا اور اس کی انڈر گراؤنڈ راہداریوں سے ہوتا ہوا اس کے دوسرے گیٹ سے Bayسٹریٹ پر نکل آتا۔ یوں کچھ فاصلہ برف باری کی زد میں آئے بغیر گزر جاتا۔
35چارلس سٹریٹ میں مختلف ممالک سے آئے ہوئے یونیورسٹی کے طلبا رہتے تھے۔ دراصل یہ عمارت ان طلبا کے لیے تھی جو اپنی فیملیز کے ساتھ رہتے تھے۔ عمارت کے ساتھ اس کا اپنا ایک چھوٹا سا پارک تھا جس میں بچوں کے جھولے لگے ہوئے تھے جہاں شام ڈھلے اور ویک اینڈ پر خوب رونق ہوتی۔ مائیں اپنے بچوں کے ہمراہ یہاں آجاتیں۔ شام کو اسما صہیب اور ہاجرہ کو جھولوں پر لے جاتی۔ وہ بچوں کے علاوہ عورتوں کی سوشلائزیشن کے لیے بھی ایک اچھی جگہ تھی۔
یہ تین دہائی پہلے کا زمانہ تھا جب موبائل فون کا رواج نہیں تھا‘ نہ ہی انٹرنیٹ اتنا عام ہوا تھا۔ اس لیے تنہائی کا احساس شدت سے ہوتا تھا۔ ہم اپنے وطن کی خبروں کے لیے ترس جاتے۔ میں گھر کے قریب واقع پبلک لائبریری چلا جاتا جہاں پاکستان سے آئے ہوئے پرانے اخبارات پڑھتا۔ پاکستان سے آتے ہوئے کسی نے اسما کو ٹورونٹو میں رہنے والی ایک فیملی کا نمبر دیا تھا جن کا ICNA سے تعلق تھا۔ ICNAسے مراد Islamic Centre of North Americaہے جو مسلمانوں کی ایک فعال تنظیم ہے۔ اس فیملی سے پہلی ملاقات میں ہی ہمیں یوں لگا جیسے ہم ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہیں۔ یہ اقبال بھائی اور تسنیم بھابھی کی فیملی تھی۔ ان کے والدین بھی کینیڈا میں رہتے تھے۔ ان کے والد میجر عباس صاحب نے یہاں مسلم ویلفیئر فیڈریشن کینیڈا کی بنیاد رکھی جو آج کل کینیڈا کی بڑی این جی اوز میں شمار ہوتی ہے۔ ICNAکے ایک فنکشن میں اسما کی ملاقات ایک اور فیملی سے ہوئی یہ اطہر بھائی اور مسرت بھابھی تھیں۔ ان کا تعلق کراچی سے تھا۔ بہت نفیس فیملی تھی۔ ان کی تین بچیاں تھیں۔ بڑی بیٹی فاطمہ‘ منجھلی زینب اور چھوٹی بیٹی کا نام مریم تھا۔ اس فیملی سے بھی ہماری دوستی ہو گئی۔ اسی طرح ایک اور پاکستانی فیملی Spadina پر رہتی تھی‘ کبھی کبھار ان سے بھی ملنا ہوتا تھا۔ ان کے ساتھ ٹورونٹو میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ انہوں نے فوری طور پر پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہوا یوں کہ ایک روز والد نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا اور غصے میں تھپڑ بھی لگا دیا۔ اگلے روز سکول ٹیچر نے لڑکے سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ پہلے تو لڑکا چپ رہا پھر اپنی ٹیچر کو سارا احوال بتا دیا۔ ٹیچر نے اسی وقت 911 پر فون کر کے فوری مدد مانگی۔ ہمیں اس وقت خبر ملی جب پولیس انہیں لے گئی تھی۔ دوست احباب نے انہیں چھڑانے کی کوشش کی لیکن ایک رات انہیں پولیس سٹیشن میں رہنا پڑا۔ اسی دوران دو ہفتوں کے لیے لڑکے کو گھر سے دور ایک کینیڈین فیملی کے ساتھ منتقل کر دیا گیا جہاں سے وہ سکول آتا جاتا تھا۔ اسے اپنے والدین سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس واقعے نے کینیڈا میں رہنے کے ان کے خواب کو بکھیر دیا۔ اور پھر چند ہی مہینوں میں وہ سب کچھ سمیٹ کر خاموشی سے پاکستان چلے گئے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ 35چارلس سٹریٹ میں ایک انڈین فیملی کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ اس روز میں یونیورسٹی سے آیا تو پولیس خاوند سے تفتیش کر رہی تھی۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ بیوی نے 911پر فون کر کے بتایا کہ اس کا خاوند اس کے اکاؤنٹ کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ اسی عمارت میں بنگلہ دیش کی ایک فیملی تھی‘ ہدایت حسین کا تعلق ڈھاکہ سے تھا۔ وہ یہاں یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ اس کی بیوی یہاں کے مشہور ڈرگ سٹور Shoppers Drug Martمیں کام کرتی تھی‘ ان کی ننھی منی بیٹی رئیسہ میرے بیٹے کے ساتھ Jesse Ketchumسکول میں گریڈ ٹو میں پڑھتی تھی۔ ایک بار انہوں نے ہمیں ڈنر پر بلایا تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ کانٹوں والی مچھلی کو کس ذوق و شوق سے کھا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مچھلی اس طرح کھاتے ہیں کہ کانٹے خود بخود علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ ہدایت حسین کی بیوی نے بتایا کہ 1971ء کی جنگ میں وہ چھوٹی سی تھی جب جنگ کی آگ ان کے محلے تک آ پہنچی تو اس کی ماں نے اسے ایک ٹوکرے میں چھپا دیا تھا۔ ہدایت انتہائی شریف النفس آدمی تھا‘ چلتے پھرتے وہ جب بھی نظر آتا اس کے ہونٹ جنبش میں ہوتے۔ شاید وہ ہمہ وقت کوئی ذکر کر رہا ہوتا۔ اسی عمارت میں ہماری دوستی ایک اور پاکستانی فیملی سے ہوئی۔ یہ ڈاکٹر سجاد اور عالیہ بھابھی تھے‘ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا اور وہ 1980ء میں ٹورونٹو آئے تھے۔ ان کا ایک چھوٹا سا بیٹا علی اور ایک ننھی منی بیٹی سارہ تھی۔ وہ کچھ عرصہ اس عمارت میں رہنے کے بعد فنچ (Finch)کے علاقے میں منتقل ہو گئے تھے۔ اس فیملی کے ساتھ ہمارا تعلق اب تک ہے۔ جب بھی عالیہ بھابھی پاکستان آتی ہیں تو اسما سے ملنے ضرور آتی ہیں۔ تیس سال پر محیط اس دوستی کا اب تک ترو تازہ رہنا معجزے سے کم نہیں۔
آج تیس سال بعد میں یہاں آیا تھا اور 35چارلس سٹریٹ کی عمارت کے باہر جانے کب سے کھڑا سوچ رہا تھا کہ وقت بھی کیسے پر لگا کر اڑ جاتا ہے۔ اچانک میرے بیٹے شعیب کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ''آپ کتنی دیر سے کھڑے یہ عمارت دیکھ رہے ہیں؟‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا ''میں اس عمارت کو اندر سے دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ شعیب نے حیرت سے کہا ''اب کون ہے اس عمارت میں جسے ملنے کے لیے آپ اندر جارہے ہیں؟‘‘ میں نے عمارت کے صدر دروازے کی طرف جاتے ہوئے کہا ''میں یہاں اپنے آپ سے ملنے کے لیے آیا ہوں‘‘۔ (جاری)