میں نہ جانے کب سے Tim Hortons میں بیٹھا گلاس وال سے باہر ٹورونٹو کی بلور سٹریٹ پر آتے جاتے لوگوں کو خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
شعیب کہنے لگا: یہ پھوار تو نہ جانے کب ختم ہوگی کیوں نہ ہم Philosopher's Walk پر چلیں۔ میں نے کہا: خیال تو اچھا ہے۔ ہم دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ Philosopher's Walk دراصل یونیورسٹی آف ٹورونٹو کے میوزک ڈیپارٹمنٹ کے سامنے والا پگڈنڈی نما راستہ ہے۔ اس بل کھاتے ہوئے راستے کے دونوں طرف گھنے سربلند درخت ہیں۔ کہتے ہیں قدیم زمانے میں یہ ایک ندی کی گزر گاہ تھی۔ اب ندی تو باقی نہیں رہی لیکن نشیب اب بھی باقی ہے۔ راستے میں مناسب فاصلے پر لکڑی کے بینچ رکھے ہوئے ہیں۔ اس جگہ جہاں مختلف راستے آ کر ملتے ہیں‘ بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہیں جہاں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات آتے ہیں اور موسیقی کی محفلیں سجتی ہیں۔ اس راستے پر چلتے ہوئے ایک عجیب خوش کن جذبے کا احساس ہوتا ہے۔ ہم واک کرتے ہوئے بہت آگے تک چلے گئے۔ شعیب کہنے لگا: آپ تھک گئے ہوں گے اب ہم ٹیکسی سے یونین سٹیشن جاکر وہاں سے ٹرین پر گھر جائیں گے۔ ٹرین کا سفر آدھے گھنٹے کا ہے اور کھڑکی سے باہر بدلتے ہوئے منظر دیکھتے ہوئے سفر کا پتا ہی نہیں چلا۔ گھر پہنچ کر کھانا کھاتے ہی نیند میری آنکھوں میں اترنے لگی۔ اگلے روز صبح کمرے کی کھڑکی سے باہر پرندوں کی چہکار سے بیدار ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں شعیب بھی اپنے کمرے سے آ گیا اور کہنے لگا: آپ کو پتا ہے آج خاص دن ہے۔ میری آنکھوں میں حیرت دیکھ کر اس نے بتایا‘ آج ہم ڈاؤن ٹاؤن جا رہے ہیں جہاں معروف مصور Van Gogh کے شہ پاروں کی نمائش ہو رہی ہے۔ شعیب نے آن لائن ٹکٹ خرید لیے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ Van Goghمیرا پسندیدہ مصور ہے۔ یہ میرے لیے ایک خوشگوار سر پرائز تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم تیار ہو کر گھر سے نکل آئے۔ آج موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہم سائیڈ واک پر پیدل چلنے لگے۔ گھر سے ٹرین سٹیشن کا فاصلہ دس منٹ کا ہو گا۔ ہم ٹرین میں بیٹھ کر یونین سٹیشن کی طرف روانہ ہوئے تو میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا جہاں سیاہ بادل لیک اونٹیریو (Lake Ontario) پر جھک آئے تھے۔ مجھے مانچسٹر کا وہ ابر آلود دن یاد آنے لگا۔ ایسے ہی بادل گھر کر آئے تھے۔ اس دن میں یونیورسٹی پہنچا تو مصر سے تعلق رکھنے والی میری ہم جماعت فوزیہ جیسے میرے انتظار میں تھی۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی کہ ''انڈیا سے ایک لڑکی چند دن کے لیے اس کے ہوسٹل میں آئی ہے اور اس نے میوزیم دیکھنا ہے۔ کیا تم اسے میوزیم دکھا سکتے ہو؟ میں خود اس کے ساتھ جاتی لیکن میری کچھ دیر میں اپنے سپروائزر سے اپائنٹمنٹ ہے‘‘۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے کبھی میوزیم دیکھنے کی خواہش نہیں ہوئی لیکن فوزیہ کے کہنے پر میں نے ہامی بھر لی۔ میرے اقرار پر اس نے آواز دے کر صوفے پر بیٹھی ایک دبلی پتلی لڑکی کو اپنے پاس بلایا اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگی: میری دوست سے ملو اس کا نام مایا ہے۔ مایا برٹش کونسل کے سکالر شپ پر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی سے میوزیم سٹڈیز میں ایم اے کر رہی ہے۔ یہ ایک ہفتے کے لیے مانچسٹر آئی ہے۔ پھر فوزیہ نے مایا کو میرے بارے میں بتایا کہ میں انگلش لٹریچر میں تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ فوزیہ ہمیں چھوڑ کر اپنے پروفیسر سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گئی اور مایا اور میں میوزیم کی طرف چلنے لگے۔ مانچسٹر کا موسم سال میں زیادہ وقت ایک جیسا رہتا ہے‘ آسمان پر گہرے بادل اور وقفے وقفے سے کبھی ہلکی اور کبھی تیز بارش۔ آج بھی آسمان سیاہ بادلوں سے گھرا ہوا تھا۔ مایا دبلی پتلی سی لڑکی تھی جس کا قد لمبا‘ چہرے پر بڑی بڑی آنکھیں اور سر کے کٹے ہوئے بال اس کی پیشانی کے ایک حصے پر نصف دائرہ بناتے تھے۔ چلتے چلتے وہ کہنے لگی: آپ کتنے خوش قسمت ہیں کہ میوزیم آپ کے ہمسائے میں ہے۔ میں نے اسے دیکھتے ہوئے کہا کہ سچ بتاؤں تو میں آج تک اس میوزیم میں نہیں گیا اور آج بھی اگر فوزیہ تمہارے ساتھ آنے کا نہ کہتی تو شاید میں یہاں کبھی نہ آتا۔ مایا کی بڑی بڑی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کیسی عجیب بات ہے‘ آپ لٹریچر پڑھ رہے ہیں اور میوزیم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس دوران میوزیم کا صدر دروازہ آگیا اور ہم اندر داخل ہو گئے۔ ان دنوں میوزیم میں ڈائنو سارز کی نمائش ہو رہی تھی۔ مایا نے اپنے کپڑے کے بیگ سے ایک بڑا سا پروفیشنل کیمرہ نکالا اور میوزیم کے مختلف حصوں کی تصویریں لینے لگی۔ مجھے میوزیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ بادلِ ناخواستہ اس کے ہمراہ چل رہا تھا۔ وہ میوزیم کے ہر حصے کو بڑی احتیاط سے دیکھ رہی تھی اور اپنے کیمرے سے تصویر یں بنا رہی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے اردگرد کی دنیا سے مکمل بے خبر تھی۔ یوں لگتا تھا اس کی ساری دلچسپیاں سمٹ کر میوزیم میں آ گئی ہیں۔ کافی دیر بعد جب وہ میوزیم کے تمام سیکشن دیکھ چکی تو اچانک اسے خیال آیا کہ میں بھی اس کے ساتھ ہوں۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا: اوہ میں تو سب کچھ بھول گئی تھی۔ آپ کو بھی۔ پھر وہ اپنی پیشانی پر آنے والے بالوں کو جھٹک کر بولی: بہت اچھا میوزیم ہے آپ کا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہم میوزیم سے باہر نکل آئے تو وہ بولی: سوری‘ آپ یقینا بور ہوئے ہوں گے۔ میں نے کہا: نہیں ایسی بات نہیں۔ پھر ہم ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلنے لگے کیونکہ فوزیہ نے ہمیں وہیں ملنا تھا۔ چلتے چلتے اچانک مایا ایک کافی شاپ کے سامنے رک گئی اور مجھے دیکھ کر کہنے لگی: چلیں کافی پیتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا آسمان سے تیز بارش برسنا شروع ہو گئی۔ ہم دوڑ کر کافی شاپ کے اندر داخل ہو گئے۔ مایا نے مجھے کھڑکی کے پاس میز پر بیٹھنے کو کہا اور خود کاؤنٹر سے کافی کے دو کپ لے کر واپس آگئی۔ وہ کھڑکی سے باہر بارش کو دیکھتے ہوئے بولی: ہمارے دیس میں مون سون کی بارشوں میں جل تھل ہو جاتا ہے پھر اچانک وہ لمحہ موجود میں واپس آ گئی کہنے لگی: پتا ہے ایک دن ضرور آئے گا جب آپ میوزیم اور پرانی جگہوں پر جانا شروع کر دیں گے۔ میں ہنس دیا۔ پھر وہ بولی: یہ آرٹسٹ بھی عجیب لوگ ہوتے ہیں‘ ساری زندگی سسک سسک کر گزار دیتے ہیں اور مرنے کے بعد لوگ ان کے گیت گاتے ہیں۔ آپ نے معروف مصور Van Gogh کا نام تو سنا ہوگا ؟ میں نے کہا: ہاں اور مجھے اس کی پینٹنگ The Starry Night بہت اچھی لگتی ہے۔ مایا بولی: Van Goghکی کہانی بھی عجیب ہے۔ مجھے یک لخت اس کہانی میں دلچسپی پیدا ہو گئی اور میں میز پر آگے ہو کر بیٹھ گیا۔ اچانک ٹرین ایک جھٹکے سے یونین سٹیشن پر آ کر رک گئی اور میں تصور کی دنیا سے باہر آ گیا۔
میں اور شعیب سٹیشن پر اتر کر اس عمارت کی طرف جانے لگے جہاں Van Gogh کی پینٹنگز کو ڈیجیٹل انداز میں پیش کیا جا رہا تھا۔ یہاں سے وہاں تک پیدل راستہ دس منٹ کا تھا۔ اب آسمان سے ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی تھی۔ چلتے چلتے شعیب نے پوچھا: آپVan Gogh کی زندگی کے بارے میں جانتے ہیں؟ میں یہ سوال سن کر مسکرا دیا اور مجھے مانچسٹر کی برستی بارش میں کافی شاپ میں بیٹھی مایا یاد آگئی جس نے مجھے Van Gogh کی کہانی سنائی تھی۔ میں لکڑی کی میز پر کہنیاں رکھ کر دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ تھامے مایا کو دیکھ رہا تھا۔ باہر تیز بارش برس رہی تھی اور مایا کی آواز میں Van Goghکی پینٹنگ The Starry Night کی چاندنی گھل مل گئی تھی۔ (جاری)