وقت بھی کیسے پر لگا کر اُڑ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے پانچ سال پلک جھپکتے میں گزر گئے۔ یہی ستمبر کا مہینہ تھا جب میں نے دنیا اخبار میں لکھنا شروع کیا۔ یہ میرے لیے میرے تخلیقی سفر کا نیا موڑ تھا۔ اس سے پیشتر ایک طویل عرصے تک میں انگریزی کے دو اہم اخبارات میں لکھتا رہا لیکن اردو میں لکھنا میرے لیے ایک مختلف تجربہ تھا۔ آج مجھے پانچ برس پہلے کی وہ شام یاد آگئی جب میاں عامر محمود صاحب نے مجھے اپنے اخبار میں کالم لکھنے کی دعوت دی۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ میرے دل کی آواز ہے۔ میرا اپنا تعلیمی پس منظر انگریزی زبان و ادب کا ہے۔ گورڈن کالج سے ایم اے انگلش اورمانچسٹر یونیورسٹی سے تدریسِ انگریزی میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد میں نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورونٹو سے لسانیات میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ تقریباً دو دہائیاں انگریزی اخبارات میں باقاعدگی سے ادارتی صفحات پر لکھتا رہا۔
اب جو میاں عامر محمود صاحب نے اردو میں لکھنے کی دعوت دی تو مجھے خوشی کے ساتھ ساتھ ذرا سا تامل بھی ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک طویل عرصہ انگریزی میں کالم لکھنے کے بعد انگریزی میں لکھنا روزمرہ کی بات ہو گئی تھی اور اب اردو میں لکھنا اتنا آسان نہ تھا۔ اردو کالم لکھنے کے راستے میں تین مشکلات حائل تھیں۔ پہلی مشکل یہ تھی کہ میرا پسِ منظر انگریزی ادب کا تھا اور میرے لیے انگریزی کی نسبت اردو میں لکھنا دشوار تھا۔ دوسری مشکل یہ تھی اردو میں لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد کالم نگاری میں طبع آزمائی کر رہی تھی۔ اور ان میں بہت سے نامور اور سربلند کالم نگار شامل تھے۔ مجھے یہ ڈر تھا کہ میری آواز ان قد آور کالم نگاروں کی آواز میں گم نہ ہو جائے۔ میرے لیے تیسری مشکل یہ تھی کہ اردو کالم اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور اخبارات میں زیادہ تر کالم نگار سیاست کو موضوعِ سخن بناتے ہیں اور ذاتی طور پر میری ترجیح غیرسیاسی موضوعات تھے۔ سو میرے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اگر سیاست پر نہیں لکھنا تو اس کا بدل کیا ہونا چاہیے؟
وہ کون سے موضوعات ہوں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہوں گے؟ غیر سیاسی کالموں کے پڑھنے والے کون لوگ ہوں گے؟ یہ سارے سوالات میرے شوق کے رستے میں حائل ہونے لگے۔ میاں عامر محمود صاحب نے مجھے تامل کا شکار ہوتے دیکھ کر کہا: بس اب طے ہو گیا‘ اگلے ہفتے آپ کا کالم آنا چاہیے۔ یوں میرے تخلیقی سفر میں یک لخت ایک نیا موڑ آیا اور میں نے دو دہائیوں تک انگریزی میں لکھنے کے بعد اردو میں کالم لکھنے کے خوش رنگ سفر کا آغاز کیا۔ میں نے اپنے موضوعات کے لیے تعلیم‘ زبان‘ کلچر‘ تاریخ‘ سامراج‘ آرٹ‘ ادب اور مزاحمت کا انتخاب کیا۔ میں نے لکھنے کا آغاز کیا تو شروع میں اردو میں لکھنا مشکل لگا لیکن آہستہ آہستہ اردو لکھنے میں مجھے لطف محسوس ہونے لگا۔ تب میرے موضوعات میں ایک نیا دریچہ کھلا۔ اس دریچے کا نام ''پوٹھوہار‘‘ تھا۔ اس دریچے کے اُس طرف لہلہاتے ہوئے خوش نما منظر تھے۔ یہ پوٹھوہار کا خطہ دل ربا تھا۔ سو میری تحریروں کا ایک مرکز پوٹھوہار کی خوبصورت سرزمین بن گئی۔ میرا تعلق پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ میں نے اپنے گردو پیش کے کرداروں پر لکھنا شروع کر دیا۔ میری زندگی میں سب سے پہلا کردار میری ماں تھی۔ میں نے پہلا کالم اپنی ماں کے حوالے سے لکھا۔ میری ماں‘ جو ایک محنتی اور جفاکش عورت تھی‘ بچوں کی پرورش‘ کھانا پکانا‘ کپڑے دھونا‘ چکی پیسنا‘ گھر کی صفائی سب کچھ کرتی تھی۔ میں نے اپنے گاؤں کے بارے میں لکھنا شروع کیا جس سے میرے بچپن کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ گاؤں کی تنگ پگڈنڈیوں اور گرمیوں میں جلتی بلتی گلیوں میں ننگے پاؤں بھاگنا‘ بارشوں کے بعد قوسِ قزح کو پکڑنے کی خواہش اور گاؤں کی ''رکھ‘‘ کی نرم گیلی مٹی میں بیربہوٹیوں کو تلاش کرنا‘ رمضان اور عید کے تہوار اور میلے‘ جن کی یادوں کی روپہلی دھوپ میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی۔ پوٹھوہار پر لکھنا ایسے ہی تھا جیسے کوئی اپنے عشق کا احوال لکھے۔ پوٹھوہار کے خطے میں قدیم تاریخ کے کتنے ہی لعل و مرجان بکھرے ہوئے تھے۔ کتنے ہی گلی کوچے‘ عمارتیں اور ان سے وابستہ کئی دل بر شخصیتیں تھیں جو رفتہ رفتہ ماضی کے دندھلکوں میں گم ہو رہی تھیں‘ میں نے ان کے حوالے سے لکھنا شروع کیا۔ پوٹھوہار کی کہانی دراصل میری کہانی تھی۔ یہ کہانی کبھی کبھی میرے ساتھ چلتی اور کبھی کبھی میرا ہاتھ پکڑ کر تاریخ کی گم شدہ پگڈنڈیوں پر نکل جاتی۔ پوٹھوہار کے دل بروں کی فہرست طویل ہے۔ یہ بہادروں‘ صوفیوں‘ شاعروں‘ مغنیوں‘ جفاکشوں اور تخلیق کاروں کی سرزمین ہے۔ میں نے پوٹھوہار کے ان سربستہ گوشوں پر لکھنا شروع کیا جن کے طلسم نے مجھے اپنا اسیر بنا لیا تھا اور جنہیں دیکھنے کا تجسس ایک نہ ختم ہونے والی تلاش میں بدل گیا تھا۔ میرے کالم تاریخ نویسی نہیں بلکہ صرف ان منظروں کا احوال تھے جنہیں میری آنکھوں نے دیکھا اور جنہیں میری روح نے محسوس کیا۔ میں نے پوٹھوہار کے ماتھے کے جھومر راولپنڈی کے گلی کوچوں پر تواتر سے لکھا۔ یہ وہ جگہیں تھیں جنہیں میں اپنے ہاتھ کی لکیروں کی طرح جانتا تھا۔ ان میں مریڑ حسن‘ ٹاہلی موہری‘ ڈھیری حسن آباد‘ گوالمنڈی‘ لال کرتی‘ بینک روڈ‘ مال روڈ‘ کالج روڈ اور ہارلے سٹریٹ شامل تھیں۔ ان تمام جگہوں پر یا تو عمر کے کسی حصے میں میں خود مقیم رہا یا وہاں بار بار جانے کا اتفاق ہوا۔ راولپنڈی کی ان یادوں میں لیاقت باغ‘ راولپنڈی کی قدیم جامع مسجد‘ سوجان سنگھ کی حویلی‘ راولپنڈی کے سینما گھر اور راولپنڈی کی بیکریاں شامل تھیں۔ میں نے راولپنڈی کے ان تعلیمی اداروں کے بارے میں بھی لکھا جن میں مجھے خود پڑھنے یا پڑھانے کا اتفاق ہوا۔ ان تعلیمی اداروں میں گورڈن کالج بھی شامل تھا جو محض ایک کالج میں ایک تاریخ‘ ایک تہذیب اور ایک ثقافت تھا اور پھر ان اساتذہ کا احوال جو گورڈن کالج کی کہکشاں کے ستارے تھے جن میں خواجہ مسعود‘ سجاد شیخ‘ نصراللہ ملک‘ سجاد حیدر ملک‘ آفتاب اقبال شمیم اور توصیف تبسم شامل تھے۔
اور پھر پوٹھوہار کی کہکشاں کے بچھڑے ہوئے ان ستاروں کا تذکرہ جنہوں نے پوٹھوہار کی مردم خیز مٹی سے جنم لیا اور تقسیم کے بعد بالی وُڈ کی فلمی دنیا پر راج کیا۔ ان میں چکوال کے مدن موہن‘ جہلم کے سنیل دت‘ دینہ کے گلزار‘ راولپنڈی کے بلراج ساہنی‘ آنند بخشی اور شیلندر شامل تھے جنہوں نے ایک عالم کو اپنے فن کا اسیر کیا۔ اور پھر پوٹھوہار کے صوفیا کا احوال جن میں شمالی ہند میں اردو غزل کے اولین شاعر اور پوٹھوہار کے صوفی بزرگ شاہ مراد‘ راولپنڈی کے قریب کلیام میں بسنے والے بابا فضل کلیامی اور کھڑی شریف کے میاں محمد بخش جن کی کتاب 'سیف الملوک‘ صوفیانہ شاعری کی اعلیٰ مثال ہے۔ جوں جوں 'دنیا اخبار‘ میں کالم کا سفر آگے بڑھتا گیا‘ کالم میں تاریخ‘ ادب‘ آرٹ‘ ثقافت‘ تعلیم اور مزاحمت کے خطوں کے گلی کوچوں کا طلسم فزوں تر ہوتا گیا۔ یہ کام مشکل ضرور تھا لیکن اس کی اپنی Excitement تھی۔ اب جو پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ پوٹھوہار کے خوب صورت خطے کے حوالے سے کالموں کی تعداد اتنی ہو گئی تھی کہ ایک کتاب مرتب ہو سکتی تھی۔ پچھلے تین ماہ کینیڈا کے قیام کے دوران مجھے فرصت ملی تو میں نے پوٹھوہار سے متعلق ان سب تحریروں کو کتابی شکل میں مرتب کیا جس کا عنوان ''پوٹھوہار! خطہ دل ربا‘‘ رکھا۔ یہ پوٹھوہار سے متعلق ان تحریروں کا انتخاب ہے جو 'دنیا‘ کے ادارتی صفحات پر شائع ہوتی رہیں۔ اس سفر‘ جس آغاز اس شام کو ہوا تھا جب میاں عامر محمود صاحب نے مجھے کالم لکھنے کی دعوت دی تھی۔ اس بات کو اب پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن اس شام کا منظر ابھی تک میرے دل میں روشن ہے۔