1947ء میں موہن سنگھ سب کچھ چھوڑ کر امرتسرچلاگیا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا ایک دن اسے اپنا آبائی گاؤں دھمیال چھوڑنا ہو گا۔پوٹھوہار کی سحرانگیز ہواؤں سے جدا ہونا ہو گا۔ وہ امرتسر تو چلاگیا تھا لیکن اس کا دل کہیں چھوڑی ہوئی منزل میں دھڑک رہا تھا۔ اب یہی حقیقت تھی اور موہن سنگھ نے اس حقیقت کو تسلیم کرنا تھا۔اس نے لاہور سے پبلشنگ کا کاروبار امرتسر منتقل کر لیا تھا لیکن کوشش کے باوجود امرتسر میں کاروبار جم نہ سکا۔ تب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ لدھیانہ چلا جائے۔ اس نے اپنا سازو سامان سمیٹا اور لدھیانہ چلاگیا اور پھر وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ لدھیانہ آ کر بھی اس کے دل کی بے قراری نہ گئی۔ اسے لاہور کی یاد آتی تو وہ خود بخود مسکرا اُٹھتا‘ کیسا شہر تھا‘ زندگی سے بھرپور! اس شہر نے اسے بہت کچھ سکھایا تھا لاہور کو یاد کرتے کرتے اس کی نظروں کے سامنے امرتا پریتم کا چہرہ آجاتا جو اسے لاہور میں ملی تھی اور جو اسے پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی۔ وہ بھی پنجابی میں شاعری کرتی تھی۔ امرتا کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ موہن سنگھ نے پہلی بار امرتا کو دیکھ تو اس کی جانب کھنچتا چلا گیا۔ دونوں کی عمروں میں بہت فرق تھا۔ موہن سنگھ امرتا سے عمر میں بڑا تھا لیکن کہتے ہیں محبت عمر اور مرتبے کو خاطر میں نہیں لاتی۔ موہن سنگھ کی کوشش ہوتی کہ جب بھی کوئی موقع ملے وہ امرتا سے ملے اور اس سے ڈھیروں باتیں کرے۔ اس وقت تک موہن سنگھ پنجابی شاعری میں ایک بڑا نام بن چکا تھا۔ موہن سنگھ نے امرتا پریتم کے لیے چند نظمیں بھی لکھیں۔ یوں دونوں کے تعلق کی باتیں زبان زدِ عام ہو گئیں۔ لیکن یہ یک طرفہ محبت تھی کیونکہ امرتا تو پہلے ہی ساحر لدھیانوی کے سحر میں گرفتار تھی۔ آخر ایک روز امرتا نے ہمت کر کے موہن سنگھ کو صاف صاف بتانے کا فیصلہ کیا۔ اپنی خود نوشت '' رسیدی ٹکٹ‘‘میں وہ اس ملاقات کا احوال لکھتی ہے جب موہن سنگھ امرتا کے گھر آئے۔ امرتا نے انہیں بتایا کہ موہن سنگھ جی میں آپ کی دوست ہوں‘ آپ کا احترام کرتی ہوں‘ آپ اور کیا چاہتے ہیں۔ موہن سنگھ نے جواب میں کہا :کچھ نہیں۔ اور پھر بعد میں موہن سنگھ نے ایک مختلف نظم لکھی جس میں امرتا کے الفاظ دہرائے گئے تھے ''میں آپ کی دوست ہوں‘ میں آپ کی دوست ہوں‘ آپ اور کیا چاہتے ہیں‘‘ اور ساتھ ہی اگلی سطر میں اداسی بھرے لہجے میں لکھا تھا میں اور کیا چاہتا ہوں۔
موہن سنگھ ایک حساس دل کا مالک تھا یہی حساسیت اس کے انگ انگ میں شاعری بن کر دوڑتی تھی۔ خوبصورت منظر اور کردار اس کی شاعری کا آبِ حیات پی کر امر ہو جاتے تھے۔ یوں اس کی شاعری میں دیہات کے عام کردار بھی خاص بن جاتے اور یہی موہن سنگھ کے فن کا کمال تھا۔ موہن سنگھ کی نظم ''پوٹھوہار دی کُڑی‘‘ ایک ایسی ہی نظم ہے۔ موہن سنگھ کی ایک اور نظم ''اڈیک‘‘ ــ ـ(انتظار) ملاحظہ کریں جس میں پوٹھوہار کی اونچی نیچی زمین کی ڈھکیوں کے مناظر‘محبوب کی دوری اور انتظار کی شدت کی کیفیت ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ پوٹھوہار کے نوجوانوں کی اکثریت نوکری کی تلاش میں گھروں سے دور ہوتی ہے۔ کبھی کبھار چھٹی پر کچھ دنوں کے لیے گھروں کو واپس آتے۔
سرگھی ویلے سفنا ڈٹھا/میرے سوہنے آؤ نا اج نی/ پئی چڑھاں میں مڑ مڑ کوٹھے/کر کر لکھاں بچ نی/دھڑکوںدھڑکوں کوٹھی کر دی/پھڑکوں پھڑکوں رگ نی/کدن ڈھکیوں اچی ہوسی/اوشملے والی پگ نی
(علی الصبح میں نے خواب دیکھا ہے کہ آج میرا محبوب آئے گا۔ اس لیے میں سوحیلے بہانے کر کے بار بار چھت پر جا کر اس کی راہ تکتی ہوں۔ میرے من میں عجیب سا اضطراب ہے اور رگیں جیسے ٹوٹ رہی ہیں کہ کب اس کی شملے والی پگڑی اس سے ابھرے گی)
موہن سنگھ کی زندگی میں ایک عجیب سی بے قراری تھی۔ ہر دم کچھ نیا کرنے کی دھن‘ ہر لحظہ ایک نئے خواب کی آرزو۔ نئے منظروں کی یہی طلب اس کی شاعری میں یہاں وہاں نظر آتی ہے۔ موہن سنگھ کی من پسند زندگی کا عکس اس کی ایک خوبصورت نظم ''ہوا دا جیون‘‘ (ہوا کی زندگی) میں نظر آتا ہے۔
دیہہ ہوا دا جیون سانوں / سدا کھوج وچ رہیے/ ہر دم طلب سجن دی کریے/ ٹھنڈے کدی نہ پئیے/ اکو ساہے بھجدے جائیے/ کسے پڑا نہ لہیے/ دیکھ ملائم سیج پھلاں دی/ دھرنا مار نہ پیہے / سو رنگاں دے وچوں لنگھ کے/ پھر وی بے رنگ رہیے/ جے کوئی بلبل ہاکاں مارے / کن وچ انگلاں دہیے/ جے کوئی کنڈا پلہ پکڑے/ چھڈیے تے نس پئہیے/ دیہہ ہوا دا جیون سانوں / سدا کھوج وچ رہیے
(ہمیں ہوا کا سا جیون دو کہ سدا متلاشی رہیں۔ ہمہ وقت محبوب کی طلب میں رہیں۔ پہاڑوں کو سر کریں ایک ہی آن میں چلتے رہیں۔ کہیں پڑاؤ نہ ڈالیں۔ زندگی کی آسائش دیکھ کر سست قدم ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔ سو طرح کی رنگینی سے گزر کر بھی بے رنگ رہیں۔ اگر کوئی بلبل بھی آواز دے تو کان نہ دھریں اور اگر کوئی کانٹا دامن سے اُلجھ جائے تو دامن چھڑا‘ بھاگتے بنے۔ ہمیں ہوا کا جیون دو کہ سدا متلاشی رہیں)
موہن سنگھ کا تخلیقی و فور شعری سانچوں میں ڈھلتا رہا اور وہ نت نئی تخلیقات منظرِ عام پر لاتا رہا۔ شعری مجموعوں کے علاوہ وہ باقاعدگی سے اپنا ادبی رسالہ ''پنج دریاـ‘‘بھی نکال رہا تھا۔ موہن سنگھ کے اَنگ اَنگ میں پنجاب بستا تھا جو پانچ دریاؤں کی سر زمین ہے۔ ان دریاؤں میں ایک دریا دریائے چناب ہے‘ وہی چناب جس سے پنجاب کی مشہور رومانوی داستانیں سوہنی مہینوال اور ہیر رانجھا وابستہ ہیں۔جو پنجاب کے گاؤں کی چوپایوں میں اب بھی گائی جاتی ہیں۔ وہن سنگھ کو اپنے پنجابی ہونے پر ناز تھا اس کی خواہش تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کے جسم کی نشانیاں گنگا جمنا کے بجائے چناب کے پانیوں میں بہائی جائیں جہاں سوہنی اور ہیر کی روحیں اب بھی بے قرار پھرتی ہیں۔موت کے بعد بھی پنجاب کی روایت سے جُڑے رہنے کی تمنا موہن سنگھ کی نظم جھناں (چناب) میں نظر آتی ہے۔
جھناں (چناب)
میرے پھل جھناں وچ پانے / میں شاعر میرے پھل سہاوے/ قدر انہاں دی کوئی عاشق پاوے/ گنگا باہمنی کی جانے / میرے پھل جھناں وچ پانے/ روحاں ہیرتے سوہنی دیاں/ پھرن جھناں دے اندر پئیاں/ پیر دوہاں دے واہنے/ میرے پھل جھناں وچ پانے
موہن سنگھ کی ہنگامہ خیز زندگی آخر آخر ایک اداس تنہائی میں بدلتی گئی۔ دن کو وہ دنیا کے دھندوں میں مصروف رہتا لیکن جب شام پڑتی اور وہ تنہا ہوتا تو اسے اپنا پوٹھوہار اور اس کے گلی کوچوں میں بتائے دن رات بے طرح یاد آنے لگتے۔اسے دریائے سواں کے کنارے گرمیوں کی شامیں یاد آتیں تو وہ''پُرے‘‘ـ کی ٹھنڈی ہواؤں کا لمس اپنے گالوں پر محسوس کرتا۔ تب اسے اپنی بسنت کی یاد آتی۔بسنت جو پوٹھوہار کی خوش رنگ فضاؤں میں پروان چڑھی تھی‘جواس کی زندگی میں قوسِ قزح کی طرح آئی تھی‘ اس کی زندگی میں رنگ بکھیرے تھے اور پھر ایک روز چپکے سے اجل کی وادی میں اُتر گئی جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آ تا۔ لدھیانہ کے گھر میں اکیلا بیٹھا موہن اکثر سوچتا۔ زندگی کا میلہ بھی کتنا مختصر ہے۔ ابھی ابھی تو سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا‘ کیسی رونق تھی‘ کیسی خوشیاں تھیں‘ کیسے رنگ تھے۔ اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے شام کا اندھیرا پھیل گیا اور رخصت کا وقت آ پہنچا۔ (ختم)
نوٹ: میں محترمہ ڈاکٹر نبیلہ رحمن کا شکرگزار ہوں جنہوں نے موہن سنگھ کی پنجابی نظموں کے تراجم میں میری مدد کی۔