عجمان میں ساحلِ سمندر پر واقع سلطان سرائے میں ناشتے کے بعد ہم الفجیرہ کے لیے روانہ ہو گئے جو یہاں سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ الفجیرہ اپنے سربلند پہاڑوں‘ خوبصورت ساحلوں‘ شفاف پانیوں اور ثقافتی آثار کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ جہاں کی معیشت میں زراعت‘ پٹرولیم اور ماہی گیری اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ ہفتے کا دن تھا اور سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ شانتی کی فضا تھی جو ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ فطرت کا یہی سکوت سیاحوں کو ا ن علا قوں کی طرف بلاتا ہے۔ طوبیٰ گاڑی چلا رہی تھی۔ سڑک ہموار تھی اور دن روشن تھا۔ جلدہی سڑک کے اردگرد صحرا کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے تھے۔ سڑک پر کئی ایک جگہ ہمیں سرنگوں سے گزرنا پڑا۔ یہ سرنگیں پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی گئی تھیں جس کی وجہ سے سفر آسان اور مختصر ہو گیا تھا۔ اچانک میری نظر گاڑی کے سپیڈو میٹر پر پڑی اور میں چونک گیا۔ گاڑی 140 کی سپیڈ پر چل رہی تھی۔ طوبیٰ نے ہنس کر کہا‘ اس سڑک پر یہ سپیڈ معمول کی بات ہے۔ باتوں باتوں میں پتا ہی نہیں چلا اور ہم الفجیرہ شہر پہنچ گئے جہاں ہماری منزل مسجد البدیہ تھی۔ یہ متحدہ عرب امارات کی قدیم ترین مسجد ہے۔ جسے 1446ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ مسجد کے عقب میں بلند و بالا پہاڑ تھا اور اس کے پیچھے دور دور تک پانیوں کا لامتناہی سلسلہ۔
ہم نے سڑک سے نیچے اتر کر گاڑی پارک کی۔ اب مسجد البدیہ ہمارے سامنے تھی۔ پتھروں اور گارے سے بنی ہوئی اس مسجد میں کوئی خاص بات تھی جو اس کو منفرد بنا رہی تھی۔ اس مسجد کے چار گنبد ہیں جن کی تعمیر کا انداز جداگانہ ہے۔ ہم نے دروازے کی چوکھٹ پر جوتے اتارے اور مسجد کے صحن میں آگئے‘ یہ ایک مختصر ساصحن تھا جس کے اطراف غیر معمولی چوڑائی کی دیواریں تھیں۔ ہم مسجد کے ہال نما کمرہ میں داخل ہوئے تو یوں لگا وقت الٹے قدموں چلتا ہوا پندرہویں صدی میں چلا گیا ہے۔ مسجد کی فضا میں ایک سکون تھا۔ فرش پر بچھی چٹائیوں پر کچھ لوگ نوافل ادا کر رہے تھے۔مسجد کی ایک چھوٹی سی محراب تھی اور پتھروں سا بنا ہوا ایک منبر۔ دیواروں کے اندر چھوٹے چھوٹے روزن بنے تھے جو روشنی اور ہوا کے لیے رکھے گئے تھے۔ چھت پر عربی رسم الخط کے دلکش نمونے تھے۔ کمرے کے وسط میں ایک مضبوط ستون تھا جس کے سہارے پوری عمارت کھڑی تھی۔ میں سوچنے لگا‘ کیسے ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے اس مسجد کی عمارت میں حصہ لیا ہو گا۔ کیسے ہوں گے وہ لوگ جو یہاں نماز کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں گے۔ تب مجھے خیال آیا آج ہم یہاں ہیں۔ ایک دن ہم بھی محض یاد بن جائیں گے۔ لوگ آتے جاتے رہیں گے لیکن محبت کا یہ در یونہی ہمیشہ کھلا رہے گا۔
ہم مسجد سے نکل کر باہر آئے تو ہوا میں ہلکی سی تپش تھی۔ پاس ہی ایک قدیم سا یہ دار درخت تھا‘ درخت کے تنے کے گرد دائرے میں پتھر کا بینچ بنایا گیا تھا۔ ٹھنڈی گھنی چھاؤں دیکھ کر ہم درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گئے۔ مسجد کے عقب میں اونچے پہاڑ پر ایک مینار ہے جس سے دور دور تک دیکھا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں یہاں ایک قلعہ تھا اور یہ مینار ایک واچ ٹاور تھا جس سے قلعے کی طرف آنے والے راستوں کی نگرانی کی جاتی تھی۔ اچانک طوبیٰ اُٹھی اور سامنے کھڑی آئس کریم کی گاڑی سے آئس کریم لے آئی۔ گھنے سایہ دار درخت کے نیچے پتھر کے بینچ پر آئس کریم کھانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ اس دور دراز اور ویران سی جگہ پر حکومت نے سیاحوں کے لیے بنیادی سہولتوں کا اہتمام کیا تھا۔ ہر روز دور و نزدیک سے سیاح اس تاریخی مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔
بوڑھے سایہ داردرخت کے نیچے پتھر کے بینچ پر ہم نہ جانے کب تک بیٹھے رہتے لیکن اب واپسی کا وقت ہو گیا تھا۔ واپسی کے سفر میں وہی چوڑی اور ہموار سڑک اور سڑک کے اردگرد وہی ہوا سے بنتے بگڑتے ریت کے ٹیلے تھے۔ تب ہمیں سڑک کے کنارے دور دور تک پھیلے پانیوں کے ساتھ ایک ریستوران نظر آیا۔ طوبیٰ نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی ہمیں یہاں ٹھہرنا چاہیے یا نہیں؟ اچانک میری نظر ریستوران کے نام پر پڑی۔'' قصرِ شہرزادـ‘‘۔ میں نے کہا ہم یہاں رکیں گے۔ یہ ایک بہت ہی دلفریب جگہ پر بنایا گیا ایک خوبصورت ریستوران ہے۔پارکنگ کے لیے وسیع جگہ ہے۔ ہم دور تک پھیلے پانیوں کے قریب بلند جگہ پر بیٹھ گئے۔ ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد طوبیٰ نے ریستوران کے بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ یہ شہرزاد کون تھی؟ میں نے بورڈ کو دیکھتے ہوئے کہا‘ شہرزاد معروف داستان ''الف لیلہ ولیلہ ـ‘‘ کی ہیروئن تھی۔ عربی زبان میں الف کا مطلب ہزار اورلیل کا مطلب رات ہے۔ یوں یہ ایک ہزار ایک راتوں کی طویل داستان ہے۔ میں شہرزاد کی کہانی سنا رہا تھا کہ ویٹر سینڈوچ اور کافی لے آیا۔ پانیوں کی ہمراہی میں بلیک کافی کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ کافی پی کر ہم تازہ دم ہو گئے اور دوبارہ سفر کا آغاز کیا۔اب ڈرائیونگ سیٹ پر عمران آگیا تھا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھی طوبیٰ نے نیوی گیشن (Navigation) کے فرائض سنبھال لیے تھے۔ راستوں کے بارے میں طوبیٰ کی معلومات قابلِ رشک تھیں‘ یوں ہم بغیر راستہ بھولے عجمان اور پھر اپنے اپارٹمنٹ پہنچ گئے۔ اب سہ پہر شام میں بدل رہی تھی۔ ہم بالکنی میں بیٹھ کر چائے کا لطف اٹھانے لگے۔بالکنی سے نیچے دور تک سمندر کا پانی پھیلا ہوا تھا اور سمندر سے آتی ہوائیں خنکی میں گھل گئی تھیں۔ گرم چائے پینے اور کچھ دیر سستانے کے بعد ہم تازہ دم ہو گئے۔ اب شام ڈھل رہی تھی۔ بیٹھے بیٹھے ہم نے دبئی جانے کا فیصلہ کیا جو یہاں سے صرف آدھ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ عجمان سے نکلتے ہوئے مجھے سڑک کے دائیں ہاتھ ایک چائے کی دکان نظر آئی جس کے بورڈ پر لکھا تھا ''شائی عجیب‘‘ شائی عربی میں چائے کو کہتے ہیں شائی عجیب کا مطلب غیر معمولی (wonderful)۔ گپ شپ لگاتے ہم Mall of Emirates پہنچ گئے جہاں رمضان کی آمد آمد کی وجہ سے خوب رونق تھی۔ مختلف اشیا پر سیل لگی ہوئی تھی‘ کھجوروں کی اَن گنت اقسام تھیں۔ گاہکوں کا ایک ہجوم تھا۔ اس مال میں ایک حصہSki Dubaiکے نام سے ہے جہاں ہر طرف برف نظر آتی ہے۔ یہ بچوں کے لیے خاص کشش کا باعث ہے۔ مال کے فوڈ کورٹ میں بہت سے ریستوران ہیں۔چلتے چلتے میری نظر ایک بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا ''کھاؤ گلی‘‘ میں نے اپنے موبائل سے اس کی تصویر لی اور آگے چل دیے۔ مال کے مختلف حصوں میں گھومتے پھرتے ہمیں کافی دیر ہو گئی تھی۔ تب عمران نے کہا‘ میرا خیال ہے اب ہمیں چلنا چاہیے۔ ہم شیخ زائد روڈ پر واقع ایک لبنانی ریستوران میں چلے گئے جس کا نام Al-Safadi تھا۔ ریستوران کے خوبصورت لان میں کرسیاں اور میز رکھے تھے‘ موسم تو باہر بیٹھنے والے تھا لیکن باہر ٹریفک کا شور تھا سو ہم اندر بیٹھ گئے۔ لبنانی کھانے اپنی مثال آپ ہیں‘ خاص طور پر لبنانی کبابوں کی اپنی لذت ہے۔ کھانا کھانے کے بعد ویٹر لبنانی قہوہ لے آیا جس کی خوشبو نے اس کے ذائقے کو دو چند کر دیا تھا۔ ہم ریستوران سے باہر نکلے تو رات گہری ہو چکی تھی لیکن سڑک پر لوگوں کی وہی چہل پہل تھی۔ واپسی پر طوبیٰ نے گاڑی چلائی اور ہم آدھ گھنٹے میں گھر پہنچ چکے تھے۔ یہ عجمان میں میری آخری رات تھی میں نے سوچا کیوں نا آج کی رات بالکنی میں بیٹھ کر سمندر کی لہروں کی موسیقی سنی جائے۔ (جاری)