باون برس بعد سریندر کو ر اپنے بچپن کا گھر دیکھنے لاہو ر آئی۔ اُس نے گھر کی دہلیز پار کی تو اسے یوں لگا جیسے اس کے بچپن کے دن آنکھیں جھپکتے ہوئے اس کے اردگرد آ بیٹھے ہوں۔وہی مانوس منظر۔ وہاں اس کونے میں اس کی ماں پیڑھی پر بیٹھی ہے۔ آج چھٹی کا دن ہے اور اس کے سب بہن بھائی گھر پر ہیں اور اس کے والد اپنے کمرے میں بیٹھے کتاب پڑھ رہے ہیں۔ وہ اپنے کمرے میں بہنوں کے ساتھ مل کر گانے گا رہی ہے اور سب کھلکھلا کر ہنس رہی ہیں۔ اس کی ماں اکثر کہا کرتی تھی '' کڑیو (لڑکیو) تم بلاوجہ نہ ہنسا کرو اور مہمانوں کے سامنے تو بالکل نہیں ہنسنا‘‘۔ سریندر نے اپنے گھر کی دیواروں پر ہاتھ پھیرا تو اسے یوں لگا جیسے اس کا بچپن سانس لینے لگا ہے۔ کیسے تھے وہ دن جب وہ گھر کے قریب حلوائی کی دکان سے ہر روز بھائی کے نام پر مٹھائی لاتی اور سب سے آنکھ بچا کر کھا جاتی تھی۔ اور پھر جب ایک دن حلوائی نے گھر آ کر رقم کا تقاضا کیاتو اسے بھائی سے خوب ڈانٹ پڑی تھی۔ کیسے میٹھے اور رسیلے دن تھے وہ بھی۔ یہ خواب جیسا منظر شایدکچھ اور دیر رہتا لیکن سریندر کے میزبانوں نے اسے کہا اب واپسی کا وقت ہو گیا۔ سریندر جیسے خواب سے جاگ اُٹھی ہو۔ گھر سے رخصت ہونے کا وقت ہو گیا تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی اس گھر سے رخصت ہو ئی۔ یہ 1947ء کا سال تھا اور اُس کی عمر اٹھارہ سال تھا لیکن تب اُس کے دل میں ایک امید تھی کہ شاید حالات بہتر ہوتے ہی وہ دوبارہ اس گھر میں آ جائیں گے۔ لیکن اس بار یہاں سے جاتے ہوئے نجانے کیوں اُسے یقین تھا کہ وہ پھر کبھی اس گھر کے درو دیوار کو نہ دیکھ پائے گی۔ پھر بھی وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھ رہی تھی کہ اس نے اس گھر کو دیکھ لیا جو اس کے خوابوں میں اس کو اپنے پاس بلایا کرتا تھا۔
دہلی میں زندگی کے دن اب بے رنگ گزر رہے تھے کیونکہ اب اُس کا شوہر‘ اس کا دوست اور اس کا مینٹور پروفیسر جوگندر اس کے پاس نہیں تھا۔ سریندر کو اکثر وہ نٹ کھٹ دن یاد آتے جب اُس دور کے نامور شاعر اور موسیقار ان کے گھر آتے تھے۔ پروفیسر جوگندر کی وابستگیIPTA (Indian People's Theatre Association) سے تھی۔ یہ روشن خیال افراد کا ایک گروہ تھا جو آرٹ‘ خاص طور پر ڈرامے کے ذریعے معاشرے میں معاشی ناہمواریوں کو اُجاگر کرتا اور اس کا علاج کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ سریندر بیتے ہوئے دنوں کو یاد کر کے سوچتی کیسے وہ اور پروفیسر صاحب‘ سیف الدین کچلو اور جنرل شاہنواز کے ہمراہ مختلف علاقوں میں جاتے اور ڈراموں کے ذریعے لوگوں کو معاشی ناہمواریوں سے آگاہی دے کر انہیں جدوجہد کے طریقے بتاتے۔ ان میں کچھ ڈراموں میں تو سریندر نے خود بھی کام کیا تھا۔ جب بیٹھک میں پروفیسر جوگندر اور ان کے دوست گفتگو کرتے اورکھلکھلا کر ہنستے تو سریندر کو خوشی محسوس ہوتی۔ پھر اسے وہ دن یاد آتا جب موسیقی کی دنیا کے دو بڑے نام‘ استاد سلامت علی خاں اور استاد نزاکت علی خاں ان کے گھر آئے تھے۔ وہ کتنی خوش تھی کہ آج اس کے گھر میں سُر کی دنیا کی دو مہان ہستیاں آئی ہیں۔اُس نے ان کی خدمت اور مہمان داری کی خاطر سب کچھ بھلا دیا۔ پروفیسر جوگندر کے جانے کے بعد سریندر کی زندگی میں کچھ کمی سی آ گئی تھی۔ کبھی کبھی وہ تنہا ہوتی تو وہ سارے دن اُس کی نظروں کے سامنے آجاتے۔ بچوں کا شور‘ مداحوں کا والہانہ پن اور پروفیسر صاحب کی باتیں۔ پھر اُسے ایک بیتا ہوا منظر یاد آجاتا اور اُس کے ہونٹوں پر خود بخود مسکراہٹ پھیل جاتی۔ ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ ٹرین پر دہلی سے بمبئی جا رہے تھے‘ پروفیسر صاحب نے ٹرین کی کھڑکی سے باہر دیکھا کھیتوں میں فصلیں لہلا رہی تھیں۔ پروفیسر صاحب نے شاعرانہ لہجے میں کہا: ہماری زندگی بھی ان کھیتوں کی طرح لہلہائے گی۔ سادہ و معصوم سریندر گھبر ا کر بولی:تو کیا اب ہم ان کھیتوں میں رہیں گے۔ پروفیسر صاحب کو معصوم سریندر پر بہت پیار آیا۔ یہ بیتا ہوا منظر سریندر کی نظروں کے سامنے آتا تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی۔ وہ حقیقی زندگی میں ایسی ہی معصوم تھی۔ کھانے میں بھی اس کی پسندسادہ تھی۔ اسے کراری چیزیں اچھی لگتی تھیں۔ کھٹے چھولے‘ تلی ہوئی مچھلی‘ کڑھی پکوڑے‘‘چٹ پٹا اچار اور پودینے کی چٹنی۔ یہ سب چیزیں وہ شوق سے کھاتی تھی‘ لیکن وہ خود کھانے کے بجائے مہمانوں کوکھلا کر زیادہ خوش ہوتی تھی۔ سریندر کو نت نئے ڈیزائن والے کپڑوں کا بہت شوق تھا۔ اُس کے کانوں میں مندریاں‘ گلے میں سونے کی ایک چین اور بانہوں میں کنگن اور دربار صاحب کے دو کڑے ہوتے۔بس یہی اس کی سجاوٹ تھی۔
کہتے ہیں زندگی نشیب و فراز کا نام ہے۔ یہی گھرتھا جہاں وہ اور پروفیسر صاحب اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ اب پروفیسر جوگندر صاحب چلے گئے تھے‘ایک ایسی وادی میں جہاں جا کر کوئی واپس نہیں آتا۔ اس کی دو بیٹیاں امریکہ میں جا آباد ہوئی تھیں۔بڑی بیٹی ڈولی کی شادی ہو گئی تھی اور وہ چندی گڑھ میں ہی رہ رہی تھی۔1983ء کا سال ان کے خاندان کے لیے یادگار تھاجب سریندر کور‘ ڈولی گلیریا اور سنینی شرما نے ایک ساتھ پرفارم کیا۔ پھر ایک دن سریندر کی زندگی میں ایک خوشی کی لہر آئی جب اُسے پتا چلا کہ اُس کی نواسی سنینی کے گھر بیٹی پیدا ہوئی ہے۔یہ خبر سن کر سریندر کور بھاگم بھاگ دہلی سے چندی گڑھ پہنچی۔ سنینی کاماتھا چوما اور مسرت بھرے لہجے میں کہنے لگی ''نینی (وہ سنینی کو پیار سے نینی کہتی تھی) اج میں پڑنانی بن گئی آں‘‘ (نینی آج میں پڑنانی بن گئی ہوں)۔ پھر سریندر کور نے سنینی کی بیٹی ریحا کو شہد چٹایا۔ جسے پنجابی میں '' گڑھتی‘‘ کہتے ہیں۔ کہتے ہیں بچے کی عادات میں گڑھتی دینے والے کا عکس نظر آتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ریحا بھی موسیقی کی رسیا ہے اور بہت خوبصورت گاتی ہے۔ سریندر کور کو اس بات کی خوشی تھی کہ اس کی بیٹی ڈولی گلیریا اور پھر ڈولی کی بیٹی سنینی اور پھر سنینی کی بیٹی ریحا نے موسیقی کی مشعل تھام رکھی ہے۔ اب سریندر کی صحت دن بدن خراب ہوتی جا رہی تھی۔ آخرکار ایک دن یہ فیصلہ ہوا کہ علاج کے لیے امریکہ کا سفر کیا جائے جہاں سریندرکی دو بیٹیاں رہتی تھیں۔ ڈولی کو وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب امریکہ جانے کا دن آیا تو رخصت ہوتے ہوئے اُس کی ماں سریندر کور نے اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ''پتہ نہیں بچیا ہن میں پرتاں گی یا نہیں‘‘(معلوم نہیں بیٹا اب میں لوٹ کر واپس بھی آؤں گی یا نہیں)۔ڈولی نے ماں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ''ماں جی آپ ضرور واپس آئیں گی‘‘۔لیکن پھر سریندر تو واپس نہیں آئی‘ اُس کے جانے کی خبر آ گئی۔ وہ ا مریکہ کے شہر نیو جرسی کے ایک ہسپتال میں اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئی تھی۔ پنجاب کی چہچہاتی کوئل ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئی تھی۔ لاہور کی خاک بمبئی اور دہلی سے ہوتی ہوئی امریکہ کے شہر نیو جرسی میں جا بسی تھی۔ یہ سریندر کور کی کہانی ہے جس کی آواز کو میں نے بچپن کے دنوں میں سنا تھا۔ جو ایک عمر میرے ہمراہ چلتی رہی اور جس کو جاننے کی جستجو نے مجھے سریندر کے خاندان کی تین اور خوبصورت آوازوں ڈولی‘ سنینی اور ریحا سے ملا دیا تھا۔ سچ کہتے ہیں خوشبو‘ روشنی اور سُر کا سفر کبھی رکتا نہیں۔ یہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ (ختم)