استاد بڑے غلام علی کی زندگی میں ایک خوبصورت موڑ اُس وقت آیا جب ان کی شادی ایک حسین لڑکی اللہ جوائی سے ہوئی۔ یہ 1927ء کا سال تھا‘ تب استاد غلام علی خان کی عمر پچیس برس تھی۔ اس شادی سے ان کے دو بیٹے کرامت علی خان اور منور علی خان پیدا ہوئے۔ یہ مختصر سا گھرانہ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔ نوجوان اللہ جوائی کا انتقال ہو گیا۔بیگم کے انتقال کے بعدانہوں نے دونوں بچوں کو اپنی بہن کے سپرد کیا جس نے محبت اور پیار سے ان بچوں کی پرورش کی۔ بچوں کی طرف سے مطمئن ہو کر پھر سے موسیقی کی دنیا میں واپس آگئے۔ اب ان کی شہرت دور و نزدیک کرنے کے لیے دعوتیں موصول ہو رہی تھیں۔
ٹرین تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی لیکن استاد بڑے غلام علی کو اپنی منزل کا پتہ نہیں تھا۔ آخر کار بمبئی کا سٹیشن آ گیا۔ وہ اپنے سُرمنڈل کے ہمراہ بمبئی کے ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ سٹیشن پر لوگوں کی بھیڑ تھی لیکن وہ ہجوم میں تنہا کھڑے تھے۔ تب اچانک ان کے ذہن میں گنگا بائی کا خیال آیا جو بمبئی کی معروف گائیکہ تھی۔ گنگا بائی نے خوش دلی سے ان کا استقبال کیا۔ استاد غلام علی کی سادہ طبیعت اور فنِ موسیقی پر گرفت نے گنگا بائی کو ان کی شخصیت کا اسیر بنا یا۔ گنگا بائی کی بمبئی شہر کے رؤسا کے حلقے میں رسائی تھی ‘اس کی بدولت استاد بڑے غلام علی خان نے بھی مختلف محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ لوگ ان کی تخلیق کردہ تانوں اور پُر تاثیر آواز سن کر دم بخود رہ گئے۔ استاد غلام علی کے اسلوب میں ایک تازگی تھی جو اُن کی گائیکی کو منفرد اور ممتاز بناتی تھی۔ چند مہینوں میں استاد بڑے غلام علی بمبئی میں موسیقی کے افق پر جگمگانے لگے۔ تب ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔ وہی گلزار بائی جس نے ایک دن استاد بڑے غلام علی کو نظر انداز کیا تھا اب ان سے ملنے لاہور سے بمبئی آگئی تھی۔ ایک مدت کے بعد استاد بڑے غلام علی نے گلزار بائی کو دیکھا لیکن اب وہ ان کے دل سے اُتر چکی تھی ۔انہوں نے گلزار بائی کو یکسر نظر انداز کیااور گلزار بائی مایوس ہو کر واپس لاہور چلی گئی۔
پھر 1947ء کا سال آگیا جب ہندوستان کی تقسیم ہو گئی اور لاہور میں بسنے والے ہندوؤں اور سکھوں کی ایک کثیر تعداد سرحد کے پار چلی گئی ۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد استاد بڑے غلام علی خان کے بچوں کی پرورش ان کی بہن کر رہی تھی۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ایک خاتون اللہ رکھی سے شادی کر لی۔ اللہ رکھی نے آخر دم تک استاد بڑے غلام علی خان کی خدمت کی اور ان کے مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔
استاد بڑے غلام علی کو اہم تقریبات میں گائیکی کی دعوت دی جاتی اور وہ ریڈیو پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے۔ ان دنوں ریڈیو پاکستان کے کرتا دھرتا زیڈ اے بخاری تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو کے کلاسیکل موسیقی کے پروگرام تواتر سے ہوتے تھے۔ کہتے ہیں کسی بات پر زیڈ اے بخاری اور استاد بڑے غلام علی خان میں اختلاف ہو گیا جس پر استاد بڑے غلام علی خان نے ریڈیو سے اپنا ناطہ توڑ لیا۔آنے والے برسوں میں استاد بڑے غلام علی خان نے محسوس کیا کہ ان کے فن کی اس طرح قدر نہیں کی جا رہی جس کے وہ مستحق ہیں۔1951ء میں انہیں بھارت میں مرار جی ڈیسائی کے گھر گائیکی کی دعوت ملی۔ یہاں ان کی خوب پذیرائی کی گئی۔ تب ان کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ ہوا یوں کہ بڑے غلام علی صاحب کے فن سے متاثر ہو کر بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے استاد بڑے غلام علی کو بھارت کی شہریت دینے کا فیصلہ کیا۔
1957ء میں بڑے غلام علی خان اپنی بیوی اور بیٹے منور علی خان کے ہمراہ ہندوستان چلے گئے جہاں ان کی رہائش کے لیے مالابار میں ایک فلیٹ کا انتظام کیا گیا۔ استاد بڑے غلام علی خان فن کا ایک ایسا دریا تھے جس سے اُس وقت کے موسیقاروں نے استفاد ہ کیا۔ جن میں نوشاد‘ مدن موہن اور شنکر جے کشن شامل تھے۔ انہی دنوں کے آصف اپنی شہرہ آفاق فلم ''مغلِ اعظم‘‘ بنانے میں مصروف تھے۔ فلم کے موسیقار ناشاد تھے۔ اس فلم میں بارہ گیت تھے جو سب کے سب مقبول ہوئے ۔فلم کی سچوایشن کے مطابق تان سین کے کردار کے دو گیت تھے۔ کے آصف کی نگاہِ انتخاب استاد بڑے غلام علی خان پر جا ٹھہری لیکن سب کو معلوم تھا کہ استاد بڑے غلام علی خان فلموں میں گانے کو معیوب سمجھتے ہیں۔ جب کے آصف نوشاد کے ہمراہ استاد بڑے غلام علی کے گھر پہنچے اور اپنا مدعا بیان کیا تو بڑے غلام علی نے کہا کہ میں ایک گیت کے پچیس ہزار روپے لوں گا اس زمانے میں معروف گلوکارہ لتا اور رفیع کا معاوضہ بھی پانچ سو سے ایک ہزار روپے تک کا تھا۔ استاد بڑے غلام علی کا خیال تھا کہ پچیس ہزار کی رقم سن کر کے آصف واپس لوٹ جائے گا اور ان کی جان چھوٹ جائے گی لیکن اس وقت ان کی حیرت کی حد نہ رہی جب کے آصف نے جھٹ سے کہا: خان صاحب مجھے منظور ہے۔ آپ اس فلم میں دو گیت گائیں گے جن کا معاوضہ پچاس ہزار ہو گا۔1960ء میں یہ ایک بہت بڑی رقم تھی۔ استاد بڑے غلام علی خان نے مغل اعظم میں دو گیت گائے جو فن کی تاریخ میں اَمر ہو گئے۔
استاد بڑے غلام علی کی زندگی کا محور موسیقی تھا ۔جب وہ سر منڈل پر بیٹھتے تو انہیں اردگرد کا ہوش نہ رہتا۔ یہ1961ء کی بات ہے وہ ایک محفل میں گا رہے تھے کہ اچانک انہیں محسوس ہوا ان کی انگلیاں بے جان ہو رہی ہیں۔ یہ فالج کا حملہ تھا انہیں ہسپتال لے جایا گیا ان کا علاج ہونے لگا۔ استاد بڑے غلام علی خان کی زندگی تو ان کی گائیکی سے وابستہ تھی ‘اگر وہ گا نہیں سکتے تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ۔ تب ڈاکٹروں نے دیکھا کہ ایک معجزہ ہوا ۔ استاد بڑے غلام علی خان نے پورا زور لگایا اور آخر گانے میں کامیاب ہوگئے۔ ہسپتال سے گھر آنے کے بعد وہ آخری دم تک ویل چیئر پر رہے۔ اسی ویل چیئر پر انہیں تقریبات میں لایا جاتا اور وہ اپنی گائیکی کا مظاہرہ کرتے۔1962ء میں خان صاحب کی فنی خدمات کے عوض انہیں بھارت کا اعلیٰ سول ایوارڈ پدم بھوشن دیا گیا۔1963ء میں ان کی ملاقات مالتی گیلانی سے ہوئی جس نے آخری ایام تک خان صاحب کا خیال رکھا۔1964ء میں کلکتہ کی ایک یونیورسٹی سے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ وہ ایک دعوت پر حیدر آباد گئے تھے کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ 28اپریل 1968ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی موت کے بعد ان کے نام سے بشیر باغ میں مین سٹریٹ کا نام استاد بڑے غلام علی خان کے نام پر رکھا گیا اور ان کی عزیز شاگردہ مالتی گیلانی نے 2017ء میں '' استاد بڑے غلام علی یادگار سبھا‘‘ کا آغاز کیا۔ استاد بڑے غلام علی خان کو اپنی زندگی میں بے پناہ عزت‘ دولت اور شہرت ملی لیکن انہیں قصور کی گلیاں اور لاہور کی فضائیں کبھی نہیں بھولیں۔ حیدر آباد کے بشیر باغ میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ اپنے لاہور اور اپنے قصور کو یاد کرتے رہے۔ ایک محفل میں جب وہ راگ مالکونس اور دوسرے راگوں کے بعد راگ دیس پر پہنچے تو نم آنکھوں سے کہنے لگے ''عزیز و شب کی محفل میں کوئی راگ دیس گاتا ہے تو ہم پردیسیوں کو اپنا دیس یاد آجاتا ہے۔ ان کا دیس قصور تھا۔ وہی قصور جس کی مٹی میں خوشبو بسی تھی‘ جس کی ہواؤں میں نغمگی گھلی ہوئی تھی اور جس کے پانیوں میں ٹھنڈے میٹھے شربتوں کی مٹھاس تھی۔ (ختم)