راج کہا کرتا تھا زندگی ایک میلہ ہے جس میں ہم لوگوں سے ملتے ہیں‘ کچھ وقت ساتھ گزارتے ہیں اور پھر بچھڑکر وقت کی دھند میں کھو جاتے ہیں۔ مانچسٹر میں گزارے ہوئے دنوں کو یاد کروں تو وقت کی دھند سے راج اور جمیلہ کے روشن چہرے ابھرتے ہیں۔ راج یونیورسٹی آف مانچسٹر میں سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھا ‘جس سے میری دوستی تھی۔ اُس کا تعلق ساؤتھ انڈیا سے تھا اور مانچسٹر میں سکارزڈیل کے علاقے میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا ۔ میں اکثر چھٹی والے دن اُس کے گھر چلا جاتا۔راج کے گھر میں کتنے ہی لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ان میں اکثر یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس ہوتے جن میں زیادہ تر کا تعلق جنوبی ایشیا کے ممالک سے ہوتا‘ جو راج سے ہر موضوع پر گفتگو کرتے۔یہیں پہلی بار میری ملاقات جمیلہ سے ہوئی جو دہلی کے ایک کالج میں سوشیالوجی پڑھاتی تھی اور ایک مختصر کورس کے لیے مانچسٹریونیورسٹی میں پروفیسر راج کے ڈیپارٹمنٹ میں آئی تھی اور پھر پروفیسر راج کے ارادت مندوں میں شامل ہو گئی تھی۔ اب میں سوچتا ہوںراج کی شخصیت میں نہ جانے کون سا جادو تھا کہ اسے ایک بار ملنے والا اسے پھر کبھی بھلا نہ پاتا۔جمیلہ مانچسٹر یونیورسٹی سے مختصر کورس ختم کر کے واپس دہلی جا رہی تھی اور راج نے اپنے گھر اس کی الوداعی دعوت کی تھی ‘ اس دعوت میں صرف تین لوگ تھے‘ راج‘ جمیلہ اور میں۔ مجھے یاد ہے اس روز دعوت کے بعد میں جمیلہ کو برستی بارش میں مانچسٹر کے سینٹ گبیرئل ہال تک چھوڑنے گیا تھا جہاںوہ ٹھہری ہوئی تھی۔ راج کے گھر میں جمیلہ سے دو بار ملا تھا۔ایک اس کی دعوت والے دن اور دوسری مرتبہ جب وہ برطانیہ کے شہر لیڈز میں ایک کانفرنس کے لیے آئی تھی اور کانفرنس کے بعد اگلے روز راج سے ملنے اس کے گھر آئی تھی۔ان دو ملاقاتوں میں مجھے اسے قریب سے دیکھنے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔مجھے یاد ہے وہ باتیں کرتے ہوئے اچانک کہیں کھو جاتی تھی۔ اس روز اس نے راج کو بتایا کہ وہ خود کو لوگوں کے درمیان Misfit محسوس کرتی ہے۔ اور کیسے راج سے مل کر اسے یوں لگتا ہے کہ اس کی ذات کتنی اہم ہے اور کیسے ایک لمبے عرصے کے بعد وہ زندگی کے رنگوں کو اپنے دل میں اُترتے دیکھ رہی ہے۔ اُس روز بارش میں راج کے گھر سے سینٹ گبیرئل ہال جاتے ہوئے جمیلہ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھے راج کے صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہے۔ اُس ملاقات کے اگلے روز وہ واپس دہلی چلی گئی جہاں اُس کی فیملی تھی اور جہاں وہ ایک کالج میں پڑھاتی تھی۔
پھر دن‘ ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے اور میں بھی اپنی پڑھائی میں مصرو ف ہو گیا۔جمیلہ کا خیال زندگی کی مصروفیات میں کہیں کھو گیا۔ البتہ راج سے میری ملاقات ہفتے میں ایک بار ہو جاتی۔ کبھی اس کے گھر اور کبھی مانچسٹر کے وِٹ ورتھ پارک میں واک کے دوران۔ اب مانچسٹر میں میری پڑھائی کا آخر آخر تھا اور میں اپنے ریسرچ تھیسز پر کام کر رہا تھا۔ دیر تک لائبریری میں بیٹھا رہتا۔ انہیں دنوں کی بات ہے میں ایک روز لائبریری سے شام گئے اپنے ہاسٹل آیا تو ریسیپشن پر بیٹھے ہوئے کئیر ٹیکر ولیم نے مجھے میرے کمرے کی چابی دیتے ہوئے ایک خط بھی دیا۔ اُس زمانے میں موبائل فون نہیں ہوتے تھے۔خط ہی رابطے کا عام ذریعہ تھے اور اپنے وطن سے کسی خط کا آنا خوشی کا باعث ہوتا تھا۔ میں نے خط کھولا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔ یہ جمیلہ کا خط تھا ۔مجھے یاد آیا اس نے آخری بار مجھ سے ہاسٹل کا پتہ لیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے دہلی سے خط لکھے گی۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم بچھڑتے وقت رابطہ رکھنے کا یقین دلاتے ہیں اور پھر دنیا کی بھیڑ میں گم ہو کر اپنے وعدوں کو بھول جاتے ہیں۔لیکن نے جمیلہ نے اپنا وعد یاد رکھا تھا۔میں نے بے تابی سے خط پڑھنا شروع کیا۔ جمیلہ نے خط میں لکھا تھا: ''دہلی میں سب خیریت ہے۔ آج یہاں صبح سے بارش ہو رہی ہے‘ جب بھی بارش ہوتی ہے تو مجھے مانچسٹر یاد آتا ہے اور پھر پروفیسر راج کے گھر کی محفلیں۔ کیسا اچھا وقت گزرا تھا وہاں۔سچ پوچھیں تو گھر میں میرا دم گھٹتا ہے‘ لگتا ہے کوئی پنجرہ ہے جس میں ایک آزاد پرندہ قید ہو کر رہ گیا ہے اور اب تو لگتا ہے پرندہ اُڑنا بھی بھول گیا ہے۔ میں نے پروفیسر راج کو بھی خط لکھا ہے۔ آپ کی ملاقات ہو تو میرا سلام کہیں۔ شاید کبھی موقع ملے تو میں مانچسٹر آؤں گی۔ پھر راج سے اور آپ سے ملاقات ہو گی ہم مل کر خوب باتیں کریں گے‘ ہنسیں گے۔‘‘
میں نے خط تہہ کر کے میز کی دراز میں رکھ دیا اور ڈنر کے لیے یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا چلا گیا جو ہاسٹل کے گراؤنڈ فلور سے ملحق تھا۔ کیفے کی گلاس وال سے باہر آکسفورڈ سٹریٹ کا منظر صاف نظر آرہا تھا جہاں ہمیشہ کی طرح ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ مجھے جمیلہ یاد آگئی او ر اس کے ساتھ وہ دن بھی جب میں اُسے پہلی بار راج کے گھر ملا تھا جہاں راج نے اُس کی الوداعی دعوت کی تھی اور دعوت کے بعدمیں اسے برستی بارش میں سینٹ گیبرئل ہال تک چھوڑنے گیا تھا جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھی۔کیسی تھی وہ رات جب آسمان سے لگاتار بارش برس رہی تھی۔
اور اب اس نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ وہ ہزاروں میل دور دہلی کے ایک گھر میں اپنی کھڑکی سے باہر جل تھل بارش کا منظر دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس نے اپنے خط میں یہ کیوں لکھا تھا کہ وہاں اس کا دم گھٹتا ہے۔اس سے ملتی جلتی بات جمیلہ نے اس دن بھی کہی تھی جب میں اُسے راج کے گھر ملا تھا۔آج کیفے ٹیریا میں بیٹھے گلاس وال سے باہر برستی بارش دیکھ کر نہ جانے کیوں مجھے جمیلہ یاد آگئی۔ جمیلہ کا خط ملے کئی ہفتے گزر گئے تھے ۔مجھے جواب لکھنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ ہر روز سوچتا کہ جمیلہ کیا کہے گی۔لیکن زندگی کے جھمیلوں میں بہت سے اہم کام بھی نظر انداز ہو جاتے ہیں۔میں بھی خواہش کے باوجود جمیلہ کے خط کا جواب نہ دے سکا۔ پچھلے کچھ عرصے سے میرا زیادہ وقت یونیورسٹی کی لائبریری میں گزرنے لگا تھا۔مجھے ارد گرد کا ہوش نہ تھا۔ آ خر کار تھیسز مکمل ہو ا اور تھیسز جمع کرانے کے بعدمجھے یوں لگا جیسے سر سے ایک بھاری بوجھ اُتر گیا ہو۔میرے پاکستان جانے سے ایک ہفتہ پہلے راج نے ایک کانفرنس کے سلسلے میں سری لنکا جانا تھا۔راج کے سری لنکا جانے سے پہلے میں آخری بار راج کو اس کے گھر ملا ۔ دراصل راج نے مجھے الوداعی دعوت پر بلایا تھا۔اُس روز آکسفورڈ سٹریٹ سے راج کے گھر جاتے ہوئے میں سوچ رہا تھا شاید میں آخری بار اس راستے پر چل رہا ہوں۔ مانچسٹر میں ایک سال قیام کے دوران راج کا گھر ہی میرا ٹھکانا ہوا کرتا تھا ۔ہر چھٹی والے دن میں راج کے گھر چلا جاتا جہاں ہم دنیا جہاں کی باتیں کرتے ۔ اُس گھر کی واحد سجاوٹ راج کی کتابیں تھیں یا پھر میز پر رکھی ہوئی پاروتی کی تصویر جو راج سے ایک وعدہ کر کے بھول گئی تھی۔ اور آج میں اس گھر میں آخری بار جا رہا تھا۔ تب مجھے وہ دن یاد آ گیا جب راج نے جمیلہ کی الوداعی دعوت کی تھی۔ جس میں اس نے مجھے بھی بلایا تھا۔اس دعوت میں صرف تین لوگ تھے: راج‘ جمیلہ اور میں۔ اُس روز میں جمیلہ سے پہلی بار ملا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس روز اس نے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔ وہ ہنستی تو اس کے گالوں میں بھنور پڑنے لگتے لیکن نجانے کیوں اس کی آنکھوں میں ایک بے نام اداسی کا رنگ تھا۔(جاری)