شِو کمار بٹالوی کی زندگی میں ایک ایسے شخص کی کمی تھی جو اُس کا ہاتھ تھام کر زندگی کے سفر میں اس کا ساتھ دے سکے۔ یہ کمی شادی کے بعد اس کی بیوی ارونا نے پوری کرنے کی کوشش کی۔ ارونا ایک محبت کرنے والی اور معاملہ فہم عورت تھی۔ شادی کے بعد وہ چندی گڑھ منتقل ہو گئے۔ 1968ء میں ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام مہربان رکھا گیا اور اگلے سال 1969ء میں بیٹی پوجا پیدا ہوئی۔ شِو کمار بٹالوی کی بے ترتیب زندگی میں ارونا کی آمد سے ایک مثبت تبدیلی آئی۔
شِو کی شہرت کا سفر جاری تھا۔ اس کے متعدد شعری مجموعے شائع ہو چکے تھے جو خاص و عام میں مقبول تھے لیکن ادب کے سنجیدہ قارئین میں اس کی پز یرائی اس کے منظوم ڈرامہ ''لُونا‘‘ کی بدولت ہوئی۔ یہ پنجابی ادب میں ایک اہم اضافہ تھا۔ لُونا کی اشاعت سے ادب کے نقادوں پر شِوکمار کی صلاحیتوں کے جوہر کھلے۔ لُونا کی بنیاد ایک قدیم کہانی پر رکھی گئی ہے۔ کہتے ہیں سیالکوٹ کے بادشاہ کے ہاں جب بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام پورن رکھا گیا۔ زمانے کے رواج کے مطابق ایک جوتشی سے شہزادے کا زائچہ تیار کروایا گیا۔ جوتشی کے مطابق شہزادے کے چہرے کو دیکھنا بادشاہ کے لیے نحس ثابت ہو سکتا تھا۔ جوتشی کے مشورے کے مطابق پورن کو بارہ برس کے لیے جلاوطن کر دیا گیا۔ پورن کی غیرموجودگی میں بادشاہ نے ایک کم سن اور حسین لڑکی لُونا سے دوسری شادی کر لی۔ لُونا کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ لُونا اور بادشاہ کی عمروں اور خواہشوں کا کوئی جوڑ نہ تھا لیکن شاہی حکم کے سامنے لُونا کی مفلسی بے بس ہو گئی تھی۔ شاہی محل میں لُونا کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ محل کی اونچی دیواروں کے اندر وہ قیدی بن کر رہ گئی ہے۔ اردگرد خدام کی ایک فوج تھی لیکن محل کی گھٹی گھٹی فضا میں اس کی سانس رک رہی تھی‘ تب ایک دن اس نے ایک نوجوان کو محل میں دیکھا۔ یہ پورن تھا جو بادشاہ کی پہلی بیوی اچھرہ سے پیدا ہوا تھا اور جو بارہ برس کی جلاوطنی کاٹ کر محل میں واپس آیا تھا۔ لُونا نے پہلی نظر میں ہی پورن کو پسند کر لیا اور اس کا اظہار بھی کر دیا‘ لیکن پورن نے اس کا جواب اثبات میں نہیں دیا۔ پورن کے انکار سے لُونا کے سپنے بکھر گئے۔ لُونا کیلئے محل کی قید میں پورن کی آمد سے روشنی کی ایک کرن آئی لیکن وہ بھی بُجھ گئی ۔لُونا کے دل میں پورن کی محبت اب نفرت میں بدل گئی‘ اس نے اپنے شوہر بادشاہ سے شکایت کی کہ پورن نے اس پر برُی نظر ڈالی۔ بادشاہ نے پورن کی فوری جلا وطنی کا حکم دیا اور یوں پورن نے اپنی زندگی کے باقی ایام جلاوطنی میں گزارے۔ یہ ایک قدیم کہانی ہے جس میں روایتی طور پر لُونا کو ایک ِولن (Villain) دکھایا جاتا ہے۔ شِو کمار بٹالوی نے اس کہانی کو لُونا کی نگاہ سے دیکھا جو کم سن ہے‘ حسین ہے اور جس کے جذبات کو امارت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ یوں شِو کمار بٹالوی نے لُونا کو ایک ہیروئن کے روپ میں پیش کیا۔ یہ کہانی بیان کرنے کا ایک نیا زاویہ تھا جو ایک عورت کے Perspectiveسے تھا۔ لُونا کی اشاعت 1965ء میں ہوئی۔ اُس وقت شِو کمار بٹالوی کی عمر محض 29 برس تھی۔ اب شِو کمار صرف ہجر کا شاعر نہ تھا بلکہ اس کے موضوعات میں تنوع تھا اور اس کے اسلوب میں ایک فنکارانہ پختگی تھی۔ 1967ء اس کی فنی زندگی کا اہم سال تھا جب اسے سہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا‘ یہ ادب کا سب سے بڑا ایوارڈ تھا‘ اُس وقت اس کی عمر 31برس تھی۔ یوں وہ سہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے والا سب سے کم عمر لکھاری تھا۔
سہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کا حصول ایک بڑی کامیابی تھی۔ اس سے جڑا ہوا ایک دلچسپ واقعہ ہے۔ ایوارڈ ملنے کی خوشی میں معروف پنجابی ادیب کرتار سنگھ دُگل نے شِوکمار کے لیے اپنے گھر ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا جس میں شہر کے اہم افراد کو بلایا گیا تھا۔ سب لوگ آگئے لیکن وہ‘ جس کے اعزاز میں یہ محفل سجائی گئی تھی‘ ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ رات کے آٹھ بج گئے اور پھر ساڑھے آٹھ لیکن شِوکمار کا کہیں پتہ نہ تھا۔ آخر ساڑھے آٹھ بجے کھانے کا آغاز ہوا۔ کھانے کے اختتام پر مہمان رخصت ہو گئے تو شِوکمار اپنے چار پانچ دوستوں کے ہمراہ پہنچا۔ پتہ چلا کہ شِو کمار دوستوں کے ساتھ اپنے محبوب مشروب سے لطف اندوز ہوتا رہا اور اسے دھیان ہی نہ رہا کہ اس کے اعزاز میں دی گئی دعوت میں مہمان دیر تک انتظار کرکے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
یہ شِو کمار تھا۔ عام لوگوں سے بہت مختلف۔ وہ زندگی کے ایک ایک لمحے سے رس کشید کرنا چاہتا تھا۔ کہتے ہیں نام کا شخصیت پر اثر ہوتا ہے۔ شِو ہندو مذہب میں ایک طاقتور خدا ہے جس کی پیشانی پر ایک تیسری آنکھ ان چیزوں سے آگاہی دیتی ہے جسے عام لوگوں کی دو آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ شِو کمار بٹالوی کے پاس بھی ایک تیسری آنکھ تھی جس کے ذریعے اس نے دنیا کی بے ثباتی کو دیکھ لیا تھا ۔ شِو کمار بٹالوی اپنی زندگی میں موت کی آہٹ سُن رہا تھا۔ یہ آہٹ اس کی شاعری میں بھی سنائی دے رہی تھی:
شِکر دوپہر میرے سِر تے‘ ڈَھل چلیا پرچھاواں
قبراں اُڈیکدیاں مینوں‘ جیویں پتراں نوں ماواں
(کڑی دوپہر میں میرے سر سے سایہ ڈھل رہا ہے۔ قبریں میرا انتظار اسی شدت سے کر رہی ہیں جس طرح مائیں اپنے بچوں کی آمد کی منتظر ہوتی ہیں)
1972ء میں شِو کمار کو انگلستان آنے کی دعوت ملی۔ یہاں شِو کمار کا انتہائی گرم جوشی سے استقبال کیا گیا۔ وہ ہر روز ایک نئی تقریب میں مدعو ہوتا۔ اس دوران اس کی شراب نوشی حد سے تجاوز کر گئی۔ یوں بے خوابی‘ مے نوشی اور بے آرامی نے اس کی صحت کو برُی طرح متاثر کیا۔ کئی ماہ انگلینڈ رہنے کے بعد وہ ہندوستان واپس آیا تو اس کی بیوی ارونا اس کی حالت دیکھ کر دھک سے رہ گئی۔ لیکن شِو کمار موت کی مدھر بانسری کی آواز سن رہا تھا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اس کے خواب کی تعبیر کا وقت آرہا ہے۔ جواں عمری کی موت ہمیشہ سے اس کی خواہش تھی۔ ارونا شِو کمار کو لے کر کئی ہسپتالوں میں گئی لیکن شِو کی زندگی کے چراغ کی لو لحظہ بہ لحظہ مدھم پڑتی جا رہی تھی۔ بالآخر 6مئی 1973ء کو شِو کمار کی بے قرار روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اُس وقت اس کی عمر محض 37برس تھی۔ اس مختصر عمر میں اس نے زندگی کے سارے رنگ دیکھ لیے تھے۔ مجھے یاد ہے وہ مئی کا گرم مہینہ تھا۔ میں کالج روڈ پر زم زم کیفے میں بیٹھا تھا جب میں نے شِو کمار کے انتقال کی خبر سنی۔ اس وقت میرے دل کی عجیب حالت ہوئی تھی۔ تب مجھے شِو کمار بٹالوی کی ایک نظم کی سطریں یاد آگئیں جس میں اس نے جوانی میں مرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔
اساں تے جوبن رُتے مرنا
جوبن رُتے جو وی مردا
پھُل بنے جاں تارا
جوبن رُتے عاشق مردے
جاں کوئی کرماں والا
(ہم نے تو جوبن رُت میں مرنا ہے۔ جو بھی جوانی کے عالم میں مرتا ہے وہ پھول بن جاتا ہے یا ستارا۔ جوانی کے عالم میں یا تو عاشق مرتا ہے یا کوئی نصیبوں والا)
مجھے یوں لگا شِو کمار بھی ایک عاشق تھا جو عین عالمِ شباب میں ہم سے رخصت ہوا لیکن جس کی یاد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی۔ جب بھی ہمیں کوئی خوش رنگ پھول یا آسمان پر کوئی روشن ستارہ نظر آئے گا‘ ہمیں اس میں شِو کمار بٹالوی کا عکس نظر آئے گا۔ (ختم)