لاہور سے بمبئی پہنچ کر محمد رفیع اور حمید بھائی بھنڈی بازار میں ایک چھوٹے سے کرائے کے کمرے میں رہنے لگے۔ ان کا کمرہ اوپر والی منزل پر تھا جہاں سے نواب مسجد کا مینار صاف نظر آتا تھا۔ محمد رفیع نماز کے لیے مسجد جاتا تو راستے میں ملنے والے لوگوں سے سلام دعا ہو جاتی۔ کبھی کبھار وہ چائے پینے کے لیے قریب ہی زم زم ہوٹل بھی چلا جاتا۔ محمد رفیع صبح جلدی بیدار ہو جاتا اور نماز کے بعد ہارمونیم پر بیٹھ جاتا۔ چند دنوں بعد ہی محلے کے لوگوں نے شکایت کرنا شروع کر دی۔ اس پر محمد رفیع نے گھر سے دور ایک جگہ جا کر ریاض کرنا شروع کر دیا۔ اب اُسے بمبئی کی فلموں میں کام ملنا شروع ہو گیا تھا۔ تب ایک دن محمد رفیع کی زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے اس پر کامیابیوں کے دروازے کھول دیے۔ یہ 1947ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''جگنو‘ ‘ تھی جس کے مرکزی کرداروں میں دلیپ کمار اور نورجہاں تھے۔ اس فلم کے میوزک ڈائریکٹر فیروز نظامی تھے جو اپنے زمانے کے نامور موسیقار تھے۔
فیروز نظامی نے نور جہاں کے مقابل محمد رفیع کو موقع دیا۔ نوجوان محمد رفیع کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ یہ موقع پھر کبھی نہیں آئے گا۔ اس نے اپنی تمام صلاحیتوں کو اس گیت میں مرتکز کر دیا۔ یوں نور جہاں اور محمد رفیع کی آواز میں وہ سدا بہار گیت وجود میں آیا جو کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی اصل تر و تازگی کے ساتھ مہک رہا ہے۔ اس لافانی گیت کے بول تھے ''یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘ ‘ ۔ اس گیت سے رفیع کا نام ہندوستان کے گھر گھر تک پہنچ گیا۔ شہرت کے اس لمحے کو رفیع نے اپنی گرفت میں لے لیا اور پھر اس کے فن کا سفر تیزی سے طے ہونے لگا۔
1948ء میں ہندوستان کی سیاست میں ایک اہم واقعہ پیش آیا جب مہاتما گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ گاندھی کا تحریکِ آزادی میں ایک اہم کردار تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ تقسیمِ پاکستان کے موقع پر اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم پر گاندھی نے پاکستان کے مؤقف کے حق میں بھوک ہڑتال کی تھی۔ گاندھی کی موت سے ہندوستان کی فضا اُداس ہو گئی تھی۔ اس موقع پر محمد رفیع نے ایک گیت ''سنو سنو باپو کی امر کہانی‘ ‘ گایا جس نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے اور محمد رفیع قومی سطح پر ایک اہم کردار بن گیا۔ محمد رفیع کی آواز میں ایک لوچ تھا۔ وہ ہر گانے کی سچوایشن کے مطابق اپنی آواز کو ڈھال لیتا تھا۔ کہتے ہیں رفیع اپنی گائیکی سے اداکاروں کا کام آسان بنا دیتا تھا۔ اس کی آواز میں گیت کے موڈکے مطابق خوشی‘ اداسی‘ شرارت‘ مدہوشی اور بے خودی کی کیفیات جھلکتی تھیں۔ رفیع نے اپنی زندگی میں ایک ہزار فلموں کے لیے سات ہزار کے قریب گیت گائے۔ ان گیتوں میں اس نے مختلف فنی تجربے کیے۔ ان میں شوخ نغمے‘ اداس گیت‘ قوالیاں‘ نعتیں‘ بھجن‘ حمد‘ ٹھمری اور دادرا شامل تھے۔ غرض رفیع نے گانے کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف کی نزاکتوںکو خوب نبھایا۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ محمد رفیع نے 14مقامی اور چار بین الاقوامی زبانوں میں گیت گائے۔
اس زمانے کے تمام معروف موسیقاروں نے محمد رفیع کے گانوں کے لیے موسیقی دی۔ ان میں شنکر جے کشن کا ذکرضروری ہے جن کی پہلی ہی فلم ''برسات‘ ‘ (1949ء)کے گیتوں نے فلم انڈسٹری میں ہل چل مچا دی تھی۔ ''برسات‘ ‘ میں رفیع نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اس کی آواز میں فلم کا یہ گیت ''میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں‘ ‘ راتوں رات زبان زدِ عام ہو گیا۔ شنکر جے کشن کی موسیقی میں محمد رفیع نے 341گیت گائے جن میں 216گانے سو لو تھے۔ یوں تو ان میں بہت سے گانے مشہور ہوئے لیکن تین گیت ایسے تھے جن پر رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ یہ تین گیت تھے: تری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے‘ بہارو پھول برساؤ اور دل کے جھروکے میں تم کو بٹھا کر۔
موسیقار اوپی نیئر کے ساتھ بھی محمد رفیع کا قریبی رشتہ تھا۔ وہ اوپی نیرکے پسندیدہ گلوکار تھے۔ اوپی نیر نے بہت سے دوگانوں میں محمد رفیع اور آشا کی آوازوں کا استعمال کیا۔ رفیع نے اوپی نیر کے لیے 197گیت گائے جن میں زیادہ تر دوگانے تھے اور 56 گیت سولو تھے۔ کیا کیا خوبصورت گیت تھے جو دونوں کے اشتراک سے بنے۔ ان میں اشاروں اشاروں میں دل لینے والے‘ تعریف کروں کیا اس کی‘ لے کے پہلا پہلا پیار‘ اک پردیسی میرا دل لے گیا‘ آئیے مہرباں اور اُڑیں جب جب زلفیں تیری جیسے گیت شامل ہیں۔ لیکن محمد رفیع کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ جس گیت پر ملا وہ موسیقار روی کی موسیقی میں تھا۔ یہ گیت تھا ''چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو‘ ‘ یہ گانا 1960ء میں ریلیز ہوا اور کئی دہائیاں گزرنے کے بعد آج بھی تر و تازہ ہے۔ روی کی ہی موسیقی میں محمدرفیع کے ایک اور گیت ''بابل کی دعائیں لیتی جا‘ ‘ پر اسے نیشنل ایوارڈ ملا۔ روی اور محمد رفیع نے مل کر تقریباً 260گیت تخلیق کیے۔
موسیقار نوشاد نے رفیع کے فنی سفر کی ابتد میں ہی اس کا ہاتھ تھاما۔ رفیع سے پہلے طلعت محمود نوشاد کا پسندیدہ گلوکار تھا۔ کہتے ہیں ایک دن نوشاد نے طلعت کو ریکارڈنگ کے دوران سگریٹ پیتے دیکھا تو طلعت اس کے دل سے اُتر گیا۔ طلعت کے بعد محمد رفیع نوشاد کا پسندیدہ گلوکار بن گیا ۔ اس نے اپنی فلم ''بیحو باورا‘ ‘ کے سارے گیت محمد رفیع سے گوائے۔ اس فلم کے گیت ''اے دنیا کے رکھوالے‘ ‘ اور ''من تڑپت ہری درشن کو آج‘ ‘ آج بھی پہلے دن کی طرح مقبول ہیں۔ نوشاد نے محمد رفیع کیلئے 149گیتوں میں موسیقی دی۔ ان میں بہت سے گیت مشہور ہوئے۔ مثلاً سہانی رات ڈھل چکی نہ جانے تم کب آؤ گے‘ او دور کے مسافر‘ تُو گنگا کی موج‘ دو ستاروں کا زمیں پر ہے ملن‘ او دنیا کے رکھوالے‘ آج پرانی راہوں سے اور یہ زندگی کے میلے شامل ہیں۔
موسیقار ایس ڈی برمن کی موسیقی میں بھی محمد رفیع نے کئی یادگار گیت گائے جن میں کھویا کھویا چاند‘ یہ دنیا اگر مل بھی جائے‘ گنگنا رہے ہیں‘ ہم بے خودی میں تم کو‘ باغوں میں بہار ہے‘ چھوڑ دو آنچل زمانہ کیا کہے گا اور وقت نے کیا کیا حسیں ستم‘ شامل ہیں۔ محمد رفیع اور مدن موہن نے بھی مل کر یادگار گیتوں کی تخلیق کی۔ مدن موہن کا ایک علیحدہ آہنگ تھا۔ انہوں نے زیادہ تر غزلوں کی موسیقی دی۔ رفیع کیلئے ان کا پہلا گیت ''ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے‘ ‘ ۔ مدہن موہن کی مدھر موسیقی میں محمد رفیع نے بہت سے خوبصورت گیت گائے۔ ان میں میری آواز سنو‘ آپ کے پہلو میں آکر رو دیے‘ یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘ تیری آنکھوں کے سوا‘ تم جو مل گئے ہو اور اِک حسیں شام کو شامل ہیں۔ موسیقار کلیان جی آنند جی کے ساتھ بھی محمد رفیع نے 170کے قریب گیت گائے۔ ان میں بہت سے گیت زبان زدِ عام ہوئے جن میں چلے تھے ساتھ مل کے‘ بے خودی میں صنم‘ میرے مِتوا میرے میت‘ جب جب پھول کھلے‘ اکیلے ہیں چلے آؤ‘ ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل اور پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا شامل ہیں۔ یوں تو محمد رفیع نے اپنے دور کے سبھی نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا لیکن لکشمی کانت پیارے لال سے اس کے تعلق کی نوعیت جدا تھی۔ اس تعلق کی ابتدا ہی ایک ایسے لازوال گیت سے ہوئی جس نے موسیقی کے پرستاروں کو چونکا دیا۔ (جاری)