پرانے لاہور کی قوسِ قزح کے دل کش رنگوں میں کتنے ہی چہرے جھلملاتے نظر آتے ہیں انہی میں ایک روشن چہرہ راجندر سنگھ بیدی کا ہے جس نے اُردو افسانے کی دنیا کو فن کی نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا۔ بیدی کے والدین کا تعلق سیالکوٹ سے تھا‘ جہاں ان کا آبائی گھر تھا۔ اس کی والدہ کا نام سیوا دیوی تھا اور وہ برہمن تھیں۔ اس کے برعکس بیدی کے والد ہیرا سنگھ سکھ تھے۔ یوں بیدی کو گھر کے اندر ایک مفاہمت کی فضا ملی جو اُس کے افسانوں میں بھی نظر آتی ہے۔ بیدی کے والدین تلاشِ روزگار کے سلسلے میں لاہور آ گئے تھے جہاں ہیرا سنگھ کو صدر بازار لاہور کے ڈاکخانے میں ملازمت ملی ۔ ہیرا سنگھ اور سیوا دیوی کے گھر دو بچے پیدا ہوئے جو زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکے۔ پھر ان کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام راجندر سنگھ بیدی رکھا گیا۔ وہی بیدی جس نے ایک دن اُردو افسانے کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکنا تھا۔ راجندر سنگھ بیدی کے بعد ہیرا سنگھ اور سیوا دیوی کے گھر دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ ہیرا سنگھ اپنے بچوں اور بیوی کے لیے دن رات محنت کرتا تھا۔ ڈاکخانے کی محدود آمدنی میں گھر کے اخراجات مشکل سے پورے ہوتے تھے۔
بیدی ذرا بڑا ہوا تو اسے لاہور کینٹ کے ایک سکول میں داخل کرا دیا گیا جہاں سے اس نے چار جماعتیں پاس کیں اور پھر وہ خالصہ سکول چلا گیا جہاں سے اس نے 1931ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ میٹرک کے بعد وہ ڈی اے وی کالج میں انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ اسی دوران اس کی والدہ سیوا دیوی شدید بیمار ہو گئیں۔ فالج کی وجہ سے وہ بستر سے لگ گئی تھیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے والد ہیرا سنگھ اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتے تھے۔ وہ دن رات اپنی بیوی کی خدمت میں جُتے رہتے۔ اسی دوران انہوں نے ڈاکخانے کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ اُدھر راجندر سنگھ بیدی نے بھی حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور اپنے والد کی جگہ ڈاکخانے کی ملازمت اختیار کر لی۔ اُس زمانے میں شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی تھیں۔ 1934ء میں راجندر سنگھ کی شادی ستونت کور سے کر دی گئی۔ اُس وقت بیدی کی عمر صرف 19 برس تھی۔ ڈاکخانے کی ملازمت کے لمبے اوقات تھے۔ پھر بھی کام کے دوران جب کبھی وقت ملتا راجندر سنگھ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کہانیاں لکھتا رہتا۔ اپنے اردگرد پھیلی ہوئی کہانیاں‘ عام انسانوں کی کہانیاں‘ ان کی محرومیوں کی کہانیاں‘ انسانی رشتوں کی تہہ داریوں کی کہانیاں۔ اس دوران اس نے کچھ یادگار کہانیاں لکھیں۔ یہیں پر 1940ء میں اُس کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ ''دانہ و دام‘‘ شائع ہوا جس میں اس کا معروف افسانہ ''گرم کوٹ‘‘ شامل تھا‘ جو اس کے نمائندہ افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن سچی بات یہ تھی کہ ڈاکخانے کی فضا میں اس کا دم گھٹتا تھا۔صبح سے شام تک ایک ہی طرح کا کام تھا۔ اب اسے یہاں ملازمت کرتے ہوئے کئی برس گزر چکے تھے۔ ہر روز وہ سوچتا تھا یہاں سے کب رہائی ملے گی۔ تب ایک دن اس ڈاکخانے کے پنجرے کا دروازہ کھلا اور بیدی نے ایک عرصے کے بعد آزادی کا سانس لیا۔ اب اسے آل انڈیا ریڈیو کے اردو سیکشن سے ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پر موسیقی کا دور دورہ تھا‘ جہاں اس زمانے کے مشہور موسیقار اور گلوکار آتے تھے۔ ریڈیو پر گانے والیاں بھی آتیں۔ جب راجندر سنگھ کی بیوی ستونت کور کو پتا چلا کہ اس کے خاوند کو ریڈیو پر ملازمت ملی ہے تو اس نے بلند آواز میں رونا شروع کر دیا ۔ اس کا کہنا تھا کہ ریڈیو پر تو طوائفیں گاتی ہیں۔ وہ اپنے خاوند کے بارے میں فکر مندی کا شکار تھی۔ یہ دلچسپ واقعہ راجندر سنگھ بیدی نے خود ایک انٹرویو میں سنایا۔
ریڈیو پر بیدی کے فن کے جوہر خوب کھلے۔ 1942ء میں اس کے افسانوں کا مجموعہ ''گرہن‘‘ شائع ہوا اور 1943ء میں ایک اور مجموعہ ''بے جان چیزیں‘‘۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پر معروف مزاح نگار پطرس بخاری بھی ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے راجندر سنگھ بیدی کے فن کی پذیرائی کی اور انہیں ایک سینئر پوزیشن پر فائز کر دیا۔ یہ ایک اہم عہدہ تھا لیکن بیدی کے اندر کا فنکار کچھ نیا کرنے کو بے چین تھا۔ اسی نئے پن کی تلاش میں وہ 1943ء میں ریڈیو چھوڑ کر مہیش واری سٹوڈیو سے وابستہ ہو گیا ‘لیکن یہ عرصہ صرف ڈیڑھ سال پر محیط تھا۔ آخرکار ریڈیو کی کشش اسے واپس کھینچ لائی۔
بیدی افسانوں کی دنیا میں اپنا نام بنا چکا تھا۔ اب اس کے اندر کا فن کار کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔ 1946ء میں اس کے ڈراموں کا مجموعہ ''سات کھیل‘‘ شائع ہوا۔ یہ وہ ڈرامے تھے جو بیدی نے ریڈیو کے لیے لکھے تھے۔ افسانوں اور ڈراموں کے بعد اب بیدی کے اندر کا پارہ صفت فن کار اشاعت کے فن میں اپنا جوہر آزمانا چاہتا تھا۔ اس کا خواب ایک اشاعتی ادارے کا قیام تھا جہاں سے منفرد کتابیں شائع کی جائیں۔ اس خواب کی تکمیل کے لیے 1946ء میں اس نے ''سنگم پبلی کیشنز لمیٹڈ‘‘ کے نام سے لاہور میں ایک اشاعتی ادارے کا آغاز کیا۔ اگرچہ اُن دنوں ہندوستان کی سیاسی فضا میں ایک بے چینی اور بے یقینی تھی‘ فسادات کی ابتدا ہو چکی تھی لیکن بیدی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اسے لاہور سے جدا ہونا پڑے گا۔ پھر یکایک فسادات کی آگ پوری شدت سے بھڑک اٹھی۔ انسان ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہو گئے۔ ایک روز اُس نے اپنے گھر کی کھڑکی سے ایک سکھ اور ایک مسلمان کو قتل ہوتے دیکھا۔ یہ ایک دلخراش منظر تھا۔ وہ ایک فنکار تھا‘ ہر فنکار کی طرح ایک حساس دل کا مالک۔ یہ خوفناک منظر اس کے حواس پر چھا گیا اور کئی روز تک اس کی قوتِ گویائی اُس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ بولنا چاہتا لیکن بول نہ سکتا تھا۔ بعد میں فسادات کے مناظر کی ہولناکیاں اس کے افسانوں میں در آئیں۔ اس کا اشاعتی ادارہ بھی فسادات کی نذر ہو گیا۔ وہی اشاعتی ادارہ جس میں اُس نے عمر بھر کی کمائی لگا دی تھی۔
وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنا دلبر شہر لاہور چھوڑ کر دہلی چلا گیا جہاں اسے زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنا تھا۔ اب تک وہ افسانے کی دنیا کا ایک معروف نام بن چکا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے جب اسے ایک وفد کے ہمراہ جموں جانے کا اتفاق ہوا‘ جہاں اُسے جموں ریڈیو میں ڈائریکٹر کے عہدے کی پیشکش کی گئی جو اس نے قبول کر لی۔ یہ 1948ء کا ذکر ہے۔ بیدی نے یہاں خوب محنت سے کام کیا۔ اس کی کوششوں سے سری نگر ریڈیو کا وجود عمل میں آیا۔ 1949ء میں اُس کے افسانوں کا نیا مجموعہ ''کوکھ جلی‘‘ شائع ہوا لیکن بیدی کا تخلیقی وفود اسے ایک جگہ نہ بیٹھنے دیتا تھا۔ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں وہ جموں سے دہلی آگیا اور وہاں سے فلموں کے مرکز بمبئی‘ جہاں اس نے بالی وڈ میں اپنے فن کے جوہر دکھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ فلموں میں اس کی کہانیوں نے ابتدا ہی میں سب کو چونکا دیا۔ اس کی پہلی فلم ''بڑی بہن‘‘ تھی لیکن فلم ''داغ‘‘ میں اس کی کہانی نے اس کی شہرت کو پر لگا دیے۔ اُس کی شہرت میں کچھ فلموں ابھیمان، انو پما اور ستیہ کام نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اب وہ افسانے‘ ڈرامے‘ سکرین پلے اور مکالمہ نویسی کی دنیا میں اپنا نام منوا چکا تھا۔ اس کے تخلیقی وفور کو کسی نئے جہان کی تلاش تھی۔ یہ نیا جہان فلموں کی ہدایت کاری تھی۔ اس کے دوست جانتے تھے کہ اب تک اس نے جس چیز کا تہیہ کیا اسے پا لیا۔ کیا وہ اس میدان میں بھی کامیاب رہے گا؟ (جاری)