پامسٹ نے سی ایچ آتما کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کے ایل سہگل کی طرف دیکھا اور کہنے لگا :میرا علم جھوٹ نہیں بولتا‘ یہ لڑکا واقعی کلاکار ہے۔ کے ایل سہگل نے حیرت سے سی ایچ آتما کو دیکھا اور بولے :کیوں چندن! یہ پامسٹ ٹھیک کہتا ہے؟ اب سی ایچ آتما کے پاس اقرار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اس نے اقرار میں سر ہلادیا۔ کے ایل سہگل محبت سے بولے :چندن میرا تو چل چلائو کا زمانہ ہے لیکن تم میرے ساتھ ایک وعدہ کرو‘ تم میرا گیت 'کوئی منش کتنا ہی برا ہو کچھ ہوتی ہے بھلائی بھی‘ میرے بعد گایا کرو گے نا؟ سی ایچ آتما نے کے ایل سہگل سے وعدہ کر لیا۔ کے ایل سہگل کا 18 جنوری 1947ء کو بیالیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا لیکن سی ایچ آتما کو تمام عمر اپنا وعدہ یاد رہا۔ وہ جب بھی سٹیج پر پرفارم کرتااپنے شو کا آغاز کے ایل سہگل کے اسی گیت سے کرتا۔ اس کے لیے یہ محض گیت نہیں‘ زندگی کا ایک فلسفہ تھا جس پر سی ایچ آتماکو پورا یقین تھا۔
اُن دنوں سی ایچ آتما ایک ایئرلائن میں بطور ریڈیو آپریٹر کام کر رہا تھا اور کلکتہ میں رہتا تھا۔ تب ایک روز اسے سکھ دیو پنچولی کا پیغام ملا جس میں اس نے سی ایچ آتما کو بمبئی بلایا تھا۔ سی ایچ آتما کے لیے یہ حیرت کی بات تھی کہ اپنے زمانے کا ایک بڑا فلم میکر‘ پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر اسے کیوں بلا رہا ہے۔ پنچولی آرٹ پکچر کا دفتر لاہور میں ہوتا تھا لیکن تقسیم کے بعد یہ بمبئی شفٹ ہو گیا۔ پنچولی آرٹ پکچر کے بینر تلے بہت سی فلمیں بنی تھیں اور سکھ دیو پنچولی نے بہت سے موسیقاروں‘ گلوکاروں اور اداکارائوں کو فلمی دنیا میں متعارف کرایا۔ پنچولی نے 'پریتم آن ملو‘ گیت سنا تو حیرت زدہ رہ گئے۔انہوں نے سوچا کیوں نہ اس خوبصورت آواز کو فلمی دنیا میں متعارف کرایا جائے۔ اسی لیے انہوں نے سی ایچ آتما کو بمبئی آنے کا پیغام پہنچایا تھا۔ ان دنوں سکھ دیو پنچولی اپنی نئی فلم 'نگینہ‘ بنا رہے تھے جس میں دلیپ کمار کے بھائی ناصر خان ہیرو اور نوتن ہیروئن کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ اس وقت نوتن کی عمر صرف 15 سال تھی۔ 'نگینہ‘ میں موسیقی دینے کے لیے سکھ دیو پنچولی نے شنکر جے کشن کا انتخاب کیا تھا۔ شنکر جے کشن کی جوڑی نے اپنی پہلی ہی فلم 'برسات‘ میں اپنی دلفریب موسیقی سے سب کو چونکا دیا۔ اس کے بعد کامیاب فلموں کی لمبی فہرست ہے جن میں انہوں نے اپنی مدھر موسیقی کے جوہر دکھائے۔ وہی شنکر جے کشن اب 'نگینہ‘ فلم کے لیے موسیقی دے رہے تھے۔ سی ایچ آتما کلکتہ سے بمبئی آیا تو سکھ دیو پنچولی نے اسے اپنی فلم میں تین سولو گانوں کی پیشکش کی۔ پہلی ہی فلم میں کسی گلوکار کو تین سولو گانوں کی پیشکش ایک غیر معمولی بات تھی۔ سی ایچ آتما کے لیے بھی یہ ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس نے تین گانوں میں اپنا فن سمو دیا۔ یہ تینوں گیت عوام میں بے پناہ مقبول ہوئے۔ ان گیتوں کے بول یہ تھے 'دل بے قرار ہے مرا دل بے قرار ہے‘، 'روئوں میں ساگر کے کنارے‘ اور 'ایک ستارہ ہے آکاش ہے‘۔ ان گیتوں میں کے ایل سہگل کا رنگ صاف دکھائی دیتا ہے۔ یوں اپنی پہلی فلم ہی سے سی ایچ آتما شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ سکھ دیو پنچولی مطمئن تھا کہ فلم میں گائیکی کے لیے سی ایچ آتما کا انتخاب درست تھا۔ لیکن پنچولی کے ذہن میں سی ایچ آتما کا گیت 'پریتم آن ملو‘ تھا جس کی موسیقی لاہور کے ایک نوجوان موسیقار اوپی نیر نے دی تھی۔ اگلے برس 1952ء میں سکھ دیو پنچولی نے اپنی نئی فلم 'آسمان‘ کے لیے نوجوان موسیقار اوپی نیر کو موقع دیا اور اس فلم میں بھی سی ایچ آتما کو تین سولو گانوں کی پیشکش کی گئی۔ یوں اوپی نیر کی موسیقی اور سی ایچ آتماکی آواز نے تین سدا بہار گیتوں کو جنم دیا جو آج بھی تروتازہ ہیں۔ ان گیتوں میں 'اس بے وفا جہاں میں وفا ڈھونڈتے رہے‘، 'کچھ سمجھ نہیں آئے موہے اس دنیا کی بات‘ اور 'رات سہانی جاگتے تارے‘ شامل ہیں۔ یوں سی ایچ آتما کا فلمی دنیا کا سفر شروع ہو اجس کی ابتدا ہی شاندار تھی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ سی ایچ آتما صرف فلمی گانوں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ وہ پرائیویٹ محفلوں میں بھی پرفارم کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فلمی گیتوں کے علاوہ اس نے خوبصورت غزلیں اور بھجن بھی گائے جو لوگوں میں بہت مقبول ہوئے۔ سی ایچ آتما ہندوستانی فلم انڈسٹری کا پہلا گلوکار تھا جو سولو پرفارمنس کے لیے بیرونِ ممالک گیا اور دنیا کے کئی ملکوں کے سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اسی طرح کے ایک دورے میں نیروبی میں اس کی ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جسے موسیقی کا شوق تھا۔ دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔ اس نوجوان کی ایک بہن تھی جس کا نام رانی تھا۔ رانی سی ایچ آتما کو شہر گھمانے لے جاتی تھی۔ یوں دونوں کی بے تکلفی ہو گئی اور پھر دونوں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ سی ایچ آتما رانی کو ہندوستان لے آیا۔ یہ شادی جس کی ابتدا ہنسی خوشی سے ہوئی تھی‘ بعد میں ناکام ثابت ہوئی۔ اس شادی میں ناکامی کا غم سی ایچ آتما کو آخری دم تک رہا۔
ادھر فلموں میں ابتدائی کامیابی کے بعد سی ایچ آتما کا فلمی دنیا کا سفر جاری رہا۔ کچھ فلموں میں تو اس نے اداکاری بھی کی اور گیت بھی گائے لیکن وقت ایک سا نہیں رہتا۔ گلوکاری کے میدان میں اور گانے والے بھی آ رہے تھے جن میں مکیش‘ کشور کمار اور محمد رفیع نمایاں تھے۔ موسیقی کا آہنگ بدل رہا تھا۔ لوگ اب کے ایل سہگل کے سحر سے نکل کر سماعتوں کے نئے ذائقوں سے آشنا ہو رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ سی ایچ آتما کی طرح مکیش اور کشور نے بھی کے ایل سہگل کے سائے میں اپنی گلوکاری کا آغاز کیا۔ ان کے ابتدائی گیتوں پر بھی کے ایل سہگل کی گہری چھاپ تھی‘ لیکن فرق یہ تھا کہ جلد ہی انہوں نے گلوکاری میں اپنی علیحدہ شناخت بنا لی تھی۔ سی ایچ آتما کے ساتھ ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اکثر یہ شکایت کرتا تھا کہ فلمی دنیا کے لوگوں نے اس کی آواز کا درست استعمال نہیں کیا اور اسے صرف کے ایل سہگل کے آہنگ کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ سی ایچ آتما نے بعد میں کئی فلموں میں گیت گائے۔ ان میں فلم 'گیت گائے پتھروں نے‘ میں سی ایچ آتما نے دو گیت 'اک پل جو ملا ہے‘ اور 'ہو ساتھ اگر منڈوتے تلے غریب کے‘ شامل تھے۔ ان گیتوں کے بول حسرت جے پوری نے لکھے تھے۔
اس عرصے میں اس نے ہندی‘ اُردو اور بنگالی میں گیت گائے اور فلم کے علاوہ پرائیویٹ تقریبات میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا۔ سی ایچ آتما کا فطری میلان غزل کی طرف تھا‘ کے ایل سہگل اس کے پسندیدہ گلوکار تھے۔ جب ایک انٹرویو میں سی ایچ آتما سے پوچھا گیا کہ اس کا پسندیدہ پاکستانی گیت کون سا ہے تو اس نے بغیر کسی تامل کے جواب دیا کہ اس کا پسندیدہ گیت 'الفت کی نئی منزل کو چلا‘ ہے۔ یہ گیت قتیل شفائی نے لکھا تھا اور اسے اقبال بانو نے آواز کا پیراہن دیا تھا۔ اس کے بعد بھی کچھ فلموں میں سی ایچ آتما نے گیت گائے لیکن اب وقت آگے نکل گیا تھا۔ موسیقی کا آہنگ اب بدل چکا تھا۔ سی ایچ آتما کی شہرت کا آفتاب اب ڈھل رہا تھا۔ اس کا مختصر فلمی کیریئر صرف دس سال پر محیط تھا۔ ازدواجی زندگی میں ناکامی نے بھی اسے تنہا کر دیا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے‘ وہ ایک غیر ملکی دورے سے واپس آ رہا تھا کہ بیماری نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ 26 دسمبر 1975ء کو 52 سال کی عمر میں برصغیر کے نامور گلوکار سی ایچ آتما کا انتقال ہو گیا۔ وہ جو تمام عمر اپنی آواز سے دوسروں میں سکون کی دولت بانٹا رہا‘ خود تمام عمر سکون کی تلاش میں رہا۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ سی ایچ آتما کی ساری زندگی اس کے اپنے ہی گا ئے ہوئے ایک گیت میں سمٹ آئی تھی۔ 'اس بے وفا جہاں میں وفا ڈھونڈتے رہے‘ ناداں تھے ہم بھی کتنے یہ کیا ڈھونڈتے رہے‘۔ (ختم)