"SSC" (space) message & send to 7575

گوجرانوالہ کا بلونت سنگھ

پاکستان کے شہر گوجرانوالہ کی مردم خیز سر زمین نے کتنے ہی ایسے افراد کو جنم دیا جو اپنے اپنے شعبوں میں شہرت کی بلندیوں پر پہنچے اور گوجرانوالہ کی نسبت کو شہرتِ دوام بخشی۔ اسی گوجرانوالہ کے ایک گائوں چک بہلول میں ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام بلونت سنگھ رکھا گیا۔ یہ جون 1921ء کی بات ہے۔ اُس وقت کسے معلوم تھا کہ ایک دن بلونت سنگھ کا نام افسانے‘ ناول‘ ڈرامے اور صحافت کی دنیائوں میں جگمگائے گا۔ یہ ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کی بات ہے‘ جب ملک پر سلطنتِ برطانیہ کی حکمرانی تھی۔ بلونت سنگھ ذرا بڑا ہوا تو اسے کریسنٹ پریپریٹری سکول میں داخل کرایا گیا۔ بلونت سنگھ کے والد سردار لابھ سنگھ ڈیرا دون کے ملٹری کالج میں پڑھاتے تھے۔ یہ اپنے زمانے کا معروف تعلیمی ادارہ تھا۔ بلونت نے گوجرانوالہ سے پرائمری کا امتحان پاس کیا تو والد نے اسے اپنے پاس ڈیرادون بلا لیا۔ یہیں بلونت نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ کے لیے اسے والد نے پوئنگ جمنا کرسچین کالج میں داخل کرا دیا۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کامیابی کے بعد بلونت سنگھ نے الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا جہاں سے اس نے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس زمانے میں لاہور امکانات کا شہر سمجھا جاتا تھا جہاں نہ صرف ملازمت کے مواقع زیادہ تھے بلکہ یہاں ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی بھی ریل پیل تھی۔ لاہور اس کے آبائی شہر گوجرانوالہ کے بھی نزدیک تھا‘ وہی گوجرانوالہ جہاں کی فضائوں میں اس کے بچپن کے خوبصورت شب و روز گزرے تھے۔ یوں بلونت سنگھ کو لاہور کی کشش اپنے پاس کھینچ لائی۔
لاہور آنے کی بڑی وجہ ادب کے ساتھ اس کا بے پناہ لگائو تھا اور وہ اپنے شوق کی تکمیل لاہور میں کرنا چاہتا تھا۔اس شوق کی ابتدا بہت پہلے ہو چکی تھی۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ میٹرک میں پڑھ رہا تھا۔ اس زمانے میں اس نے ایک کہانی لکھی۔ کہانی‘ جس کی ہر سطر میں پنجاب کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہی پنجاب جو بلونت کی رگوں میں خون بن کر دوڑ تا تھا۔ اس کہانی کا نام ''سزا‘‘ تھا۔ کہانی لکھ کر بلونت نے اپنے زمانے کے معروف ادبی رسالے ''ساقی‘‘ کو اشاعت کے لیے بھیج دی۔ رسالے کے مدیر معروف ادیب شاہد احمد دہلوی تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افسانوں کی دنیا میں کرشن چندر‘ احمد ندیم قاسمی‘ راجند رسنگھ بیدی‘ منٹو اور عصمت چغتائی کے ناموں کا سکہ چل رہا تھا۔ بلونت نے ''ساقی‘‘ کو اپنی کہانی بھیج تو دی تھی لیکن اس کی اشاعت کے بارے میں وہ پُریقین نہیں تھا۔ اس کے لیے وہ ایک خوشیوں بھری حیرت کا دن تھا جب اسے پتا چلا کہ اس کی کہانی اپنے زمانے کے بڑے ادبی رسالے ''ساقی‘‘ میں شائع ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ معروف افسانہ نگار کرشن چندر نے یہ کہانی پڑھی تو وہ ''ساقی‘‘ کے اس شمارے کو شہر بھر میں گھماتا پھرا اور اپنے ہر ملنے والے سے کہتا رہا کہ دیکھو! افسانے یوں لکھے جاتے ہیں۔ بلونت سنگھ کے اس حرفِ اول پر عرفِ آخر کا گماں ہوتا ہے۔ یہ بلونت سنگھ جیسے نووارد کہانی کار کے لیے بڑا خراجِ تحسین تھا جو اُس وقت کے معروف ادیب اور افسانہ نگار کرشن چندر کی طرف سے آیا تھا۔ یہ کہانی ایک خوبصورت اور معصوم لڑکی اجیت کور (جیتو) کی کہانی ہے جو پنجاب کے ایک گائوں میں اپنے بوڑھے دادا اور چھوٹے بھائی چنن کے ساتھ عسرت کی زندگی گزار رہی ہے۔ انہوں نے اپنا گھر گروی رکھ کر قرض لے رکھا ہے اور اب قرض ادا نہ کرنے پر ان کا گھر چھن جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ جیتو پریشان تھی کہ اگر ان کا گھر نہ رہا تو وہ کہاں جائیں گے۔ اس دوران گائوں کا ایک نوجوان تارا سنگھ (تارو) جو جیتو سے محبت کرتا ہے‘ خاموشی سے اس کے باپو کو قرض چکانے کے لیے مطلوبہ رقم دے دیتا ہے۔ ادھر جیتو کو جب پتا چلتا ہے کہ تارا سنگھ نے ان کا گھر بچا لیا ہے تو اس کے دل میں تارو (تارا سنگھ) کے لیے محبت کی لہر اٹھتی ہے۔ کہانی کے اختتام پر تارا سنگھ ایک ملاقات میں اسے چھیڑتا ہے اور کہتا ہے مجھے کیا سزا دو گی تو جیتو اپنے جوڑے سے چنبیلی کے پھولوں کا ہار نکال کر تارو (تارا سنگھ) کے گلے میں ڈال دیتی ہے۔ اس سادہ سی کہانی میں پنجاب کی تہذیب اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ نظر آتی ہے۔ اس کہانی کی چند سطریں ملاحظہ کریں اور پنجاب کی رہتل (Living) کو اپنی چشمِ تصورسے دیکھیں۔
''چھوٹا سا گائوں تھا۔ دو ایک حویلیوں کو چھوڑ کر باقی تمام مکانات گارے کے بنے ہوئے تھے۔ وہی جوہڑ‘ وہی ببول‘ شرین اور بیریوں کے درخت‘ وہی گھنے پیپل کے تلے روں روں کرتے رہٹ‘ وہی صبح کے وقت کنوئوں پر کنواریوں کے جمگھٹ‘ دوپہر کے وقت بڑے بوڑھوں کی شطرنج اور چوسر‘ شام کو نوجوانوں کی کبڈی اور پُرسکوت راتوں میں وارث شاہ کی ہیر‘ ہیر اور قاضی کے سوال و جواب‘ وہی مضبوط‘ نٹ کھٹ اور چنچل چھوکریاں اور وہی سیدھے سادے بلند قامت اور وجیہ نوجوان‘‘۔
یہ کہانی 1937ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ افسانے کی دنیا میں بلونت سنگھ کا پہلا قدم تھا یہی کہانی اس کا تعارف بن گئی۔ یوں ادب کے آسمان پر ایک روشن ستارا چمکا جس کا نام بلونت سنگھ تھا۔
بلونت سنگھ گریجوایشن کرنے کے بعد اب لاہور آ گیا تھا جہاں کی فضائوں میں ایک عجیب طرح کا جادو تھا۔ اور پھر جوانی کا اپنا سحر بھی ہوتا ہے۔ وہ ایک اونچا لمبا اور وجیہ جوان تھا جس کا رنگ سرخ و سپید تھا۔ جس کا ایک منفرد انداز تھا‘ سب سے الگ اور سب سے جدا۔ لاہور میں اس کی ملاقات اپنے زمانے کے معروف قلم کاروں صلاح الدین احمد‘ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی سے رہتی تھی۔ لیکن بلونت کا اپنا مزاج تھا جس میں خود پسندی کا عنصر نمایاں تھا۔ یوں وہ سب کے درمیان رہ کر بھی اکیلا تھا۔ کئی بار لوگوں نے دیکھا کہ لاہور کی سڑکوں پر وہ تنہا رکشے میں سفر کر رہا ہے اور اس کے پائوں میں اس کا السیشن کتا بیٹھا ہے۔ اسی طرح لوگ دیکھتے کہ وہ کافی شاپ میں اکیلا بیٹھ کر کافی پیتے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں فن کی دنیا کا مسافر تھا۔ اسے شعر و ادب‘ موسیقی اور مصوری سے خاص شغف تھا۔ وہ بانسری بجاتا تو لگتا وقت جیسے ٹھہر گیا ہے۔ وہ اپنی ذات میں ایک خوش مزاج شخص تھا‘ جسے باتوں اور قصوں کا فن آتا تھا لیکن اس کے ساتھ وہ ایک صاف گو انسان تھا‘ جو بات سچ سمجھتا بلا خوف و خطر کہہ دیتا۔ مصلحت سے کام لینا اسے نہیں آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دوستوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
''سزا‘‘ کے بعد اس کی کہانیاں تواتر سے مختلف ادبی رسالوں میں چھپنے لگیں۔ 1944ء میں بلونت سنگھ کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ''جگا‘‘ شائع ہوا۔ اسے لاہور سے مکتبہ اُردو نے شائع کیا تھا۔ اس مجموعے میں اس کا معروف افسانہ ''جگا‘‘ شامل تھا۔ اسی سال اس کا دوسرا افسانوی مجموعہ ''تار و پود‘‘ شائع ہوا جسے مکتبہ جدید نے شائع کیا۔ لاہور کے شب و روز ہنستے کھیلتے گزر رہے تھے حتیٰ کہ ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہو گیا اور دونوں طرف سے لوگوں کی ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بلونت سنگھ کے لیے لاہور چھوڑنا آسان نہ تھا۔ یہاں کے در و بام سے اس کے کتنے ہی حسین دنوں کی یادیں وابستہ تھیں لیکن اب لاہور سے جدائی کا وقت آ پہنچا تھا۔ بلونت نے اپنا سامان سمیٹا‘ لاہور کے گلی کوچوں پر الوداعی نظر ڈالی اور بوجھل دل سے ایک نئی منزل کی طرف روانہ ہو گیا۔ یہ منزل ہندوستان کا شہر الہ آباد تھی۔ وہاں کی زندگی کیسے بسر ہو گی؟ وہ کہاں رہے گا؟ اس کی ملازمت کا کیا بنے گا؟ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات سر اٹھا رہے تھے۔ لیکن اس نے اپنا سر جھٹک دیا۔ اس وقت وہ کچھ بھی نہ سوچنا چاہتا تھا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں