راولپنڈی کے قیام کے دوران تلوک چند محروم کے ادبی اور شعری ذوق کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ اُن دنوں لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں ایک سالانہ مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ اس مشاعرے کے آرگنائزر خواجہ عبد الرحیم صاحب تھے۔ مشاعرے میں اپنے دور کے اہم ترین شاعر شرکت کرتے تھے‘ جن میں حفیظ جالندھری اور جگر مراد آبادی جیسے ممتاز شعرا بھی شامل تھے۔ تلوک چند محروم کے شعری ذخیرے کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اس نے اتنے کم عرصے میں اردو شاعری کی مختلف اصناف میں کتنا ا ضافہ کیا۔ تلوک چندکے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں 'گنجِ معانی‘، نیرنگِ معانی،رباعیاتِ محروم، کاروانِ وطن، شعلۂ نوا، بہارِ طفلی اور بچوں کی دنیا شامل ہیں۔ تلوک چند کے شاعری کے موضوعات میں فطرت‘ حب الوطنی‘ محبت اور بھائی چارہ شامل ہیں۔ تلوک چند محروم نے بچوں کے حوالے سے بھی متعدد نظمیں لکھیں جو اس کی کتاب 'بہارِ طفلی‘ میں شائع ہوئیں۔
تلوک چند ان دنوں راولپنڈی کے گورڈن کالج میں پڑھا رہا تھا۔ کالج کے بعد دوستوں سے محفلیں ہوتیں۔ شعر و ادب پر گفتگو ہوتی۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔ لیکن پھر ایک دن خبر آئی کہ راولپنڈی شہر میں فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فسادات کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اب ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہو چکا تھا۔ مہاجرین کی کثیر تعداد سرحد کے دونوں اطراف سے نقل مکانی کرنے لگی تھی۔ تلوک چند اس وقت آریہ محلہ کے ایک گھر میں رہتا تھا۔ یہاں ہندو آبادی کی اکثریت تھی‘ جہاں سے گورڈن کالج بہت قریب تھا۔ ہندوستان سے گھروں کو چھوڑ کر آنے والے مہاجرین کو پاکستان کے مختلف علاقوں میں گھر الاٹ ہونے لگے تھے۔ تلوک چند آریہ محلہ میں جس گھر میں رہ رہا تھا‘ وہ ہندوستان سے آنے والے ایک مسلم مہاجر کو الاٹ ہو گیا۔ تلوک چند اپنا گھر چھوڑ کرگورڈن کالج آ گیا جہاں کے پرنسپل سٹیورٹ نے اسے کالج میں پناہ لینے کی دعوت دی تھی۔ 14 اگست کو پاکستان وجود میں آ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا۔ اب اکتوبر کا مہینہ شروع ہو گیا تھا۔ تلوک چند ابھی تک گورڈن کالج ہی میں مقیم تھا۔ اسے سرحد پار جانے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ تب ایک دن کالج میں تلوک چند کی ملاقات ایک نوجوان کیپٹن عبدالمجید اور لیفٹیننٹ قریشی سے ہوئی جنہوں نے اسے بخیریت سرحد پار پہنچانے کا وعدہ کیا اور پھر اسے پہلے لاہور اور وہاں سے امرتسر اور جالندھر پہنچا دیا۔ تلوک چند محروم آخر دم تک ان دو مسلم کرداروں کو نہیں بھولا جنہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس کی مدد کی۔ راولپنڈی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوتے ہوئے تلوک نے اپنے تاثرات کو ان اشعار میں قلمبند کیا:
گلیاں برباد اور کوچے ویران ؍ دہشت زدہ چوک اور سڑکیں سنسان
خاموش مکانوں کے دریچے دیکھو؍ جیسے کسی غم زدہ کی چشمِ حیران
کچھ دن جالندھر رہنے کے بعد وہ دہلی چلاگیا۔ دہلی پہنچ کر اسے روزنا مہ تیج میں ملازمت مل گئی جہاں وہ اس کا ویکلی ایڈیشن مرتب کرتا تھا۔ انہی دنوں بھارت کی حکومت نے تعلیمِ بالغاں کے لیے ایک الگ تعلیمی ادارے کا آغاز کیا جو پنجاب یونیورسٹی کے زیر انتظام قائم کیا گیا تھا۔ تلوک چند محروم کو کیمپ کالج Hastings میں بطور پروفیسر تعینات کر دیا گیا۔ یہاں وہ 1957ء تک پروفیسر کے عہدے پر کام کرتا رہا۔
تلوک چند محروم راولپنڈی سے دہلی آ تو گیا تھا اور اسے یہاں ملازمت بھی مل گئی تھی لیکن تلوک کا دل ابھی تک راولپنڈی میں اٹکا ہوا تھا۔ اسے وہ وقت یاد آتا جو اُس نے راولپنڈی کی فضائوں میں گزارا تھا۔ دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدل رہے تھے۔ وہ اکثر سوچتا کیا وہ راولپنڈی کو دوبارہ دیکھ پائے گا؟ آخر ایک دن اسے اپنے خواب کی تعبیر مل گئی جب 1953ء میں اس کو اپنے دلبر شہر راولپنڈی اور اپنے محبوب تعلیمی ادارے گورڈن کالج کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس موقع پر گورڈن کالج کے سابقہ طلبہ اور اساتذہ کالج کی گولڈن جوبلی منانے گورڈن کالج میں اکٹھے ہوئے تھے۔ اسے بھی مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ایک مدت کے بعد وہ گورڈن کالج کے مانوس در و بام دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک جذباتی منظر تھا۔ اس روز مشاعرے میں تلوک نے اپنی نظم ''گارڈن کالج کی یاد میں‘‘ سنائی۔ یہ نظم گورڈن کالج کے لیے تلوک چند کی محبت کی عکاس تھی۔
جلوہ فرما تھی تصور میں مرے صورت تری
تجھ سے گو دوری رہی ہے گردشِ ادوار سے
خوش نصیبی پر ہوں اپنی آج میں نازاں کہ ہے
دل مرا مسرور اور فرحاں ترے دیدار سے
مشاعرے کا اختتام ہو گیا لیکن تلوک چند کا راولپنڈی سے جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ اس نے یہاں اپنا قیام بڑھا لیا۔ اس نے اپنے تمام پرانے دوستوں سے ملاقات کی۔ وہ اُن تمام جگہوں پر گیا جن سے اس کی خوبصورت یادیں وابستہ تھی۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ وہی شہر‘ وہی منظر‘ وہی مال روڈ‘ وہی دریائے سواں کا کنارا۔ تلوک چند کا جی چاہتا تھا کہ وقت رک جائے اور وہ تما م عمر اپنے دلبر شہر راولپنڈی کے گلی کوچوں میں گھومتا رہے۔ لیکن وقت کب رکتا ہے۔ تلوک چند کو نہ چاہتے ہوئے بھی راولپنڈی چھوڑ کر دہلی جانا پڑا۔ یہ تلوک چند محروم کا پاکستان کا آخری دورہ تھا۔
1962ء میں بھارت کی حکومت نے تلوک کی شاعری کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اسے ساہتیہ شاعری کا ایوارڈ دیا۔ اب تلوک چند کی صحت جواب دے رہی تھی۔ آخری دنوں میں اسے بخار نے آ گھیرا۔ بیٹے جگن ناتھ آزاد نے علاج میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن تلوک کا آخری وقت آ پہنچا تھا۔ کوئی علاج کارگر نہ ہوا اور وہ 6جنوری 1966ء کو اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گیا۔ تلوک چند اپنی ساری زندگی میں امن‘ محبت اور رواداری کا قائل رہا۔ اُس نے تمام عمر بھائی چارے کی تلقین کی۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی موت کے بعد اس کی آخری رسومات میں بھی مختلف مذاہب کے پیروکار جمع تھے۔ اس موقع پر ہندو‘ سکھ اور مسلمانوں کی مذہبی کتابوں کی تلاوت کی گئی۔ یہ ایک منفرد اعزاز تھا جو تلوک چند نے اپنی زندگی میں اپنے حسنِ عمل سے کمایا تھا۔ میں سوچتا ہوں کہ تلوک چند اور مجھ میں راولپنڈی کی محبت مشترک ہے۔ راولپنڈی میرا آبائی شہر ہے۔ میں یہیں پلا بڑھا۔ اب ایک عرصے سے میں اپنے شہر سے دور‘ لاہور میں رہتا ہوں لیکن اب بھی راولپنڈی جائوں اور اپنے لا لکرتی کے سکول اور گورڈن کالج کے قریب سے گزروں تو مجھے بیتے د نوں کے ساتھ تلوک چند کی یاد کی خوشبو آتی ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں تلوک چند راولپنڈی کو بہت یاد کرتا تھا۔آخرِ عمر کا جھٹپٹا آن پہنچا تھا جس میں سب چیزیں دھندلا جاتی ہیں لیکن اس کی آنکھوں میں اب بھی راولپنڈی کے گلی کوچوں کے منظر روشن تھے۔ اس کا جی چاہتا کہ اس کے پَر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر اپنے دلبر شہر راولپنڈی پہنچ جائے۔ ایسے میں اس کی خواہش اشعار میں ڈھل جاتی۔
اے کاش مجھ کو پھر نظر آئے وہ سرزمیں
صحرا بھی جس کے صحنِ گلستان سے کم نہیں
آغاز تھا جہاں میرا انجام ہو وہیں
اتنا ہے اور اس کے سوا اور کچھ نہیں
لیکن یہ زندگی ہے جہاں ہر خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔ تلوک چند کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور میانوالی کی سرزمین پر جنم لینے والا اور راولپنڈی کے گلی کوچوں میں اپنی زندگی کے حسین دن گزارنے والا برصغیر کا عظیم اردو شاعراپنی آنکھو ں میں گئے دنوں کے منظر سجائے دہلی کے ایک گھر میں ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ (ختم)