"SSC" (space) message & send to 7575

حیات بنگالی: کہاں سے آیا کدھر گیا وہ؟

اب تو یوں لگتا ہے جیسے وہ کوئی خواب تھا۔ جب موجودہ بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اسے ہم مشرقی پاکستان کہتے تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں سکول میں پڑھتا تھا۔ مجھے یاد ہے میری کلاس میں میرا ایک ہم جماعت صادق حسن لشکر بھی تھا۔ اس کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور اس کے والد پاک فوج میں ملازم تھے۔ مشرقی پاکستان سے میرا اصل تعارف حیات کی بدولت ہوا۔ حیات راولپنڈی میں ہمارے گھر کے پاس رہتا تھا اور حیات بنگالی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرقی پاکستان سے بنگالیوں کی ایک مختصر تعداد روزگار کے سلسلے میں مغربی پاکستان میں رہ رہی تھی۔ پاکستان آرمی‘ ایئر فورس‘ نیوی اور دوسرے محکموں میں بھی بنگالی جوان اور افسر موجود تھے۔ حیات دبلا پتلا چھریرے بدن کا نوجوان تھا‘ جو ملازمت کے سلسلے میں اپنے گھر سے بہت دور راولپنڈی کے اس محلے میں کرائے کے ایک کمرے میں رہ رہا تھا۔ وہ 502 ورکشاپ میں کسی معمولی سے عہدے پر کام کرتا تھا۔ اس کے سانولے چہرے پر اس کی بڑی بڑی روشن آنکھیں نمایاں تھیں۔ اس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کھیلتی رہتی۔ اس کے کمرے میں ایک چارپائی تھی۔ ایک کونے میں کھانا پکانے کے لیے ایک چولہا۔ بنگلہ زبان میں لکھی ہوئی چند کتابیں۔ چارپائی کے نیچے ایک سوٹ کیس اور چارپائی کے قریب میز پر رکھی ہوئی بینجو۔ حیات کو موسیقی کا جنون تھا۔ دن بھر نوکری کے بعد وہ شام کو ایک بنیان اور لُنگی پہن کر کمرے کے برآمدے میں بیٹھتا اور بینجو بجاتا۔ اس کے سُروں میں بنگال کے دریاؤں کا مد و جزر ہوتا اور ایک گہرا فراق۔ میں سوچتا‘ وہ یہاں سے ہزاروں میل دور بسنے والے اپنے عزیزوں‘ دوستوں اور پیاروں کو مِس تو کرتا ہو گا۔
اس نے مجھے میرا نام بنگالی رسم الخط میں لکھنا سکھایا اور کچھ بنیادی بول چال کے جملے بھی۔ اُن دنوں ریڈیو پاکستان سے خبریں نشر ہوتیں تو کچھ اس طرح آغاز ہوتا: یہ ریڈیو پاکستان ہے‘ اس وقت پچھمی پاکستان میں صبح کے سات اور پوربی پاکستان میں صبح کے آٹھ بجے ہیں۔ اسی طرح شاعری میں بھی لفظوں کے تجربے ہو رہے تھے مثلاً ضمیر جعفری کی نظم ''اللہ میگھ دے‘ پانی دے‘ سایہ دے‘‘۔ حیات سال میں ایک مرتبہ چھٹی پر مشرقی پاکستان کے شہر سلہٹ کے قریب اپنے گاؤں جاتا۔ ایسے میں وہ اپنی کل کائنات سوٹ کیس اور بینجو ہمارے گھر رکھوا دیتا جسے ہم سیڑھیوں کے اوپر بنے ہوئے سٹور میں رکھ دیتے۔ جب چھٹی ختم ہونے کے بعد واپس آتا تو سب سے پہلے ہمارے گھر آتا‘ اپنا سوٹ کیس اور بینجو لیتا اور پھر اپنے کمرے میں جاتا۔ چھٹی سے واپس آ کر وہ اپنے گاؤں کی‘ اپنے گھر والوں کی باتیں سناتا۔
وہ 1970ء کا سال تھا‘ ملک میں جنرل یحییٰ خان کی حکمرانی تھی۔ میں شاید آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ملک میں سیاسی تناؤ تھا‘ ہر گھر پر سیاسی جماعتوں کے جھنڈے تھے۔ مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ اپنی کامیابی کے دعوے کر رہی تھی جبکہ مولانا بھاشانی اور جماعت اسلامی پُر امید تھے کہ مشر قی پاکستان میں انہیں نشستیں ملیں گی۔ پاکستان کے دونوں حصوں میں قومی اسمبلی کی کل تین سو نشستیں تھیں جن میں 162مشرقی پاکستان اور 138مغربی پاکستان میں تھیں۔ انتخابات کا نتیجہ آیا تو شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ نے 167اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے 86 نشستیں حاصل کیں۔ 1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں مجموعی طور پر شیخ مجیب کی جماعت عوامی لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہو گئی تھی۔ اصولی طور پر اکثریتی جماعت کو حکومت بنانے کا حق حاصل تھا لیکن مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت کے رہنما نے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا‘ پھر پارلیمنٹ کا اجلاس بھی منسوخ کر دیا گیا۔ اس کے رد عمل میں وہ پُر تشدد تحریک ابھری جس میں بھارت نے بھی اپنی مرضی کے رنگ بھرے اور شیخ مجیب نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ یہ تحریک روز بروز پُر تشدد ہونے لگی۔
اب 1971ء کا سال شروع ہو چکا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اس سال میں بھی حیات بنگالی سالانہ تعطیل پر سلہٹ میں اپنے گاؤں گیا تو اپنا سوٹ کیس اور بینجو ہمارے گھر چھوڑ گیا‘ جو حسبِ معمول میں نے سیڑھیوں کے اوپر بنے سٹور میں رکھ دیے۔ اس نے جاتے وقت بتایا تھا کہ وہ دو ہفتے کی چھٹی پر جا رہا ہے۔ اسی دوران فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان آپس میں ہی دست و گریباں ہو گئے اور بھارت نے کھلم کھلا مکتی باہنی کی حمایت کرتے ہوئے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کر دیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے مغربی پاکستان کی سرحدیں بھی جنگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔ میں ان دنوں سکول میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کیسے تقریباً ہر روز صبح کے وقت فضائی حملے کے سائرن بجتے اور بھارتی طیاروں کی گڑگڑاہٹ سے فضا گونج اٹھتی۔ ہم دوڑ کے سیڑھیوں کے نیچے پناہ لیتے۔ اکثر جہازوں کی پرواز گھن گرج تک محدود رہتی‘ لیکن ایک دن دھماکے اتنے شدید تھے کہ ہمارے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے لرز اٹھے۔ اگلے روز پتا چلا کہ ہمارے گھر سے کچھ دور کھیتوں میں بم برسائے گئے تھے۔ بھارتی طیاروں کا اصل ٹھکانہ 502 ورکشاپ یا اٹک آئل ڈپو تھا۔ سکولوں میں تعطیلات تھیں۔ میں نے سوچا کیوں نہ راولپنڈی کے نواح میں اپنے گاؤں چلا جاؤں۔ اُن دنوں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں بسوں کا اڈا تھا۔ وہیں سے ہمارے گاؤں کے لیے بسیں ملتی تھیں۔ اس روز میں اڈے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ ہوائی حملے کا سائرن بجنا شروع ہو گیا۔ سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں رک گئیں۔ آسمان پر بھارتی طیارے آئے اور کوئی کارروائی کیے بغیر گزر گئے۔ کیوں؟ ان کے تعاقب میں پاکستان ایئر فورس کے طیارے تھے۔
اب دسمبر کے مہینے کا آغاز تھا۔ مشرقی پاکستان سے متضاد خبریں آ رہی تھیں۔ اُن دنوں خبروں کا ایک اہم ذریعہ بی بی سی لندن کی اردو سروس تھی‘ جسے سب بہت اہتمام سے سنتے تھے۔اس دوران میں اکثر سوچتا کہ حیات کس حال میں ہو گا۔ مشرقی پاکستان سے شروع میں یہ خبر آئی کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کو پہنچ رہا ہے۔ اب ہماری ساری امیدوں کا مرکز امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا تھا‘ لیکن 16دسمبر آ گیا اور یہ بحری بیڑا ایک افسانہ بن کر رہ گیا۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کی خبر میں نے گاؤں ہی میں سنی۔ یہ خبر ہم پر بجلی بن کر گری تھی۔ چھوٹے بڑے سب بلک بلک کر رو رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد میں گاؤں سے واپس شہر میں آیا تو سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ گھر جاتے ہوئے سڑک پر میری نظر سڑک کے بائیں طرف اس برآمدے کی طرف چلی گئی جہاں حیات کا کمرہ تھا۔ کمرے پر تالا پڑا ہوا تھا۔ گھر پہنچا تو سب کی عجیب سی کیفیت تھی۔ مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کا یقین نہیں آ رہا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا‘ حیات کہاں ہو گا؟ وہ کب واپس آئے گا؟ دن مہینوں میں بدلتے گئے اور مہینے سالوں میں۔ حیات کا کوئی خط آیا نہ خیر خبر۔ کبھی کبھار میں اپنے گھر میں سیڑھیوں کے اوپر بنے سٹور میں جاتا تو حیات کا سوٹ کیس اور بینجو نظر آتے۔ اکثر بیٹھے بیٹھے مجھے یوں لگتا کہ فضاؤں میں بینجو کی آواز گھل مل گئی ہے‘ جیسے ابھی حیات کی مانوس ہنسی کی آواز آئے گی اور وہ مجھ سے پوچھے گا: کیمن آچھے (کیا حال ہے؟) اور میں ہنستے ہوئے کہوں گا بھالو آچھے (میں خیریت سے ہوں)۔ لیکن یہ صرف تصور کی بازیگری تھی۔ حیات پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ اب1971ء کے سانحے کو ایک مدت گزر گئی ہے مگر اب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو وقت کی راکھ میں چھپی یادوں کی چنگاریاں جیسے پھر سے روشن ہو جاتی ہیں اور حیات کا مسکراتا ہوا سانولا چہرہ لو دینے لگتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں