"SAC" (space) message & send to 7575

کشمیر پر خفیہ معاہدہ ناقابل قبول ہوگا

میاں محمد نوازشریف نے وزیراعظم بننے کے بعد سب سے پہلے دفتر خارجہ کو ہدایت نامہ بھیجا جس میں انہوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنا وژن واضح کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ سرحدیں رکھنے والے ممالک بشمول افغانستان اور بھارت سے اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات قائم کیے جائیں۔ چنانچہ اس میں تعجب کی کوئی بات نہ تھی کہ دفتر خارجہ کے اپنے پہلے دورے کے دوران انہوں نے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات معمول پر لانے اور کشمیر سمیت تمام متنازعہ معاملات کا حل مستعدی سے تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مسلم لیگ ن نے اپنے منشور میں حکومت بننے کی صورت میں بعینہ یہی پالیسی درج کر رکھی تھی۔ نوازشریف نے اب ایک اور قدم آگے بڑھا لیا ہے۔ انہوں نے اس امید پر بھارت کے ساتھ ’’بیک چینل‘‘ ڈپلومیسی بحال کی ہے کہ گزشتہ برس سے معطل شدہ جامع مذاکرات دوبارہ شروع ہوجائیں۔ بھارت نے اپنے ملک میںدہشت گردی کے واقعات میں مبینہ طور پر پاکستان کے ملوث ہونے کا بہانہ بنا کر اسے دبائو میں رکھنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ منقطع کردیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اب دونوں ملک رکے ہوئے مذاکرات بحال کرنے پر متفق ہوگئے ہیں اور ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کی ملاقات کا بندوبست کیا جارہا ہے۔ ایک ایسے وقت پر جب ہمارے خطے میں بہت کچھ بگاڑ کا شکار ہے‘ دو حریف ممالک، پاکستان اور بھارت کے مابین مثبت پیشرفت کو تاریک فضا میں روشنی کی ایک کرن کہا جاسکتا ہے‘ لیکن پاک بھارت تعلقات میں معاملات کی پیچیدگی کے پیش نظر بہتر ہوگا کہ اس پیشرفت سے بڑی امیدیں اور توقعات وابستہ کرنے میں احتیاط سے کام لیا جائے۔ ابھی ہمیں وہ سازگار فضا میسر نہیں جس کی بہت ضرورت ہے۔ حقیقی اور دیرپا امن کے لیے ہمیں اپنے خطے کو کشیدگیوں اور تصادمات سے نجات دلانا ہوگی۔ دونوں ملکوں کے مابین تنازعات کی نوعیت حقیقی ہے۔ انہیں صرف اس لیے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت ان پر نرمی اختیار نہیں کرتا۔ پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ ان میں آزادی کے وقت سے مخاصمت چلی آرہی ہے اور دونوں ممالک نصف صدی سے زائد عرصہ سے تنازعات سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔ دونوں طرف بداعتمادی سے جنم لینے والی پیچیدگیوں اور خدشات کی جڑیں بہت گہری ہیں جنہیںآسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اور بھارت کو اختلافات کی آگ بجھانے کے لیے اس کے منبع میں موجود آتش کو فرو کرنا ہوگا۔ تنازعات حل کرنے کا قابل قبول طریقہ صرف مذاکرات اور تعمیری روابط ہیں۔ دونوں طرف جس ذہنیت نے گھر کرلیا ہے، اس میں کسی بامعنی تبدیلی کے لیے وقتی اقدامات سے کہیں آگے جا کر ’’انتظامِ تصادم‘‘ سے ’’تصادم کے حل‘‘ کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔ بھارت اور پاکستان، اب جوہری ملک ہونے کے باوصف تصادم اور ہمہ وقت مد مقابل رہنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ انہیں لازمی طور پر اپنے تنازعات حل کرنے چاہئیں۔ اس سمت میں پیشرفت تعلقات کو معمول پر لانے اور باہمی تعاون کو فروغ دینے میں ممد ثابت ہوگی۔ پاک بھارت تعلقات میں بحالی کی بنیاد یہی ہے ‘ اگر اس نے حقیقت کا روپ دھار لیا تو اس خطے کے عوام کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے اقتصادی مواقع کی راہیں کھل جائیں گی۔ اس پس منظر میں میاں نوازشریف کے ’’بیک چینل‘‘ ڈپلومیسی کے آغاز سے ملک میں قیاس آرائیوں اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی ہے اور دونوں طرف کا میڈیا ہر قسم کے مفروضوں پر مبنی تبصروں سے لبریز ہے۔ سرحد کے دونوں طرف‘ پاک بھارت تعلقات کے تاریخی پس منظر سے ناواقف میڈیا‘ کنفیوژن نہیں تو بے یقینی ضرور پھیلا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کار کشمیر کا سودا کرنے کی مایوس کن منظر کشی کررہے ہیں اور بعض کے نزدیک پاک بھارت امن کی منزل قریب آن پہنچی ہے۔ ان تجزیوں میں اس حقیقت کو نظرانداز کیا جارہا ہے کہ ’’بیک چینل‘‘ ڈپلومیسی تنازعات کے حل کا درست اور باعزت طریق کار کبھی نہیں ہوتا اور اسے باقاعدہ سفارتی ذریعے کے متبادل کے طور پر ریاستوں اور سیاسی اداروں و افراد کے درمیان غیرسرکاری روابط کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’’بیک چینل‘‘ ڈپلومیسی کا حربہ اس وقت بروئے کار لایا جاتا ہے جب دو یا اس سے زیادہ مخالف فریق خفیہ مذاکرات کی خواہش کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے غیر رسمی رابطہ کاروں یا کسی تیسرے فریق کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ اس طریق کار کا مقصد حساس معاملات پر میڈیا اور لوگوں کی نظروں سے بچ کر کسی پوشیدہ سمجھوتے یا مفاہمت تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کا آغاز اچھے جذبے سے ہوتا ہے لیکن بسا اوقات نتائج بدنیتی کے مظہر نہیں تو متنازع ضرور ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین پر امریکہ کے ذریعے طے پانے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے (1978) اور اوسلو معاہدے (1993) کے علاوہ امریکہ ہی کے توسط سے اس کے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر طے پانے والے بدنام زمانہ این آر او (2007) کی مثالیں موجود ہیں۔ اگر تجربے سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے تو یاد رہے کہ بیک چینل سے طے پانے والے معاہدے کبھی دیرپا نہیں ہوتے اور نہ ہی کمزور فریق کو مسائل کے آبرو مندانہ حل کی ضمانت دیتے ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدوں نے مشرقِ وسطیٰ کو مزید تقسیم کردیا اور یہ مصر کے صدر انور سادات کے قتل اور پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی مشتبہ زہر خورانی سے موت پر منتج ہوئے۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں فلسطین کا مسئلہ حل ہوا نہ مشرقِ وسطیٰ میں اب تک قیام امن کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ ہمارے اپنے معاملے میں این آر او اور امریکی دبائو کے تحت بھارت کے ساتھ جنرل مشرف کی بیک چینل ڈپلومیسی سے کوئی مسئلہ حل نہ ہوا؛ بلکہ اس کے نتیجے میں بے نظیر قتل کردی گئیں اور مشرف کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اس سے قطع نظر کہ بھارتی کیا توقع رکھتے ہیں یا کیا کہتے ہیں، مسلم لیگ ن اپنے منشور کی رُو سے کشمیر پر اصولی موقف اختیار کرنے کی پابند ہے اور وہ اس معاملے پر کوئی خفیہ معاہدہ کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ خود میاں نوازشریف کشمیری ہیں اور ایک منتخب رہنما کی حیثیت سے کشمیری عوام کی حقیقی منزل کا ہر گز سودا نہیں کریں گے۔ وہ جنرل مشرف کی طرح کسی ’’آئوٹ آف باکس‘‘ قسم کے سمجھوتے کے فریق نہیں بنیں گے۔ مشرف کا مجوزہ سمجھوتہ بھی سٹیٹس کو برقرار رکھنے کو جواز بخشنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ نوازشریف جانتے ہیں کہ کشمیر کا منصفانہ، قانونی اور اخلاقی حل صرف ایک ہے جو اقوام متحدہ کی قرارداد کی صورت میں موجود ہے اور جسے بھارت اور پاکستان دونوں نے تسلیم کیا تھا۔ کشمیری عوام کی خواہشات کا غیرجانبدارانہ جائزہ لینا ہوگا اور انہیں اپنی خواہشات کے اظہار کے لیے فوجی جبر سے مبّرا آزاد فضا فراہم کرنا ہوگی۔ یہی مسئلہ کشمیر کا حاصل ہے۔ کشمیری عوام کی حمایت اور رضا مندی کے بغیر کیا گیا سمجھوتہ خطے میں دیریا امن نہیں لاسکے گا۔کشمیری عوام کو لازمی طور پر مذاکراتی عمل میں شامل کرنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ پوشیدہ بیک چینلز کی بجائے پارلیمانی ایوانوں میں شفاف طریقے سے حقیقی بحث اور اتفاق رائے سے پاکستان کی انڈین پالیسی پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کرے۔ بیک چینل کو کسی خفیہ معاہدے کے لیے نہیں بلکہ باہمی بداعتمادی اور خدشات کو دور کرکے معمول کے سفارتی ذرائع کی بحالی اور دو متحارب ہمسایوں کے مابین اچھی ہمسائیگی پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ نوازشریف دوسرے معاملات کے علاوہ بھارت کی سیاچن پر غیرقانونی کارروائی اور مقبوضہ کشمیر میں جاری اس ’’آبی دہشت گردی‘‘ کو فراموش نہیں کرسکتے جس کے تحت وہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی دریائوں پر ڈیم اور آبی ذخائر تعمیر کررہا ہے۔ خود تجارت پر مختلف النوع رکاوٹیں اور بندشیں موجود ہیں جو ہماری جانب سے معاملات کی درست آگہی، توجہ اور اصلاحی اقدام کی متقاضی ہیں تاکہ ہمارے اقتصادی اور صنعتی مفادات کا تحفظ ہوسکے۔ ابھی فریقین کو مساوی مواقع دستیاب نہیں ہیں۔ بھارت نے تاحال اپنی نان ٹیرف پابندیاں نہیں ہٹائیں۔ دونوں ملک اپنے مذاکرات میں بتدریج پیشرفت پر انحصار کرتے ہوئے باہمی اتفاق رائے سے ایسا طویل مدتی لائحہ عمل مرتب کرسکتے ہیں جو تصادم کو روکنے کے ساتھ ساتھ اسے حل کرنے اور تنازعات کا پرامن حل تلاش کرنے کی استعداد رکھتا ہو۔ آخری تجزیے میں بھارت کے ساتھ کسی بھی امن عمل کی کامیابی کا تمام تر انحصار سیاسی اندازِ نظر کی تازگی پر ہوگا، طرفین کی قیادت کو پرخلوص پیشرفت کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ کوئی جلد بازی کرنا ہوگی اور نہ کسی ایسے ’’آئوٹ آف باکس‘‘ حل کے پیچھے دوڑنا ہوگا جو اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہو یا جس سے ہماری طویل مدتی سلامتی اور تزویراتی مفادات پر زد پڑتی ہو۔ (کالم نگارسابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں