"SAC" (space) message & send to 7575

ہمارے ’’انوکھے لاڈلے‘‘

کتنی ستم ظریفی ہے کہ آزادی کے 65 برس بعد بھی ہماری اہلیت کا عالم یہ ہے کہ پاکستان کے بیس کروڑ باشندوں میں سے گورنر پنجاب کے رسمی سے منصب کے لیے کوئی مناسب فرد نہیں مل سکا اور ہمیں اپنے نوآبادیاتی دور کے آقائوں کی سرزمین سے ایک شخص کو درآمد کرنا پڑا۔ گلاسگو سے برطانیہ کے سابق رکن پارلیمنٹ چودھری محمد سرور کو پنجاب کا نیا ’’لاٹ صاحب‘‘ مقرر کیا گیا ہے۔ وہ اپنا برطانوی پاسپورٹ پہلے ہی واپس کر چکے ہیں جو یقیناً ان کی برطانوی شہریت کو متاثر نہیں کرتا۔ ہمارے سابق وزیر داخلہ اپنی سینٹ کی نشست برقرار رکھنے کے لیے بعینہ یہی ہنر آزما چکے ہیں۔ قانونی فہم و فراست کی حامل ہماری سپریم کورٹ اس امر کا تعین کرسکتی ہے کہ آیا غیر ملکی پاسپورٹ سے دستبرداری کا مطلب غیر ملکی شہریت ترک کرنا بھی ہوتا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہم بڑی چالاکی سے قوانین کو جُل دینے کے عادی ہوچکے ہیں۔ کیا یہ ہمارا روزانہ کا مشاہدہ نہیں کہ کچھ لوگ سرخ بتی پر رکنے کی بجائے بائیں جانب مڑ کر چھوٹا سا چکر کاٹتے ہوئے تیزی سے دوبارہ اسی سڑک پر آجاتے ہیں اور قانون پسند لوگ سبز بتی کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ لوگ ٹریفک قوانین اس لیے بھی توڑتے ہیں کہ وہ اپنے لیڈروں کو روزانہ قانون شکنی کرتے دیکھتے ہیں۔ اگر چودھری سرور اپنے آپ سے دہری شہریت کا لیبل اتار سکتے ہیں تو وہ اس عہدے کے لیے ضروری دوسرے آئینی تقاضوں کو بھی اسی طریقے سے پورا کرسکتے ہیں۔ برطانیہ سمیت ہر ملک کے سیاستدان اس طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں کسی گورنر کو وہ استثنیٰ حاصل نہیں جس سے ہمارے عنقریب سبکدوشی ہونے والے صدر نے سپریم کورٹ کے بار بار فیصلے صادر کرنے کے باوجود فائدہ اٹھایا۔ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ گورنر سرور کا اثر و رسوخ اور دوسرے اوصاف ملک اور عوام کے لیے سرمایہ ثابت ہوں گے۔ لیکن ہم یہ بھول رہے ہیں کہ ہمیں اس سرمائے کی یہاں کی نسبت برطانیہ میں زیادہ ضرورت ہے تاکہ وہاں رہ کر وہ ملک کے مفاد کے لیے اس سے کہیں بڑا کام کرسکیں۔ چودھری سرور برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے نہ صرف پاکستان کے تارکین وطن کے مفادات کا تحفظ کرتے رہے بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھا کر بھی عظیم خدمت انجام دیتے رہے۔ انہوں نے عراق پر جنگ مسلط کرنے اور غزہ کے معاملے پر سخت موقف اختیار کیا تھا۔ 2006ء میں وہ اس خط پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھے جنہوں نے ٹونی بلیئر کی خارجہ پالیسی کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ ان کا ایک علامتی عہدے کے لیے پاکستان لوٹنے سے ملک کو فائدے کے بجائے نقصان ہوگا۔ ہمیں اپنے چودھری سرور، لارڈ نذیر احمد، سر انور پرویز اور بیرونس سعیدہ وارثی جیسے تارکین وطن کی صرف برطانیہ نہیں بلکہ دوسرے مغربی ممالک میں بھی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی یہاں ضرورت نہیں کیونکہ وہ ملک میں رائج غلیظ سیاست اور کرپٹ کلچر میں ملوث ہو کر اپنی عزت اور آبرو کھو بیٹھیں گے۔ یہ درست ہے کہ وہ اثاثہ ہیں لیکن انہیں اُسی ملک میں رہ کر اپنے ملک کا اثاثہ بنے رہنا چاہیے جس کا انتخاب انہوں نے طویل عرصہ قبل کیا تھا اورجہاں رہ کر انہوں نے اپنا کیرئیر اور نمایاں مقام بنایا۔ ہم ان سب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور دوسرے پاکستانی تارکین وطن کو بھی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں۔ اگر دہری شہریت کے حامل پاکستانی واقعتاً خلوص دل سے ملک کی خدمت کرناچاہتے ہیں تو وہ ہندوستانیوں کی طرح دوسرے ملک کی سیاست، بزنس، ٹریڈ، میڈیا، سپورٹس اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں نمایاں مقام حاصل کرکے یہ کام زیادہ بہتر طریقے سے کرسکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارا ’’ڈبل شاہ کلچر‘‘ دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو دہرے مفادات کے حامل اعلیٰ عوامی عہدوں کے حصول کی دعوت دیتا رہتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ چودھری سرور کا برطانیہ میں سیاسی کیرئیر ختم ہوچکا ہے اور اب وہ اپنے اصل وطن میں ازسرنو سیاسی کیرئیر شروع کررہے ہیں۔ دراصل پاکستان میں لوٹ مار کی سیاست دہری شہریت کے حامل پاکستانی تارکین وطن کے لیے کشش کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارے کئی ’’انوکھے لاڈلے‘‘ باہر سے آکر وزیراعظم، وزیر اور قانون ساز بن کر ملک کی خدمت کر چکے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہوتا اور وہ حکمران پارٹی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہم نے 1990ء کے عشرے کے آغاز میں عالمی بنک سے نگران وزیراعظم ادھار لیا۔ پھر سٹی بنک سے ایک اور صاحب کو لے کر پہلے اسے وزیرخزانہ اور پھر وزیراعظم بنا دیا۔ دونوں بینکار اپنی غیر ملکی وفاداری کی شہرت رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی ملک کے لیے اثاثہ ثابت نہ ہوا۔ ہمارے طرز حکمرانی اور قومی کردار میں یقیناً کوئی خرابی ہے۔ جمہوری روایات اور اخلاقی اقدار کے سلسلے میں بے حسی کے حوالے سے ہمارا آئینی اور سیاسی رویہ مایوس کن رہا ہے۔ دہری شہریت سے متعلق آئینی شقوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ہم منقسم وفاداری کے حامل افراد کو عشروں سے ارکان پارلیمنٹ، وزیر اور دوسرے اہم عہدوں کے لیے منتخب کرتے رہے ہیں۔ مضبوط عدلیہ کی موجودگی میں یہ روش جاری نہیں رہ سکے گی۔ حال ہی میں ایوی ایشن کے بارے میں وزیراعظم کے مشیر کو نمایاں قابلیت کے باوجود دہری شہریت کی بنا پر مستعفی ہونا پڑا۔ قانونی اور اخلاقی طور پر دہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کو عرصہ دراز قبل رضاکارانہ طور پر چھوڑے ہوئے ملک کی پارلیمنٹ کی رکنیت یا عوامی نمائندگی کے عہدے کا امیدوار نہیں بننا چاہیے۔ کسی شخص کو ان کی قابلیت اور حب الوطنی پر شک نہیں‘ لیکن بیرونی ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے سے مفادات میں ٹکرائو پیدا ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی مرضی سے ایک ملک کا انتخاب کیا، اب وہاں سے ان کی واپسی قابل اعتراض عزائم کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ وہ اربوں ڈالر وطن بھیجتے ہیں، لیکن انہوں نے اسی مقصد کے لیے ملک چھوڑا تھا۔ اب وہ اپنا باعزت مقام ایک کرپٹ سسٹم کا حصّہ بننے کے لیے کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟ بھارت اپنے شہریوں کو دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود لاکھوں نان ریذیڈنٹ انڈینز (NRIs)کو اوورسیز سیٹیزن شپ آف انڈیا(OCI)کا خصوصی درجہ دیا جاتا ہے۔ انہیں بھارتی پاسپورٹ دیا جاتا ہے نہ ووٹ دینے کا حق مگر وہ اپنے وطن کے لیے زبردست اثاثہ ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے ملک میں بھاری رقوم بھیجتے ہیں بلکہ تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں۔ وہ جن ممالک میں رہتے ہیں وہاں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے قابل قدر فرزند اور بیٹیاں جو اپنی محنت کے بل بوتے پر بیرون ملک منتخب اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان اور با اثر عہدوں پر فائز ہیں، یہ سوچیں کہ وہ مفادات اور وفاداری میں تضاد پیدا کیے بغیر بھی اپنے اصل وطن کی خدمت کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو کسی بھی وجہ سے واپس آ رہے ہیں، ان کے تمام القابات ختم ہو جائیں گے۔ وہ اس ملک کے اداروں اور اثاثوں کے ساتھ کھلواڑ کر کے بھاگ جائیں گے یا پھر لوٹ مار اور اختیارات و مراعات کے گلے سڑے کلچر کی دلدل میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں