افغانستان کے صدر حامد کرزئی‘ 2014ء کے آخر تک نیٹو افواج کی واپسی اور افغانستان میں تبدیلی کے نہایت اہم مرحلے پر پاکستانی قیادت سے بات چیت کرنے کے لیے پیر کے دن اسلام آباد میں تھے۔ امید ہے کہ یہ تبادلہ خیال اعلیٰ ترین سطح پر عموماً ہونے والی رسمی باتوں تک محدود نہیں رہا ہوگا اور ہماری طرف سے محض یہ کہنے پر اکتفا نہیں کی گئی ہوگی کہ ہم تاریخ کے اس اہم موڑ پر افغانستان کی حمایت جاری رکھیں گے۔ افغانستان کے مستقبل سے متعلق پاکستان کے کردار کے بارے میں کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ دنیا کے کسی دوسرے ملک کو ایک آزاد‘ متحد اور بیرونی اثر سے آزاد افغانستان کے ساتھ ہم سے زیادہ گہری دلچسپی اور واسطہ نہیں ہوسکتا۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر ہیں اور وہ اسے نہ صرف افغانستان بلکہ چین کی مغربی سرحد سے وسطی ایشیا اور جنوبی مغربی ایشیا بشمول ایران سے خلیج تعاون کونسل کے ممالک (بحرین، کویت اومان، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات) تک کے وسیع خطے کے امن و استحکام کے لیے بڑی اہمیت کا حامل سمجھتی ہے۔ لہٰذا ہمیں وہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے جو ہم افغانستان میں حقیقی امن کے قیام کے پورے عمل کے دوران ادا کرسکتے ہیں۔ یہ پورا خطہ بھی 2014ء کی تبدیلی کے بعد کے لیے اپنے آپ کو تیار کررہا ہے۔ بلاشبہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایشیاء کے جغرافیائی اور سیاسی حالات میں بے پناہ تبدیلی آچکی ہے۔ 1988ء میں سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد نہ صرف ایک کمزور روس باقی بچا بلکہ وسطی ایشیا، آذر بائیجان اور کاکیشیا میں نئی آزاد ریاستیں وجود میں آنے سے ایشیا کا سیاسی نقشہ بھی تبدیل ہوگیا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ سرد جنگ کے بعد بھی ایشیا کا بیشتر حصہ عالمی سطح پر تپش زدہ اور مشرق و مغرب کی غیر علانیہ رقابت کی جولانگاہ بنا ہوا ہے۔ گویا سرد جنگ تو ختم ہوچکی ہے لیکن ’’سرد جنگجو‘‘ بدستور کمین گاہوں سے باہر مورچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ پُراسرار یک قطبیت پوری عالمی برادری پر خود اپنی سکیورٹی کے چیلنج اور مسائل مسلط کررہی ہے۔ طاقت کے زور پر تیل اور گیس کے حصول کے بڑے کھیل نے پہلے ہی عالمی امن و سلامتی کے لیے سنجیدہ مسائل پیدا کر دیے ہیں جن کے نتیجے میں ایشیا کا بہت بڑا حصہ کشیدگی اور عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ عالمی برادری کی طرف سے متحد ہو کر اس چیلنج کا سامنا کرنے میں ناکامی سے اس صورتحال میں مزید شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ امن و سلامتی کے بڑے معاملات پر عالمی اتفاق رائے نظر آتا ہے نہ ان سے نمٹنے کے طریق کار پر۔ بین الاقوامی نظام کو اب یقیناً ایک توازن کی ضرورت ہے جو چین، یورپی یونین اور شاید دوبارہ ابھرنے والے روس کی شکل میں نئی کثیر قطبیت سے پیدا ہو‘ لیکن یہ ایک طویل سفر ہے۔ اگرتاریخ سے کوئی سبق حاصل کیا جاسکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ حالات کبھی جامد نہیں رہتے۔ ہمہ وقت تغیر بپا رہتا ہے کیونکہ دنیا اور اس کی حرکیات کا یہی تقاضا ہے۔ اس ردوبدل کا سبب جادوئی قوتیں بنتی ہیں نہ خوش قسمتی یا بد قسمتی کا باعث بننے والے غیر مرئی عوامل؛ بلکہ یہ تبدیلی کے اس ناگزیر عمل کا نتیجہ ہوتا ہے جو ہمیشہ سے اقتدار کے عروج و زوال کی حکمت میں مضمر ہوتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے، عروج و زوال کے ادوار طویل جنگوں کے بعد آتے ہیں۔ افغانستان میں بارہ سالہ جنگ اختتام کے قریب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ شاید افغان جنگ کا اختتامی مرحلہ تبدیلی کا نقطہ آغاز ثابت ہو۔ لیکن ہم اس طویل جنگ کے اختتام پر کیسی تبدیلی کی توقع کرتے ہیں؟ میں پھر کہوں گا، اگر تاریخ سے کوئی سبق حاصل کیا جاسکتا ہے تونپولین کی جنگوں (1803 ء سے 1815ء تک نپولین کی فرانسیسی سلطنت اور اس کے مخالف اتحاد کے مابین ہونے والی جنگیں) کے علاوہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے خاتمے کے نتائج پر غور کرنا چاہیے۔ ہر جنگ کے فاتحین نے اپنی کامیابیوں سے حاصل کردہ مفادات کے تحفظ کے لیے قیام امن کو یقینی بنایا۔ کیا ہم یہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ افغان جنگ کے اختتام پر فاتح کون ہوگا؟ بس امید رکھنی چاہیے کہ کوئی ابتری پیدا نہیں ہوگی۔ ابھی تک فضا پر منحوس بے یقینی چھائی ہوئی ہے‘ جس میں ما بعد 2014ء کے منظر نامے میں خوشی اور اطمینان کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ خود واشنگٹن میں یہی قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ یہ خطہ ایک بار پھر تہہ و بالا ہونے کے دور سے گزرنے والا ہے۔ بدقسمتی سے ، افغانستان کی پوری جنگ کے دوران فوجی تاریخ کے اس بنیادی سبق کو نظرانداز کردیا گیا کہ آپ اُس وقت تک جنگ شروع نہ کریں جب تک آپ یہ نہ جانتے ہوںکہ اسے ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم اس وقت تک‘ واشنگٹن 2014ء کے آخر تک افواج کی واپسی کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ اس کے پاس نہ توکوئی مذاکراتی لائحہ عمل ہے اور نہ ہی اُس کے پاس جنگ ختم کرنے کے بعد قیام امن کا کوئی فارمولا ہے۔ دراصل یہ جنگ چھیڑنا ہی ایک غلطی تھی۔ امریکہ نے طالبان کو اقتدار سے تو نکال دیا لیکن انہیں شکست نہ دے سکا۔ بارہ برس کے بعد وہ تزویراتی طور پر اتنا زچ ہوچکا ہے کہ وہ افغانستان سے واپس جارہا ہے لیکن مکمل طور پر نہیں، وہ افغان فوج کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کے لیے مناسب حد تک اپنی فوج وہاں رکھنا چاہتا ہے۔ افغان تاریخ سے واقفیت رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس سرزمین پر کسی بھی قسم کے انتظام یا نام کے تحت غیر ملکی افواج کی موجودگی کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اس لیے 2014ء کے آخر میں افغان جنگ کے اختتام کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے اس کے بارے میں لازمی طور پر حقیقت پسندانہ نقشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ امریکہ کے ’’ایشیائی تصور‘‘ کے تحت مشرقی ایشیا کی سلامتی کا نظام تبدیلی کے مرحلے میں ہے جبکہ ہمارے خطے کی سلامتی کا نظام بھی اگرچہ تاحال امریکہ ہی کے زیراثر ہے لیکن اس میں چین کی تیز رفتار اقتصادی، سیاسی اور فوجی ترقی کے نتیجے میں بتدریج توازن پیدا ہورہا ہے۔ چین اس خطے اور عالمی استحکام کا بہت بڑا عامل بن کر ابھر رہا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران چین اور روس کے مابین بھی قربت پیدا ہوئی جس کا سبب ان کا یہ احساس تھا کہ امریکہ کا تزویراتی اثر ورسوخ ان کے پچھواڑے تک آن پہنچا ہے۔ گزشتہ برس بیجنگ میں شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن (SCO) کا جو سربراہی اجلاس ہوا اس میں علاقائی سلامتی کو مضبوط بنانے اور عالمی چیلنجوں کا مل کر مقابلہ کرنے کا عزم کیا گیا۔ لیکن کسی کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کی سب سے بڑی مشترکہ تشویش روز افزوں اسلامی بنیاد پرستی اور اس خطے میں اس سے رسنے والے اثرات ہیں جو ان کی آبادیوں میں نفوذ کررہے ہیں۔ انہیں خطے کے عدم استحکام اور اس میں دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے رجحانات پیدا ہونے پر گہری تشویش ہے۔ اس میں کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ مذکورہ سربراہی اجلاس نے شنگھائی تعاون تنظیم کو ایک روایتی قسم کی علاقائی سلامتی کی جہت سے روشناس کرایا جس کا مرکزی نقطہ مختلف خطوں کے مابین سلامتی کے خطرات سے اپنے خطے کو محفوظ بنانا تھا۔ یقیناً ایشیا کا یہ حصہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے لیکن اس مرحلے پر شنگھائی تعاون تنظیم کا خطے کے ایک سکیورٹی بلاک کے طور پر ابھرنا فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔ حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے۔ البتہ چین اور پاکستان اپنی جغرافیائی و سیاسی یکسانیت اور تزویراتی مفادات میں بے مثال اشتراک کی بدولت ایسی فطری پارٹنرشپ قائم کرسکتے ہیں جو 2014ء کے بعد علاقائی امن و سلامتی میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس مفروضے کو کئی چیزیں تقویت دیتی ہیں۔ چین کو امریکہ کے اُس ایشیائی ایجنڈے پر تشویش ہے جس میں چین کے خلاف اضافی تزویراتی دبائو کے حالات پیدا کرنا شامل ہے۔ مثال کے طور پر کرغیزستان اور افغانستان میں غیر ملکی افواج متعین کرنا اور بھارت سمیت چین کے قریب ترین ہمسایہ ممالک کے ساتھ فوجی اتحاد قائم کرنا‘ دریں حالیکہ بھارت اپنے آپ کو جوہری اسلحے اور فوجی قوت کے اعتبار سے چین کے خلاف تیار کررہا ہے۔ ایک اور اضافی عنصر چین اور پاکستان کے خصوصی تعلقات ہیں جو اپنی مضبوط تزویراتی جہت کی بدولت نہ صرف باہمی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں بلکہ ہمارے خطے کے استحکام اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس خطے میں جیسے جیسے تبدیلی کی ہوائیں چلیں گی، چین اور پاکستان دونوں کو اپنے تزویراتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی نئی راہیں دیکھنا ہوں گی۔ ان کے باہمی تعاون کو پہلے ہی پاکستان کے ساحلی پٹی کو شمال مغربی چین سے ملا کر ’’اکنامک کاریڈور‘‘ کے قیام سے ایک وسیع تر علاقائی جہت دی جارہی ہے۔ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد کھیل کا رخ بدلنے (Game Changer) کی حیثیت اختیار کر لے گا کیونکہ یہ ان دو ملکوں کے علاوہ خطے کے دوسرے ملکوں کے مابین اقتصادی اور تجارتی تعلقات استوار کرنے کی سہولت بھی فراہم کرے گا۔ افغانستان سے امریکہ کے انخلا یعنی 2014ء کے بعد کی صورتحال کے لیے چین اور پاکستان کو ایک مشترکہ علاقائی حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے تزویراتی مذاکرات پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوگی۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)