افغان بحران کی جڑیں سوویت افغان جنگ سے جنم لینے والی صورت حال میں ہیں۔ نائن الیون کاسانحہ گزشتہ صدی سے جاری اس تصادم کا محض تتمّہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی نہ کسی وجہ سے طویل افغان بحران کو حل کرنے کے مواقع ضائع کیے جاتے رہے۔ اگر سوویت یونین کے انخلاء کے بعد کی صورتحال سے احتیاط اور خوش تدبیری سے نمٹا جا تا اور اسے مرحلہ وار‘ عالمی معیارات کے مطابق ڈھلنے میں مدد دی جاتی تو اُن ناگوار حالات سے بچا جا سکتا تھا جن سے آج یہ ملک دوچار ہے۔
افغان المیے کے صرف افغان باشندے ہی شکار نہیں ہوئے‘ پاکستان کئی اعتبار سے کہیں زیادہ متاثر ہُوا... اسے مہاجرین کو پناہ دینے‘ اقتصادی اور معاشرتی بوجھ برداشت کرنے‘ دہشت گردی کا نشانہ بننے اور افغان سرحد کے قریبی علاقوں میں خونریز تصادم کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان منشیات اور اسلحے کے عذاب میں بھی مبتلا ہو گیا جسے عموماً ''کلاشنکوف کلچر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ عنصر ملک کے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کو مسلسل تہہ و بالااورشروع سے اب تک پاکستان کے سماجی‘تہذیبی‘ سیاسی‘اقتصادی اور تزویراتی مفادات پر براہِ راست اثر انداز ہو رہا ہے۔
اس حقیقت کا اعتراف امریکی صدر اوباما کی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی کانگرس میں دیے گئے بیان میں کیا تھا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان جن مسائل کا شکار ہے‘ان کے پیدا کرنے میں امریکا کا بھی حصّہ ہے۔ انہوں نے کہا: ''ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج جن لوگوں کے ساتھ ہم جنگ کر رہے ہیں‘بیس برس قبل ہم ہی نے انہیں فنڈز فراہم کیے تھے اور ہم نے یہ سوویت یونین کے خلاف ایک مہم میں پھنسے ہونے کی وجہ سے کیا۔ سوویت یونین کے حوالے سے یہ ایک مضبوط دلیل ہے کہ ہم نے بُری سرمایہ کاری نہیں کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو بویا تھا‘‘۔
واشنگٹن اس حقیقت سے واقف ہے۔ امریکی نائب صدر جوبائیڈن معترف ہیں کہ پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں کوئی بھی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو گی۔ اب وقت ہے کہ واشنگٹن اس امر کا بھی ادراک کرے کہ اگر اس خطے اور پاکستان کا استحکام لازم و ملزوم ہے تو پھر یہاں انتہا پسندی کے خاتمے اور پاک بھارت مساوات میں عدم توازن دور کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے۔ آنجہانی رچرڈ ہالبروک نے اپنی زندگی کے آخری ایاّم میں واشنگٹن کو یہی مشورہ دیا تھا۔ وہ پاکستان کو افغان ایشو کا ''سنٹر سٹیج‘‘ قرار دیتے تھے‘ ان کے نزدیک پاکستان میں امن و استحکام کو اوّلین ترجیح دی جانی چاہیے۔
انہوں نے بجا طور پر واشنگٹن پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ تعاون بڑھائے‘قبائلی علاقوں میں استحکام لانے کے لیے ان کی مدد کرے اور پورے ملک میں اقتصادی ترقی کے مواقع فراہم کرے۔لیکن افسوس‘کسی نے ہالبروک کی نصیحت پر توجہ نہ دی اور وہ اضطرابی کیفیت میں انتقال کر گئے۔ادھر امریکا کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاکستان‘ جس کے معاشرتی اور اقتصادی حالات پہلے ہی دگرگوں ہیں‘مسلسل بھاری نقصان اُٹھاتا چلا آ رہا ہے۔آج دُنیا میں یہ واحد ملک ہے جو اپنی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کے خلاف ایک مکمل جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ کے باعث ایک طرف پاکستانی عوام ذہنی صدمے سے دوچار ہیں اور دوسری جانب اس کی فوج ہر طرح کے نقصانات برداشت کر رہی ہے۔
چند برسوں سے امریکا فوجی مداخلت اور قبائلی علاقوں پر ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کو ہدف بنا رہا ہے۔ اس کے پاکستان کی اجتماعی ذہنیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی بھارت کے حوالے سے لاحق سکیورٹی خطرات کے سلسلے میں امریکا کی لاپروائی سے پریشان ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے لوگ اپنے جنگ زدہ ملکوں میں قیام امن کا استحقاق رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس جنگ کے جلد ختم ہونے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ امریکا اور نیٹو ممالک کے لوگ اس جنگ سے تنگ آ چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی افواج جلدازجلد واپس آ جائیں۔
2014ء جس کا عرصہ دراز سے انتظار کیا جا رہا تھا‘آن پہنچا ہے۔ امریکا اس سال کے آخر میں افغانستان سے نکلنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہو گا لیکن ابھی تک اس ضمن میں اس کی مذاکراتی حکمت عملی کے آثار نظر آ رہے ہیں نہ جنگ بند کرنے کے لیے امن کا کوئی منصوبہ۔ دراصل یہ ایک غلط جنگ تھی‘ اس سے طالبان کا اقتدار تو ختم ہو گیا لیکن انہیں شکست نہ دی جا سکی۔ بارہ سال کے بعد بھی امریکا اس جنگ کا ایک تزویراتی خاتمہ چاہتا ہے جس کے تحت وہ افغانستان سے افواج نکال لے مگر مکمل طور پر نہیں‘ وہ مخصوص تعداد میں پیچھے فوج چھوڑ کر جانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ لیکن جو لوگ افغان تاریخ سے واقف ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ بیرونی افواج کے ان کی سرزمین پر موجودگی کا کیا مطلب ہو سکتا ہے‘ چاہے اُس کا کوئی بھی مقصد اور نام ہو۔ یہ بات طے ہے کہ افغانستان میں امریکی افواج کی موجودگی 2014ء کے بعد والے منظر نامے کو لازمی طور پر پیچیدہ بنائے گی۔
اس حکمت عملی کے نتیجے میں طالبان کو اپنی جنگ جاری رکھنے کی ترغیب ملے گی۔ دراصل مختلف جنگی حالات‘مختلف نوعیت کے اقدامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ عراق میں ''انبار‘‘ والا نمونہ افغانستان میں کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ کوئی بھی ایسا منصوبہ جو طالبان مخالف حکمت عملی اپناتے ہوئے مختلف افغان گروہوں میں تصادم پیدا کر دے‘ مفاہمت کے عمل کو شدید نقصان پہنچائے گا اور یہ بدقسمت ملک ایک بار پھر تباہ کن خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔یہ ایک خطرناک غلطی ہو گی جس کے سنگین نتائج سے افغانستان اور پاکستان دونوں نہیں بچ پائیں گے۔
افغانستان میں دیرپا امن صرف تمام افغان گروپوں کی ایسی مفاہمت سے قائم ہو گا جس میں کسی کو نہ ترجیح دی جائے اور نہ ہی اس عمل سے کسی کو خارج کیا جائے۔امن عمل کی قیادت خود افغانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے یعنی اس میں افغان حکومت اور مختلف افغان گروپوں خصوصاً طالبان کی شمولیت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ تبدیلی کے عمل میں افغانستان کی ہئیتِ ترکیبی کے حقائق کو نظر انداز نہ کیا جائے‘ یعنی کسی خاص نسلی یا لسانی گروپ کی طرف داری کی جائے نہ مخالفت۔افغانستان کے سمجھوتے کے لیے باہمی اعتماد اور اچھی ساکھ کی فضا درکار ہو گی۔ اس کی ضمانت صرف اس صورت میں دی جا سکتی ہے کہ امن عمل اقوام متحدہ کی نگرانی میں مکمل کیا جائے اور اس میں عالمی ادارے کے پانچ مستقل ارکان کے علاوہ افغانستان کے ان ہمسایہ ممالک کوبھی شامل کیا جائے جو افغانستان کے اچھے یا بُرے حالات سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔
بہتر ہو گا کہ جب افغان گروپ حکومت سازی کے سمجھوتے کی جانب پیش قدمی کا آغاز کریں‘ اقوام متحدہ خطے میں اس کے ہمسایہ ممالک اور عالمی برادری کو قیام امن کے معاملات طے کرنے کے عمل میں شامل کرلے۔ بین الاقوامی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ انسداد دہشت گردی کے خاتمے کے لیے معاونت فراہم کرے۔
خطے کے ممالک کی باہمی دشمنیاں‘ تصادم کی آگ بھڑکا سکتی ہیں یعنی حریف ممالک افغانستان کے باہم متصادم گروپوں کا ساتھ دے کر اندرونی تصادم کو ہوا دے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان پہلے ہی اس کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ لہٰذا افغانستان کو مثبت اور منفی دونوں معنوں میں مکمل طور پر ''غیر جانبدار‘‘ رکھنے کی ضمانت فراہم کرنا ہو گی جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی حمایت حاصل ہو۔
الغرض‘افغانستان کا حتمی سمجھوتہ بین الاقوامی ضمانتوں کے ساتھ ہونا چاہیے جن کی بنیاد اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل اصول اور اغراض و مقاصد ہوں یعنی آزادی‘خود مختاری اور علاقائی سالمیت۔ امن سمجھوتے کو دیرپا بنانے کے لیے بین الاقوامی وسائل بھی درکار ہوں گے۔ اس مقصد کے لیے اس کے اقتصادی ‘معاشرتی اور علاقائی امن پر گہری توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)