صدر اوباما نے گزشتہ مہینے اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اپنی قوم کو یہ مژدہ سنایا کہ امریکہ کی طویل ترین جنگ اس سال کے آخر تک تمام ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا: ''جب میں نے اقتدار سنبھالا تھا تو ایک لاکھ اسی ہزار امریکی عراق اور افغانستان میں برسرِ پیکار تھے‘ آج عراق سے تمام اور افغانستان سے ساٹھ ہزار سے زائد فوجی واپس آ چکے ہیں‘‘۔ ان کے بقول اب افغان فورسز اپنی سکیورٹی کی ذمہ داریاں خود انجام دے رہی ہیں‘ اب امریکہ اور نیٹو کی مختصر فورس افغانستان میں رہ کر معاونت کا کردار نبھائے گی جس میں تربیت کی فراہمی اور انسداد دہشت گردی کا مشن شامل ہو گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی مگر ہمارا یہ عزم نہیں بدلے گا کہ دہشت گرد ہمارے ملک کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں۔ 2014ء کے بعد جب افغانستان اپنے مستقبل کی ذمہ داری سنبھالے گا تو ہم ایک متحدہ افغان ریاست کی حمایت کریں گے۔ امریکہ کی طرف سے ان یقین دہانیوں کے دوران اس مجوزہ معاون مشن کے حجم اور حیثیت کے بارے میں غیریقینی فضا پیدا ہو رہی ہے جو انخلا کے بعد افغانستان میں رہے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر حامد کرزئی کی طرف سے سکیورٹی کے دوطرفہ معاہدے (Bilateral Security Agreement) پر دستخط کرنے سے انکار کی وجہ سے واشنگٹن انخلا کے منصوبے پر نظرثانی کر رہا ہے۔
بظاہر‘ انخلا کے منصوبے پر نظرثانی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اب واشنگٹن حامد کرزئی کو افغان مسئلے کے ''حل‘‘ کا حصہ نہیں سمجھتا اور توقع کر رہا ہے کہ دوطرفہ معاہدے (بی ایس اے) پر دستخط افغان صدارتی انتخابات کے بعد ہی ہوں گے؛ چنانچہ سیاسی اعتبار سے جاری بے یقینی کی اس صورت حال میں کہ آیا دسمبر کے بعد غیرملکی فوجی دستے افغانستان میں مقیم رہ پائیں گے یا نہیں‘ اس طرح کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے کہ آنے والے موسم گرما میں اتنی تعداد میں افواج متعین کی جائیں جو 2014ء کے بعد مطلوبہ کردار ادا کر سکیں اور اگر بی ایس اے پر دستخط نہیں ہوتے تو انہیں سال کے اختتام پر مختصر نوٹس پر واپس بلایا جا سکے۔ گویا دونوں حالتوں کے پیش نظر انخلا کے منصوبے میں زیادہ سے زیادہ لچک رکھی جا رہی ہے‘ یعنی اس سال کے بعد افغانستان میں مطلوبہ سطح تک فوج رکھی جا سکتی ہے اور کوئی ناگہانی صورت حال پیش آنے پر زیرو لیول آپشن کی گنجائش بھی موجود رہے گی۔
نظرثانی شدہ فوجی منصوبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب امریکہ افغان صدر حامد کرزئی پر کم از کم انحصار کر رہا ہے۔ اس کی وجہ کرزئی کا مجوزہ بی ایس اے پر دستخط کرنے سے انکار اور ان کی طرف سے واشنگٹن کے خلاف بیانات ہیں۔ دبائو ڈالنے کی چال کے تحت امریکی حکام یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر کرزئی نے نرم رویہ اختیار نہ کیا تو صدر اوباما افغانستان سے افواج کے مکمل انخلا کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات ایک طرح کا اعتراف بھی ہے کہ کرزئی بی ایس اے پر دستخط نہیں کریں گے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپریل میں صدارتی انتخابات کے بعد نیا صدر بھی اس معاہدے پر دستخط نہ کرے۔
افغانستان کے سیاسی منظرنامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدارتی انتخاب میں کوئی امیدوار پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر پائے گا‘ لہٰذا دوسرا انتخابی مرحلہ ناگزیر ہو جائے گا جس کا مطلب یہ ہوگا کہ نئی حکومت اگست سے پہلے برسراقتدار نہیں آ پائے گی۔ صدارتی الیکشن میں حصہ لینے والے بیشتر امیدوار بی ایس اے پر واضح مؤقف ظاہر کرنے سے کترا رہے ہیں کیونکہ کرزئی نے اس ضمن میں جو مضبوط قومی مؤقف اختیار کر رکھا ہے‘ اس سے مختلف نقطۂ نظر انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔ واشنگٹن اس غیرواضح صورتحال کا اسیر نہیں بننا چاہتا‘ لہٰذا وہ ہر طرح کے حالات کے لیے خود کو تیار رکھے گا اور اگر وہ اس امید میں اضافی وقت حاصل کرتا (یا شاید ضائع کرتا) ہے کہ نیا صدر بی ایس اے پر دستخط کر دے گا‘ افغانستان کی صورتحال بدستور مخمصے کا شکار اور غیر یقینی رہے گی۔
ادھر اوباما انتظامیہ بھی مستقبل کے بارے میں اختلافات کی زد میں ہے۔ نائب صدر جو بائیڈن اس سال کے اختتام تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر 2014ء کے بعد افغانستان میں فوجی موجودگی ناگزیر ہو جائے تو اس کی تعداد اس سے کہیں کم ہونی چاہیے جو وزیر دفاع چک ہیگل کی سربراہی میں پینٹاگان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ تجویز کر رہی ہے۔ دوسری جانب سی آئی اے مکمل انخلا کا مخالف ہے اس لیے کہ وہ پاکستان میں القاعدہ پر ڈرون حملوں اور خطے میں جوہری بحران سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں ہوائی اڈوں پر کنٹرول جاری رکھنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوباما کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے ان دونوں اداروں کے نقطہ نظر کا احتیاط سے جائزہ لے رہے ہیں۔
اس دھندلی صورتحال میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ فوجی تاریخ کا ایک بنیادی سبق ہے جسے افغان جنگ میں واشنگٹن نے نظر انداز کیا... آپ اس وقت تک جنگ شروع نہ کریں جب تک یہ نہ جانتے ہوں کہ اسے ختم کیسے کرنا ہے۔ امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کیا اور اسے '' دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا نام دیا جسے اب محض ''تزویری اور قانونی انحراف‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس جنگ سے طالبان اقتدار سے محروم تو ہو گئے لیکن انہیں شکست نہ دی جا سکی۔ بارہ برس بعد واشنگٹن افغانستان سے نکلنا چاہ رہا ہے اور وہ اسے ایک ایسے سٹریٹجک انجام کا رنگ دینے کا متمنی ہے کہ وہ یہاں سے چلا جائے مگر مکمل طور پر نہیں۔ جو لوگ افغان تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ افغان سرزمین پر غیرملکی فوج کی موجودگی کا کیا مطلب ہوتا ہے۔
غیرملکی افواج کی افغانستان میں موجودگی لازمی طور پر 2014ء کے بعد کے منظرنامے کو پیچیدہ بنائے گی‘ یہ ملک کے اندر سیاسی تصادم بڑھائے گی جس سے نہ صرف افغان عوام متاثر ہوں گے بلکہ پاکستان کے عوام پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔ افغانستان اور پاکستان دونوں کو امن درکار ہے۔ دونوں ملک مزید نیابتی جنگوں (Proxy wars) کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ افغان جنگ اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچی بلکہ یہ چین کے عقب میں واقع وسیع خطے میں پوشیدہ خطرات کے باعث اختتام کو پہنچائی جا رہی ہے کیونکہ یہاں ایک بڑی طاقت کی پشت پناہی سے بڑا کھیل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ اس سال کے آخر تک امریکی انخلا اور افغان جنگ ختم ہونے کے ساتھ قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل کے بارے میں کچھ سنائی نہیں دے رہا۔ دو برس سے ہم صرف اتنا سن رہے ہیں کہ افغان سکیورٹی کا مکمل کنٹرول افغانوں کے پاس ہو گا۔ افغانستان کی مخصوص صورتحال میں اس تبدیلی کی بات کرنا آسان مگر اسے عملی جامہ پہنانا نہایت دشوار ہے۔ یہ ملک کافی بڑا ہے‘ اس میں مختلف نسلوں کے لوگ آباد ہیں اور پوری آبادی انتہائی مسلح ہے۔ اس پس منظر میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ 2014ء کے بعد والے افغانستان پر بے یقینی کے خوفناک بادل چھائے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں افغانستان میں امن کے بارے میں جذباتی توقعات وابستہ کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
کچھ بھی ہو‘ اس وقت ہمارے لیے امن کا مطلب جنگ نہ ہونے سے زیادہ نہیں۔ ضروری نہیں جو ملک دوسرے ملکوں سے برسرپیکار نہیں وہ لازمی طور پر پرامن ہیں‘ حقیقی امن کا مطلب دو ملکوں کے مابین فوجی تصادم کے حوالے سے ماورا ہو چکا ہے۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے اندر بھی امن اور ہم آہنگی ہو۔ پاکستان اورافغانستان کو اسی امن کی شدید ضرورت ہے۔ کسی کو یہ بات پسند آئے یا نہ آئے لیکن پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت اسے افغانستان میں حقیقی امن کے قیام میں منفرد کھلاڑی کا مقام دلاتی ہے۔
ایک آزاد‘ متحد اور دوست افغانستان جو ہر طرح کے بیرونی تسلط سے نجات یافتہ ہو ہمارے مفاد میں ہے۔ ہمیں اس مقصد کے حصول کے لیے افغانستان میں مفاہمت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیا ہمارے پاس ایسا کردار ادا کرنے کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی یا منصوبہ ہے؟ اگر ایسا نہیں تو یاد رکھیے کہ اب شتر مرغ والی پالیسی سے کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اپنے قائد کے اس قول پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ ''اندرونی امن ہی بیرونی امن کا ضامن ہے‘‘ ہمارے لیے اپنے ملک کے اندر امن قائم کیے بغیر افغانستان میں امن کی توقع کرنا عبث ہے۔ ہمیں مزید وقت ضائع کیے بغیر اپنی ترجیحات کا تعین کر لینا چاہیے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)