اس سال ملک کی تمام چھائونیوں میں پانچواں یوم شہداء منایا گیا‘ جس سے ایک خاص مقصد پورا ہوا۔ 2010ء سے ہر برس قوم اپنے ان شہداء کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی مادر وطن کے لیے جان کے نذرانے پیش کیے۔ ان تقریبات کا اس سے بھی ایک بڑا مقصد قوم کو خود فراموشی کی کیفیت سے نکالنا اور اسے بیدار و ہوشیار کرنا تھا‘جو اپنے وجود اور بقا کے بارے میں شرمناک حد تک بے حس ہو چکی ہے۔
میں یادگارِ شہداء لاہور پر منعقدہ اس تقریب میں شریک ہوا جس میں شہداء کے خانوادوں‘ مسلح افواج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسروں و جوانوں‘ ارکان پارلیمنٹ‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت ہزاروں افراد موجود تھے۔ یہ تمام لوگ تین گھنٹے سے زیادہ ہمہ تن گوش ہو کر قوم کے سپوتوں کی بہادری کے کارنامے سنتے رہے اور اپنے قلب و روح کو اُس جذبے سے گرماتے رہے‘ جس کی قوم کو آج بہت ضرورت ہے۔ واقعتاً یہ ایک سنجیدہ اور باوقار تقریب تھی‘ جس میں نہ صرف شہداء کی عظیم قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا بلکہ اس سے شہداء کے خاندانوں کے احساسِ عزم و تفاخر کا حصہ بننے کا موقع بھی ملا۔ تقریب میں شریک ہر شخص شدتِ جذبات سے مغلوب تھا اور ہر ایک کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔
ذاتی طور پر میرے لاشعور میں مہاجرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی اُس ٹرین کی فلم چلنے لگی‘ جو 1947ء میں بھارت سے نوزائیدہ ملک پاکستان آئی تھی اور جس میں میرا خاندان بھی تھا (اس وقت میں ایک چھوٹا بچہ تھا) اس ٹرین پر سوار سینکڑوں لوگ، باقی لاکھوں افراد کی طرح اپنے گھر بار‘ زمینیں اور اپنے آبائواجداد کی ہزاروں برس پرانی تاریخ چھوڑ کر ایک نئی اور عظیم تر قومی شناخت میں ضم ہونے کے لیے سفر کی صعوبتیں جھیل رہے تھے۔ اُس وقت کوئی بھی قربانی آزادی سے زیادہ قیمتی نہیں تھی۔ اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ لاکھوں دوسرے خاندانوں کی طرح میرے خاندان نے بھی پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ اُن دنوں کے کئی خوفناک واقعات اور تکلیف دہ تجربات آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہیں۔ وہ لمحات میں کبھی نہیں بھول سکتا جب ہماری ٹرین پاکستان کی سرحد میں داخل ہونے کے بعد ہربنس پورہ ریلوے سٹیشن پر رُکی تو اس میں سوار ہر شخص نے بے ساختہ ''اللہ اکبر‘‘ اور ''پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کرنا شروع کر دیے۔ زندگی کے ان پُرآشوب حالات میں‘ جب ہمارا تین مہینوں پُرخطر سفر تمام ہوا تو ہر آنکھ سے خوشی کے آنسو رواں تھے۔ یوم شہداء کی تقریب میں جب میں نے اپنے چاروں طرف قلب و روح کو پگھلا دینے والی یادوں کی بازگشت سنی تو اپنے آپ سے پوچھا: بحیثیت قوم ہمارے ساتھ کیا ہوا؟
حقیقت یہ ہے کہ ایک قوم بھی فرد کی طرح نمُو پذیر وجود کی طرح زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتی ہے۔۔۔۔ پیدائش کے بعد طفلی کا بھولا بھالا زمانہ‘ پھر لڑکپن جو شناخت کے بحران کا وقت ہوتا ہے اور پھر بھرپور جوانی اور بلوغت کی منزل! اگر ان مراحل سے گزرتے ہوئے کسی قوم کی نشوونما صحیح طور پر نہ ہو سکے یعنی اس کے ادارے مضبوط نہ ہو پائیں‘ اس کی سیاسی‘ اقتصادی‘ معاشرتی اور اخلاقی بنیادیں کمزور رہ جائیں تو وہ رُو بہ زوال ہو جاتی ہے۔ ان مراحل میں سے کچھ کا تعلق حکومت کی پالیسیوں‘ ترجیحات اور طرزِ حکومت سے ہوتا ہے‘ کچھ کا قیادت کی اچھی یا بری کارکردگی سے اور کچھ کا اُس قوم کے لوگوں کے تبدیل ہوتے ہوئے تصورات و ترجیحات سے۔ آج ہم ایک قوم اور آزاد ریاست کے طور پر کہاں کھڑے ہیں؟
آزادی کے بعد، قائد اعظمؒ کی جلد رحلت کی وجہ سے پاکستان ایامِ طفلی میں ہی یتیم ہو گیا۔ اس طرح یہ نوزائیدہ ملک ایک ایسی قیادت سے محروم ہو گیا جو اسے نظم و نسق کی خرابیوں اور طرح طرح کی دوسری بیماریوں سے بچا کر فطری نشوونما کے ذریعے ایک تندرست و توانا ریاست کے طور پر پروان چڑھاتی۔ قائد کے بعد یہ ملک اپنی سمت کا شعور ہی کھو بیٹھا اور مزید بدقسمتی یہ کہ سیاسی دیوالیہ پن اور اخلاقی زوال کا شکار ہو گیا۔ اس نے اپنے آپ کو ٹکڑے کرنا شروع کر دیا اور چوتھائی صدی سے بھی کم عرصے میں نہ صرف اپنا نصف وجود کھو بیٹھا بلکہ اپنی آزادی کے اس مضبوط استدلال کو بھی زبردست ضعف پہنچایا جو ہمارے آبائوواجداد کی اس جدوجہد کا سبب بنا جس کی بنیاد پر انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور اس میں کامیاب و کامران ہوئے۔
حقیقی پاکستان تو سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ختم ہو گیا تھا اور جو بچ گیا وہ اس کے مفاد پرست حکمرانوں کی لُوٹ مارکی زد میں ہے۔ افسوس، ہم نے ابھی تک اپنی ریاست کے بعض بنیادی امور کے بارے میں پالیسی فیصلے نہیں کیے‘ ابھی یہ تک یقینی نہیں ہے کہ اس کے وجود کی اساسی علّت کیا ہے اور آج اس کا مفہوم و مطلب کیا ہونا چاہیے؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان، اسلام اور جمہوریت کی بنیاد پر وجود میں آیا لیکن افسوس کہ یہ دونوں اقدار آج تک اسے نصیب نہیں ہو سکیں۔ ایک ایسا ملک جسے بیسویں صدی کا معجزہ قرار دیا گیا تھا اور جو مکمل طور پرجمہوری اور آئینی جدوجہد کے نتیجے میں آزادی سے ہمکنار ہوا تھا‘ آج حقیقی جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے ترس رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں حالات مزید ابتر ہو گئے ہیں۔ نام نہاد لبرل اشرافیہ اور دانشور جان بوجھ کر ہماری تاریخ مسخ کر کے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہے ہیں۔ بزعم خویش ان کا کہنا یہ ہے کہ قیام پاکستان محض تاریخ کا ایک حادثہ تھا اور پاک بھارت سرحد کی حیثیت کاغذ پر کھینچی ہوئی ایک باریک لکیر سے زیادہ نہیں۔ ان کے خیال میں اگر یہ لکیر مٹا دی جائے تو پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی مسئلہ نہیں رہے گا‘ ہم ایک قوم کی طرح مل جل کر پُرامن طریقے سے بامسرت زندگی گزاریں گے اور ہمیں مسلح افراج کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔ یقیناً یہ لوگ غلطی پر ہیں‘ انہیں صحیح تناظر میں تاریخ پڑھا کر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کسی حادثے کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسلم تہذیبوں کے مابین امتیاز اور ان میں تصادم‘ ہزار سال سے بھی زائد عرصہ قبل شروع ہوا‘ جس کا گہرا اثر دونوں کمیونٹیوں پر ثبت ہے۔ وہ جنگ کے میدانوں‘ تہواروں‘ بازاروں اورگھروں کے اندر ہزاروں مقامات پر ساتھ ساتھ رہنے کے باوجود جوہری طور پر ایک دوسرے سے جُدا اور فاصلے پر رہے۔ اس سرزمین کی تاریخ کے عمیق مطالعے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات صرف سیاسی بالادستی کی جدوجہد تک محدود نہ تھے بلکہ ان کا اظہار دو سماجی نظاموں میں ٹکرائو کی صورت میں بھی سامنے آتا رہا‘ لیکن آج اس حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گیارہویں صدی عیسوی کے شروع میں البیرونی نے اپنے مشاہدے کی بنا پر لکھا تھا کہ ہندو اپنی بودوباش اور عادات و اطوار کے اعتبار سے مسلمانوں سے یکسر مختلف ہیں۔ بعینہ یہی بات قائداعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کہی۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں سے تعلق رکھتے ہیں‘ ان کی آبیاری تاریخ کے مختلف سوتوں سے ہوئی اور وہ دو ایسی مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں جن کی بنیادیں ایک دوسرے سے متصادم و متخالف تصورات پر مبنی ہیں۔ البیرونی کی تحریر اور قائد اعظم کی تقریر میں فقط یہ فرق ہے کہ البیرونی نے اپنے مشاہدے اور بصیرت کی بنیاد پر ایک حقیقت کی پیش گوئی کر دی تھی جبکہ قائد اعظم کے استدلال میں ٹھوس تاریخی حقائق تھے۔
ہم میں سے وہ جو برصغیر کی تاریخ سے واقف ہیں‘ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صدیوں اکٹھے رہنے کے باوجود ہندوئوں اور مسلمانوں میں بعدُالمشرقین رہا‘ اس لیے کہ ان کا طرز حیات اور تصورِ کائنات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ پاکستان طویل جدوجہد اور بے بہا قربانیوں کے بعد وجود میں آیا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کی سرحدیں خون سے کھینچی گئی ہیں‘ اُنہیں خیر سگالی پر مبنی اقدامات سے مٹایا نہیں جا سکتا‘ جس کے لیے ہماری حکمران اشرافیہ اور میڈیا کے دوست بہت بے قرار ہیں۔
اب وقت ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس حقیقت کا ادراک کریں کہ ایک آزاد ریاست کے طور پر ہماری بقا کا انحصار ہماری اس صلاحیت اور استعداد پر ہے کہ ہم اس کی آزادی اور جغرافیائی سلامتی کا تحفظ کس عزم اور حوصلے سے کرتے ہیں۔ ہمیں ایک متحدہ قوم کی طرح کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی تاریخ کے سنگین موڑ پر ہم اپنا مستقبل وقت‘ کرپٹ اور نااہل حکمرانوں اور ان ملکی اور غیرملکی مفاد پرستوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے جو پاکستان کو ایک خود مختار ملک کے طور پر پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)