جمہوریت کا انتقام ایک معروف حقیقت ہے۔ 2008ء میں دو مقامات اس کے انتقام کا نشانہ بنے۔ امریکہ میں اس نے ''نسل‘‘ کی دیوار کو منہدم کیا اور امریکی تاریخ میں پہلا سیاہ فام لیڈر قصر سفید (وائٹ ہائوس) میں کرسی صدارت پر متمکن ہوا۔ پاکستان میں بھی عدلیہ اور سول سوسائٹی کی دو سالہ زوردار جدوجہد کے بعد فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں آٹھ برس پر محیط رُسوا کن آمرانہ دور اپنے انجام کو پہنچا۔ لیکن بدقسمتی سے جمہوریت نے بڑی بے رحمی کے ساتھ بیرونی طاقتوں کے ذریعے طے کردہ این آر او کی بنیاد پر قائم ہونے والی حکومت عوام پر مسلط کر دی‘ جو ایک دہائی میں پیدا شدہ سیاسی و اقتصادی بحران پر قابو پانے کا عزم رکھتی تھی نہ اہلیت۔
مئی 2013ء میں جمہوریت نے ایک بار پھر پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کی جگہ مسلم لیگ (ن) کو ایک تازہ مینڈیٹ کے ذریعے مسند اقتدار پر بٹھا دیا مگر گزشتہ ایک برس کے دوران اس حکومت نے اپنی پیشرو حکومت کی طرف سے ورثے میں ملنے والے مسائل پر قابو پانے میں کسی دانشمندی اور ہوشیاری کا ثبوت نہیں دیا۔ خود اپنے بارے میں بے یقینی کی شکار یہ حکومت بڑے چیلنجوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کبھی انتہائی پُرجوش اور کبھی دل چھوڑ کر کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اسے چاہیے تھا کہ ''جمہوری حُسن‘‘ کے گیت گانے کے بجائے اپنی پوری توجہ پریشانی کا سبب بننے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے ترجیحات کا تعین کرنے پر مبذول کرتی۔ یاد رہے کہ جمہوریت خودستائی پسند نہیں کرتی بلکہ کارکردگی کا تقاضا کرتی ہے۔
جمہوریت کا اصل تعلق عوام سے ہے اور اس سسٹم میں اپنی منزل کا حتمی فیصلہ وہی کرتے ہیں۔ وہ اس اُمید کے ساتھ اپنے لیڈروں کا چنائو کرتے ہیں کہ وہ قانون کے پاسدار‘ عدل و انصاف کے رکھوالے اور اچھی حکمرانی کے دلدادہ ہوں گے‘ لیکن ہمارے ہاں بیشتر لیڈر سیاسی اور فوجی دونوں حکومتوں کے تحت منعقدہ انتخابات میں بار بار منتخب ہوتے رہے اور ان میں سے بہت کم ایسے تھے جنہوں نے ذاتی یا اپنے طبقۂ اشرافیہ کے مفادات سے بالا ہو کر کام کیا ہو۔ عالمی سطح پر جمہوریت ایک ایسی عیاشی ہے جس سے انتہائی کم ملک محظوظ ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی حقیقی نشوونما تعلیم اور معاشی خوشحالی میں ہی ممکن ہوتی ہے‘ جو چند مستثنیات کے ساتھ ترقی پذیر ممالک میں عنقا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر جمہوریتیں یورپ اور شمالی افریقہ میں پنپ رہی ہیں۔ افریقہ‘ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک ایسے جابرانہ سیاسی نظام کے زیر تسلط ہیں‘ جس نے جمہوریت کا فقط لباس پہنا ہوا ہے‘ اس میں حکومتوں کی تبدیلی اور فیصلہ سازی میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کو جمہوری روایت پر مسلسل عمل پیرا رہنے کا امتیاز حاصل ہے‘ لیکن اس بار جمہوریت نے بھارت میں بھی ایک سخت انتقام لیا ہے۔ اس نے کانگریس کی سربراہی میں یو پی اے کی حکومت کو نکال باہر کیا اور ''مودی لہر‘‘ کو تبدیلی کا استعارہ بنا کر بھارت کے سیاسی منظرنامے کے بلند ترین مقام پر لاکھڑا کیا۔ جمہوریت کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کہ نریندر مودی ایسا انتہائی متنازع شخص اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا سربراہ ہے!
لیکن جمہوریت نام ہی اسی کا ہے۔ ایک دل جلے نے کہا تھا: ''آپ محض اس لیے جہالت کو تخت نشین نہ کر دیں کہ دُنیا میں اس کی بہتات ہے‘‘۔ لیکن جمہوریت نے بہت سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں اسی بنیاد پر عیار اور جرائم پیشہ لوگوں کو اقتدار کے تخت پر بٹھا دیا۔
جیسے پہلے ذکر کیا افریقہ‘ ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک پر جابرانہ سیاسی نظام مسلط ہے‘ جس میں حکومتوں کی تبدیلی اور فیصلہ سازی میں عوام کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ ہاں‘ بھارت ایک استثنیٰ ہے۔ مودی کا تقابل اوباما سے کیا جا سکتا ہے‘ جنہیں 2008ء میں صدر چنا گیا۔ وہ امریکی تاریخ میں پہلے غیر سفید فام صدر ہیں لیکن وہ صدارتی انتخاب میں اس لیے کامیاب نہیں ہوئے کہ وہ سیاہ فام تھے۔ اوباما کے صدر بننے کا معجزہ اس لئے ظہور پذیر ہوا کہ امریکی عوام جارج ڈبلیو بش سے تنگ آ چکے تھے اور ان کے آٹھ سالہ دور کی ناکامیوں کے بعد ایک وقفہ چاہتے تھے۔ بھارت میں ''مودی لہر‘‘ کو اس لیے پذیرائی ملی کہ بھارت کے لوگ نہرو خاندان کی قیادت میں کانگریس پارٹی کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہو چکے تھے۔ یہ صرف جمہوریت ہی ہے جس نے ایک ایسے شخص کو بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار کرایا جو دُنیا بھر میں ہندو قوم پرستی اور 2002ء کے گجرات فسادات میں 2000 سے زائد مسلمانوں کے قتل عام کا ذمہ دار جانا جاتا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ نے انہی وجوہ کی بنا پر انہیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر بلیک لسٹ کر دیا تھا اور ان کو ویزہ دینے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ نریندر مودی کے انتہاپسند ہندو تنظیم آر ایس ایس اور اس کے مسلح جتھوں کے ساتھ روابط کوئی راز نہیں۔ لیکن اس بھیانک ماضی سے قطع نظر جمہوریت نے نریندر مودی کو اب تاریخ کے ایک نمایاں ترین مقام پر لا بٹھایا ہے‘ جہاں وہ اپنے آپ کو 'پوتر‘ (purify)کر سکتے ہیں‘ وہ اپنی صلاحیتیں اپنے عوام اور خطے کے ان لوگوں کی زندگیاں بہتر کرنے پر صرف کر سکتے ہیں جو بھارتی 'عزائم‘ کے ہاتھوں کئی پہلوئوں سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اوباما کے برعکس مودی نے اپنی تنگ نظر ہندو قوم پرستی اور محدود عالمی وژن کے باعث خطے اور دُنیا کے لوگوں کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا۔ اب انہیں اپنے دھندلے وژن کو صاف کرنے کے لیے نئی عینک لگانے کی ضرورت ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ کینے‘ نفرت اور تنگ نظری پر مبنی رویہ ترک کرکے اپنے آپ کو ایک مدبر حکمران بنائیں۔ اپنی تقریب حلف برداری میں سارک کے لیڈروں کو شرکت کی دعوت کا مقصد اس کے سوا کچھ اور نہیں تھا کہ وہ خطے کے جن دوسرے ملکوں اور ان کے لیڈروں کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کرتے رہے ہیں ان پر اپنی بالادستی بھی جتا سکیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ علاقائی ہم منصبوںکو اعتماد میں لینے سے پہلے اپنے کردار پر پڑا ہوا ماضی کا ناپسندیدہ بوجھ ہلکا کریں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اب کوتلیا طرز کی بے رحم سیاست کا دور لد چکا۔ بہتر ہوتا کہ اسلام آباد کو مودی کے دعوت نامے پر زیادہ پُرجوش نہ ہونے کا مشورہ دیا جاتا۔
تقریبات‘ ٹھوس مواقع نہیں ہوتے۔ ملکوں کے مابین تعلقات حلف برداری جیسی تقریبات کے موقع پر سائڈ لائن ملاقاتوں میں طے نہیں ہوا کرتے۔ مودی نے تو ابھی تک پاکستان کے لیے اپنی پالیسی کا بنیادی نقشہ بھی نہیں بنایا ہوگا۔ بھارت کے ساتھ ہمارے کئی بڑے مسائل حل طلب ہیں۔ ہمیں ایک پُرفریب سفر پر جانے سے پہلے ان کے باقاعدہ اقتدار سنبھالنے اور یہ فیصلہ کرنے تک انتظارکرنا چاہیے تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ طویل متنازع مسائل حل کرنے کی کیا منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کے حُسنِ نیت پر کسی کو شبہ نہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا مودی بھی اسی خلوص کے ساتھ جواب دیں گے؟ کشمیر اور سیاچن پر ان کا موقف لٹمس ٹیسٹ ہوگا۔
نواز شریف کی یہ سوچ درست نہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ معاملات اس جگہ سے دوبارہ شروع کر سکتے ہیں جہاں 1999ء میں لاہور میں انہوں نے چھوڑے تھے۔ اب ان کے لیے نقطہ آغاز صرف وہ ہوگا جہاں جنرل پرویز مشرف نے دھندلی بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے 2007ء میں کشمیر پر ' آئوٹ آف دی باکس‘ (out of the box) معاہدہ کرنے کی جانب پیشرفت کی تھی‘ لیکن ایک منتخب رہنما کی طرف سے کشمیر کاز کے ساتھ اس سے بڑی غداری کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ اِنہی خطوط پر معاملات کو آگے بڑھائے۔ ان کی سوچ بالکل واضح ہونی چاہیے، جب تک کشمیر بھارت کے زیر تسلط ہے‘ جنوبی ایشیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ کشمیر کا منصفانہ‘ درست‘ قانونی اور اخلاقی معیار پر پورا اترنے والا واحد حل وہی ہے جو اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور جسے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ذریعے بھارت اور پاکستان دونوں نے تسلیم کیا تھا۔
اسی طرح ہم سیاچن پر بھارت کی غیر قانونی حرکت اور سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کشمیر سے گزرنے والے پاکستانی دریائوں پر ڈیم اور پانی کے ذخائر تعمیر کر کے اپنے خلاف آبی دہشت گردی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکمران اشرافیہ سمیت آزادی کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ایک آزاد ریاست کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ انہیں اس حقیقت کا بھی فہم تک نہیں کہ وہ جس طرح کا امن چاہتے ہیں وہ قومی نصب العین اور اہداف سے دستبردار ہو کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت پہلے ہی ہماری اندرونی ناکامیوں اور کمزوریوں سے پورا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے، اس کے ساتھ باوقار امن کے لیے بات چیت کرنے سے پہلے ہمارے لیے اپنے ملک کے اندر امن قائم کرنا ضروری ہے‘ اس کے بعد ہی ہم باعزت طریقے سے بھارت کے ساتھ مذاکراتی میز پر بیٹھ سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں جیسا کہ توقع تھی نواز شریف کی دہلی یاترا محض ایک مسڈ کال ثابت ہوئی ہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)