کارِ خیر جب بھی انجام پائے‘ تاخیر زدہ نہیں کہلاتا۔ بظاہر اب حکومت بڑے فیصلے کرنے لگی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس نے فوج کو شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کا صفایا کرنے کا حکم دے دیا۔ امریکہ عرصہ دراز سے اس علاقے میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کر رہا تھا، لیکن ہماری دو گزشتہ حکومتوں نے اس کے لئے ہمت نہیں کی۔ اس پر امریکہ نے اپنے طور پر ڈرون حملے شروع کر دیے؛ البتہ کراچی ایئرپورٹ پر حالیہ دہشت گرد حملے کے بعد حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کو خیرباد کہا اور فوجی آپریشن شروع کر دیا، جو اب جاری ہے اور فضائیہ کے لڑاکا طیارے افغانستان سے ملحق قبائلی علاقوں میں غیرملکی اور مقامی دہشت گردوں کے خلاف بروئے کار ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے اعلان کیا کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کے لئے کوئی محفوظ ٹھکانہ باقی نہیں رہے گا اور آپریشن ''ضرب عضب‘‘حتمی اہداف کے حصول تک جاری رہے گا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بھی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ''ضرب عضب‘‘ کے بنیادی مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کا خاتمہ‘ شمالی وزیرستان میں ان کے ٹھکانوں کی مسماری اور ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے نجات دلانا ہماری اوّلین ترجیح ہو گی۔ اس آپریشن کو تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے اور عوام نے اس کا بھرپور خیرمقدم کیا ہے۔ قوم ان غیرملکی اور مقامی جنگجوئوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے قبائلی علاقوں میں چھپے ہوئے تھے اور ریاست کی عملداری اور اختیار و اقتدار کو چیلنج کر رہے تھے۔ مسلح افواج نے ملک کی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لئے پوری قوت کے ساتھ آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ ہم ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں‘ لیکن ہم ایک بڑی حقیقت سے آنکھیں نہیں چُرا سکتے۔ وزیر اعظم نے جس ''حتمی ہدف‘‘ کے حصول کا ذکر کیا ہے، اس کے لئے ہمیں فوجی آپریشن سے بھی آگے جانا ہو گا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ پر دو آرا نہیں ہو سکتیں‘ لیکن اس شر کے خاتمے کے لئے فوجی آپریشن کافی نہیں۔ ہمیں اس کے اصل اسباب کا کھوج لگانا ہو گا، لیکن اس کا مطلب دہشت گردی کے لئے جواز جوئی یا اس سے صرف نظر کرنا نہیں؛ بلکہ اس کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھنا اور پھر اس پر قابو پانا ہے۔ ہم دہشت گردوںکو مار سکتے ہیں‘ انہیں گرفتار کر سکتے ہیں‘ ان کی کارروائیوں کو ناکام بنا سکتے ہیں‘ ان کی تنظیموں کو تتر بتّر کر سکتے ہیں‘ لیکن جب تک ہم دوسرے لوگوں کو ان کے راستے پر چلنے سے باز نہیں رکھیں گے‘ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں کامیاب و کامران نہیں ہو پائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے ہمارے لئے ان لوگوں کے دل و دماغ جیتنا ضروری ہے جو ممکنہ طور پر دہشت گردی کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کئے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کوئی حکمت عملی یا روڈ میپ جامع کہلانے کا مستحق نہیں ہو گا۔ صرف ایسا ہمہ گیر لائحہ عمل جو سیاسی، ترقیاتی اور انسانی حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے مرض کی علامات نہیں بلکہ اس کے اسباب کے علاج پر مبنی ہو، اپنی قلیل اور طویل مدتی حکمت عملی پر استقلال اور نپے تلے اقدامات پر عمل ہی اس مسئلے کے دیرپا حل کی ضمانت دے سکتا ہے۔ فوجی آپریشن سے دہشت گردانہ ذہنیت ختم نہیں ہو گی، بلکہ اس میں اضافہ ہو گا۔ امریکہ نے اپنی تمام تر قوت و جبروت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی لیکن یہ بے نتیجہ رہی، اسے ''حتمی فتح‘‘ نصیب نہ ہو سکی۔ اس کے برعکس یہ جنگ جذبہ انتقام کی آگ بھڑکانے اور جوابی کارروائیوں کے لئے نت نئے راستے کھولنے کے سوا کچھ نہیں کر پائی۔
افغانستان کے المیے کا نشانہ صرف افغان نہیں بنے، پاکستان کئی لحاظ سے زیادہ متاثر ہوا؛ اُسے لاکھوں مہاجرین کو سنبھالنا پڑا، سماجی اور اقتصادی بوجھ برداشت کرنا پڑا، پورا ملک دہشت گردی کی زد میں آ گیا اور اس کا افغان سرحد کے ساتھ قبائلی علاقہ مسلسل تشدد اور تصادم کی لپیٹ میں آ گیا۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا سب کچھ دائو پر لگانا پڑا۔ ہمارا ملک القاعدہ کی سرکردگی میں پے درپے دہشت گرد حملوں کا ہدف بنا ہوا ہے‘ جن میں ہمارے پچاس ہزار سے زائد شہری اور سکیورٹی اداروں کے افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ بدقسمتی سے جس چیز کو دُنیا نے آسانی سے نظر انداز کر دیا، وہ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا تعلق صرف افراد یا تنظیموں یا بے التفاتی کے شکار ملک یا اس کے کسی خطے کی بیابانی و ویرانی نہیں ہوتی۔
عالمی سطح پر بھی چند سو افراد کو مارنے یا گرفتار کرنے یا ایک دو ملکوں میں لیڈرشپ تبدیل کرنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوئی کیونکہ یہ ایک ایسی ذہنیت کا پُرتشدد اظہار ہے جس کی جڑیں بڑھتی ہوئی مایوسی اور ناامیدی میں پیوست ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی نااہل قیادت، بُری حکمرانی، بدعنوان سیاست اور عسکریت پسندی کی جانب بے روک ٹوک رجحان کی پیداوار ہے، لہٰذا انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور ان چیلنجوں سے نمٹنے کی حتمی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے، مسلح افواج پر نہیں۔ ہمارے ہاں فوجی آپریشن کامیابی سے جاری ہے، ایسے میں فوجی کامیابیوںکو دیرپا بنیادوں پر مستحکم کرنے میں سویلین حکومت کا کردار بڑی اہمیت اختیار کر لیتا ہے، لیکن موجودہ صورتحال میں یہ سوال ہماری پریشانی کا باعث ہے کہ آیا سویلین حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے؟ موجودہ تصادم کے وقت اسے قومی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہونا چاہیے تھا، مگر حکومت ہے کہاں؟ کم ازکم اس وقت تک ہمیں اس محاذ پر وہ نظر نہیں آرہی۔ اسی ہفتے لاہور میں جو خوفناک منظر سامنے آیا، وہ انتہائی مایوس کن ہے۔
کئی افراد مارے گئے۔ انہیں القاعدہ نے نہیں بلکہ عوام کی حفاظت کے ذمہ دار ادارے نے قتل کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اس گھڑی میں ہماری پولیس کو دوسری دفاعی لائن کا کردار ادا کرنا چاہئے تھا، انہیں سیاسی حریفوںکے حامیوںکو دبانے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔ یہ سیاسی مخالفین کو سیدھا کرنے کا نہیں، قومی اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کا وقت ہے، لیکن افسوس! اس جانب کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیںکی جا رہی۔ صرف یہی نہیں، اندرونی امن و امان اور بے گھر افراد کی دیکھ بھال کے لئے بین الوزارتی یا بین الصوبائی تعاون کے لئے بھی کچھ نہیںکیا جا رہا۔
قومی سطح پر ہم جو 'نیشنل سکیورٹی میکنزم‘ رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ کہیں نظر نہیں آ رہا۔ کسی ریاست کی قومی سلامتی کا ڈھانچہ اس کی ''قومی طاقت‘‘ کا مظہر ہوتا ہے، جو اس کی جغرافیائی سلامتی اور آزادی کے تحفظ، اسے سیاسی طور پر مستحکم اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط رکھنے‘ اپنے سماج اداروں اور حکومت کو اندرونی و بیرونی دخل اندازی سے بچائے رکھنے اور اپنی سرحدوں کے موثر کنٹرول کا ضامن ہوتا ہے۔ کیا ہم اس صلاحیت و اہلیت کے حامل ہیں؟ سیاسی اعتبار سے ہمیں ملک میں بالغ نظری کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ پارلیمنٹ میں ڈیسک بجانے یا دمادم مست قلندر کے نعرے لگانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ ماضی میں سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ہم ناقابل تصور نقصان اٹھا چکے ہیں، اب ہم میں مزید سانحے برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔ ہمارے لیڈر ماضی سے سبق سیکھ کر اپنا قبلہ درست کر سکتے ہیں اور یاد رکھیں، جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، وہ غلطیاں دہراتی رہتی ہیں۔ لیڈرشپ کو چاہیے کہ وہ اپنے محدود ذاتی مفادات سے بلند ہو کر اپنی قومی ذمہ داریوں پر توجہ مرکوز کرے۔
ہمارے حکمرانوں کو ایک بات کا لازمی طور پر ادراک ہونا چاہیے۔۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری ریاست کی پالیسی عسکریت کے لئے عدم برداشت (Zero Tolerance) پر مبنی ہونی چاہیے۔ یہ کسی بھی نام یا کسی بھی مقصد کے لئے ہو، کوئی استثنیٰ ہونا چاہیے اور نہ کسی کا خصوصی تعین، اس کے خلاف بلاامتیاز بروئے کار آنا چاہیے۔ آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کی کامیابی کا انحصاراس بات پر نہیں ہو گا کہ ہم نے کتنے دہشت گردوں کو ہلاک یا گرفتار کیا بلکہ اس کے کامران ہونے کا معیار گڈگورننس، عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی قرار پائے گی جس کے بغیر انتہائی پسندی اور دہشت گردی کے جڑواں عفریت سے نجات ممکن نہیں۔ تعلیم، ترقی میں تسلسل اور غربت کا خاتمہ ہماری اوّلین ترجیحات ہونی چاہیے۔ دہشت گردی ایک اعتدال پسند، تعلیم یافتہ اور خوشحال پاکستان میں نہیں پنپ سکے گی۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)