'' مجھے اپنے لیڈر کے پاس لے جائو ‘‘۔۔۔۔۔آج کی دنیا میں کچھ کرنے سے کہنا آسان ہے۔ "Take me to your leader"۔۔۔۔۔ محاورہ ہے جو ایک کارٹون فلم میں غیر ارضی مخلوق انسانوں سے بولتی ہے۔ یہ محاورہ انگریزی گانوں اور اشتہارات میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ غیر ممکن الوقوع حالت کے لیے بولاجاتا ہے۔] اب اقوام کی قیادت لیڈر نہیں کرتے۔ جمہوریت کے چیمپئن سمجھے جانے والے ممالک سمیت دنیا کے کسی بھی ملک پر اخلاقی اصول و ضوابط کی حکمرانی نہیں ہے ۔ مشرقی اور مغربی، دونوں معاشروں میں سیاسی نظریہ ساز ایک مثالی لیڈرکی شخصیت کے لیے لازم و ناگزیر، پیچیدہ خصوصیات کے مجموعے سمیت قیادت کی مختلف شکلوں اور طرزوں کو زیر بحث لاتے رہے ہیں۔ نیشن سٹیٹ ابھرنے کے وقت سے ہی ان کے تصورات انسانی ذہن کو متاثر کرتے رہے ہیں اوردنیا بلاشبہ، بادشاہت سے ری پبلک، ارسٹو کریسی سے امراء کی حکومت اور ظلم و جبر سے جمہوریت تک تمام سیاسی نظاموں کے تجربے سے گزر چکی ہے۔
صدیوں کی ٹھوکروں اور تجربات کے بعد جمہوریت کو آفاقی قبول عام نصیب ہوا اور یہ ہمارے عہد کا سب سے زیادہ رائج ماڈل ہے۔ تاریخ ایسی سیاسی شخصیتوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے جو اپنی ذات کو ریاست کے ہم پلہ اوراقتدارکو اپنی انا اور عجیب و غریب خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتی تھیں۔ آج بھی ایسے خودسر حکمرانوں کی کمی نہیں جو دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے اپنے ملک میں زیادہ تر میکیاولی شہزادوں جیسے لیڈر حکمران رہے جنہوں نے فرض کرلیاتھا کہ ان کے زیر نگیں معاشرے میں نیک اور شریف شہری معدوم ہیں اوراس میں صرف کرپٹ عوام کا بسیرا ہے جنہیں ایک شہزادہ ہی اپنے مکرو فریب کے ذریعے قابومیں رکھ سکتا ہے۔ میکیاولی کا شہزادہ منافق اور سیماب صفت ہوتا ہے جس نے رحمدلی، عقیدے ، پارسائی، انسانیت اور مذہب کا صرف لبادہ اوڑھا ہوتا ہے، اس کا عمل ان تمام اوصاف کے برعکس ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میکیاولی روایت سے بھرپور ہے۔
جوں جوں اس سال کا یوم آزادی قریب آرہا ہے ہمارے اذہان خودبخود اپنی آزادی کے پہلے سال کو یاد کرنے لگے ہیں ، جس کے دوران بانیِ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح نے آنے والے واقعات کی پیش بینی فرمادی تھی۔ وہ ملک کے سیاستدانوں کی اہلیت اورکردار سے مایوس تھے کیونکہ نو آزاد پاکستان ایسے افراد کے ہاتھ میں جارہا تھا جن کی حیثیت خود غرض، فیوڈل اور موقع پرست سیاسی ٹولے سے زیادہ نہ تھی ،گویا ملکی افق پر سیاسی نااہلیت سایہ فگن تھی۔
قائد کی فکر مندی بے جا نہ تھی۔ ان کی جلد رحلت کے وقت سے ملک حقیقی قیادت سے محروم ہے۔ اگرچہ مختلف ادوار میں سویلین اور فوجی حکمران آتے رہے لیکن قیادت کا فقدان بدستور جاری رہا۔ نیویارک ٹائمز نے قائد اعظم کی وفات کے دودن بعد 13ستمبر 1948ء کو اپنے تعزیتی نوٹ میں انہیں زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ان کی موت پاکستان کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے اور یہ واضح نہیں کہ ان کی جگہ کون لے گا یا ان کی جگہ کوئی لینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت گیا لیکن ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کا کوئی لیڈر نہیں۔ قائد کی بلند و بالا شخصیت کے برابر تو کیا کسی میں ان کی ذہانت اور کردارکی پرچھائیں تک نظر نہیں آتی۔
تاریخ دان معترف ہیں کہ قائداعظم کی عظیم طاقت کی پشت پر فوج، بیورو کریسی یا آئینی اختیارات نہیں بلکہ عوام کی غیر متزلزل حمایت کار فرما تھی۔ بدقسمتی سے قائد کے جانشین عوامی حمایت سے نہیں بلکہ میکیاولی ہتھکنڈے استعمال کرکے برسراقتدار آتے رہے۔ انہوں نے اپنے زیر انتظام منعقدہ ہر الیکشن میں دھاندلی کی اور دسمبر 1970ء میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کے کرائے گئے واحد آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انہوں نے سیاسی بحران کا سیاسی علاج تلاش کرنے کے بجائے فوجی حل کو ترجیح دی جو ملک کے دولخت ہونے پر منتج ہوا۔ معاصر تاریخ میں کوئی بھی ملک ایسے سانحے سے دوچار نہیں ہوا۔ افسوس، سیاستدانوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
ہم نے تین دستور بنائے، دوکو فوجی حکمرانوں نے منسوخ کردیا۔ تیسرا دستور بچے کھچے پاکستان کی منتخب آئین ساز اسمبلی نے 1973ء میں منظور کیا جس میں اس قدر ترامیم کی گئیںکہ اصل متن بہت کم باقی رہ گیا۔ آخری دو ترامیم عوام کے مفاد کے لیے نہیں بلکہ شاہانہ اختیارات کے حصول اور 2013 ء کے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کے لیے کی گئیں۔ پاکستان میں اشرافیہ کا پاور سٹرکچر اتنا مضبوط ہے کہ اس میں کوئی بنیادی تبدیلی لانا انتہائی دشوار ہے ، اس لیے کہ اس نظام میں تبدیلی انہیں موافق نہیں آتی۔ انہیں ڈر ہے کہ نظام میں اصلاح کی گئی تو ان کا اقتدار اور مراعات خطرے میں پڑ جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک میں ایسا سیاسی نظام نہیں لایا جاسکا جو اس کی نسلی اور لسانی اعتبار سے متنوع آبادی کی ضروریات کے مطابق ہو۔ بار بار قیادت کی ناکامی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج اپنے سربراہ کو مسند اقتدار پر بٹھاتی رہی۔ ملکی تاریخ میں فوجی مداخلتوں کا سبب محض یہ رہا کہ سویلین سیٹ اپ ، سٹریٹیجک ویژن اور ٹیلنٹ سے محروم تھا۔ لہٰذا اس خلا کو وہی پُر کرتے رہے جن کے پاس طاقت اور تزویراتی اہلیت تھی۔
2008 ء سے اسلام آباد میں ذہانت اور دور اندیشی عنقا ہے۔ سیاسی حماقتوں کا ارتکاب معمول بن چکا ہے۔ اپنی نااہلی سے اچھی طرح واقف سویلین حکمران، مسلح افواج کو کمزور کرنے کی سازشیں کرنے میں مصروف رہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں بدنام زمانہ میموگیٹ سکینڈل اور اب مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے سول ـ ملٹری تعلق کو مسلسل مس ہینڈل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی نااہلی کی وجہ سے کس قدر غیر محفوظ اورکمزور ہیں۔ انہیں احساس تک نہیں کہ '' منتخب ‘‘ ہوتے ہوئے بھی وہ لوگوں میں اپنے لیے اعتماد پیدا نہیں کرسکے۔
وہ صرف اقتدار میں رہنے کے لیے جمہوریت کے نام پر کام چلاتے جارہے ہیں۔ انہوں نے عدلیہ اور مقننہ کوکمزورکردیا ہے، بیورو کریسی اور پولیس عوام کی خدمت گار نہیں بلکہ اپنے سیاسی آقائوں کے مفادات کا تحفظ کرنے پر لگی ہوئی ہے۔ پولیس کو بطور خاص سیاست میں آلودہ کرکے ایک ایسی نان فنکشنل فورس بنا دیا گیا ہے جو سیاسی اشرافیہ کی خدمت گزاری کے لیے وقف ہوکر رہ گئی ہے ؛ اسے جرائم کے انسداد ، قانون کی عملداری اور عوام کی جان و مال کے تحفظ سے کوئی غرض نہیں۔ ملک میں امن وامان کا نام و نشان نہیں۔ نوے فیصد پولیس اہلکار وی آئی پی سکیورٹی کے لیے کام کررہے ہیں، عام آدمی کو کسی طرف سے تحفظ حاصل نہیں ہے ۔
ان مایوس کن حالات میں وہ چاہتے ہیں کہ پولیس کی ڈیوٹی فوج انجام دے ۔ ہمارے میکیاولی شہزادے یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پرکررہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں یہ نہیں ہوتا۔ اب آئین کا آرٹیکل 245 نافذ کرنے کا فیصلہ بھی ان کے سیاسی عزائم سے خالی نہیں ہے۔ ضرب عضب یا بلوچستان میں بی ایل اے سے لڑنے اور کراچی کے جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کے لیے فوج کو بلانے کا جوازواضح ہے لیکن سیاسی مخالفین سے نمٹنے یا ان کی ریلیوں کو ناکام بنانے کے لیے فوج کو طلب کرنے کے نتائج 1977ء کی طرح خطرناک بھی ہوسکتے ہیں۔ بظاہر ہمارے بادشاہ صفت حکمرانوں کو تاریخ کا کوئی شعور نہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کے ساتھ وہی کریں گے جو پولیس کے ساتھ کرتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔
دراصل ہمیں قائداعظم محمد علی جناح کے ورثے پر غور کرنے کی ضرورت آج سے زیادہ کبھی نہیں تھی۔ ہمیں ان کے آئیڈلز، اصولوں اور پاکستان کے بارے میں ان کے وژن کی روشنی میں تجدید عہد کرناچاہیے ۔ اسی طرح ہمیں قائداعظم کے اُس جمہوری فلسفے کو بھی ازسرنو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جسے عوام فراموش اور سیاستدان ذاتی مفادات کی بنا پر مسخ کرچکے ہیں۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)