"SAC" (space) message & send to 7575

تاریخ سے سبق نہ سیکھنے کا حشر

کہتے ہیں ، تاریخ اُس وقت تاریخ نہیں ہوتی جب آپ اس میں سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ سقراط کو زہرکا پیالہ پئے دو ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ، لیکن وہ اپنے سچ کے ساتھ آج تک زندہ و پائندہ ہے۔ ریاست اور سماج کی منافقتوں کے خلاف آواز اٹھانے کا غیر متبدل سبق اس عظیم فلسفی کی وفات کے 2400 سال بعد بھی تروتازہ ہے۔ آج ہمارے اپنے ملک کی طرح ایتھنزکے عوام بھی اپنے کرپٹ حکمرانوں سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ اُس وقت رائج جمہوریت‘ طرز حکومت‘ عدل و انصاف‘ اخلاقیات اور امن و امان کی انتہائی ناگفتہ بہ حالت سے لوگ مایوس ہو چکے تھے۔ 
سقراط ان کے دکھ اور درد کو سمجھتا تھا۔ اپنی ریاست کے ساتھ وفاداری برقرار رکھتے ہوئے اس نے ایتھنز کی سیاسی اور معاشرتی روش کو چیلنج کیا۔ اس نے اپنے مختلف مکالموں (Dialogues) میں ایتھنز کے حریف سپارٹا کے بہتر طرز حکومت کی تعریف کی اور اپنی ریاست کی بدعنوان سیاست کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ ایتھنز کے حکمرانوں کے نزدیک سقراط کا ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ سماجی اور اخلاقی خرابیوں پر نکتہ چینی کرتا تھا ، حکمرانوں اور ان کے 'جمہوریت‘ کے نام پر کیے گئے غلط اعمال کے خلاف بولتا تھا۔ اس کی آوازلُوٹ مار کے اس منجمد نظام (Status qou) کے لیے ایک چیلنج بن گئی جس میں ایتھنز کے' اقتدار اور مراعات ‘ کے کلچرکی جڑیں پیوست تھیں۔ 
سقراط کی زندگی کے آخری برسوں میں ایتھنزکو سیاسی اور اقتصادی بدحالی کا سامنا رہا۔ تیس جابر حکمرانوں ( The Thirty Tyrants ۔۔۔۔۔ سپارٹا کے حامی جنہوں نے 404 قبل مسیح میں یونانیوں کو شکست دی اور اپنے مختصر عہد میں ایتھنز کی پانچ فیصد آبادی کو تہہ تیغ کردیا ) نے جمہوریت ختم کر ڈالی اور تقریباً تیرہ ماہ ظلم کا بازارگرم کیے رکھا۔ اس کے بعد جمہوریت بحال ہوئی اور ماضی قریب میں جو واقعات رونما ہوئے تھے ان کے بارے میں 'عام معافی‘ کا اعلان کردیا گیا۔ یہ اعلان غیر ملکی طاقتوں کے ذریعے طے کرائے گئے ہمارے اپنے بدنام زمانہ این آر او کی طرح تھا جس کے تحت 1986ء سے 1999ء تک کے عرصے کے دوران درج کیے گئے مقدمات میں ملوث افراد کو جن میں ہماری آج کی سیاسی اشرافیہ کی اکثریت بھی شامل ہے‘ غیر قانونی طور پر عام معافی دے دی گئی۔ سقراط نے عام معافی کے اعلان کو چیلنج کیا تھا اور ہمارے ہاں بھی این آر او کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور اعلیٰ عدلیہ نے اپنے 16 دسمبر 2009ء کے تاریخی فیصلے میں اسے غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ 
سقراط نے طاقت کے زور پر روا رکھا گیا اپنی ریاست کا ظلم قبول کرنے کے بجائے 'عام معافی‘ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ یہ ''جس کی لاٹھی اُس کی بھینس‘‘ کو قانونی شکل دینے کے مترادف ہے۔ انہیں پختہ یقین تھا کہ ریاست ‘ ایتھنز کی سیاست سے زیادہ اہم ہے۔ چنانچہ '' سیاست نہیں‘ ریاست ‘‘ ان کا مقبول عام نعرہ بن گیا۔ حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے والی قوتوں نے ان (سقراط) کو دیوتائوں کی منظور نظر ریاست کو تسلیم کرنے کا منکر اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا مرتکب قرار دے دیا۔ دراصل وہ اُسے (سقراط کو) اپنے اقتدار اور مراعات کے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے فوراً سقراط کے خلاف نام نہاد قانونی کارروائی کی اور اسے سزائے موت دے دی گئی۔ ہمارے ہاں این آر او کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوا اور 'سٹیٹس کو‘ کی حامی طاقتیں آج بھی بالادست ہیں۔ 
آج پاکستان کی حالت (ایتھنز کی) اُس حالت سے مختلف نہیں جسے سقراط نے 399 قبل مسیح میں چیلنج کیا تھا اور جس کا مقصد اپنی ریاست کو(ظلم و جبر سے) بچانا تھا۔ ایتھنز والا منظر تین ہفتوں سے اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر دہرایا جا رہا ہے۔ جو لوگ احتجاجی مظاہروں کی قیادت کر رہے ہیں وہ سقراط تو نہیں لیکن وہ سقراط کی طرح ایسی باتیں کر رہے ہیں جنہیں سننے کے لیے عوام عرصہ دراز سے منتظر تھے۔ ایتھنز کے لوگوں کی طرح ہمارے عوام بھی اپنی جمہوریت کی سنگین کوتاہیوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی جنتا بعینہٖ ایتھنز کے سیاستدانوں کی طرح ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔ یہ لوگ اپنی جماعتوں کے منشور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقتدار کے مزے اڑانے کی خاطر کسی تبدیلی کی مزاحمت کرنے کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ 
اگر ہمارے ہاں بھی سقراط کے زمانے کے ایتھنز کی طرز کا کوئی ''جیوری سسٹم‘‘ ہوتا تو آج ہم بھی یونانی المیے جیسا منظر دیکھ رہے ہوتے۔ آزادی کے وقت سے ہماری تاریخ بحرانوں سے پُر ہے اور ہم کئی المیوں کا سامنا بھی کر چکے ہیں‘ کیا ہمیں ایک مزید المیہ درکار ہے؟ لگتا ہے‘ ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ‘ یونان کے ماضی جتنا بھی نہیں۔ یونانی تاریخ کے ساتھ ہماری مُشابَہت کہیں ہمیں اپنے راستے سے نہ بھٹکا دے‘ ہمیں لازمی طور پر اپنے مسائل اپنے قانون کے مطابق پُرامن طور پر حل کرنے چاہئیں۔ 
ہم عصر دنیا میں کسی بھی ریاست کا آئین اُس کا مقدس '' عمرانی معاہدہ ‘‘ ہوتا ہے جو اپنے شہریوں کی بنیادی آزادیوں اوران کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے‘ نیز یہی آئین‘ حکومت کے اختیارات اور فرائض کا تعین کرتا اور ریاست کے ادارہ جاتی سٹرکچر کو قانونی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ تمام تصورات فقط فلسفیانہ اظہار تک محدود ہیں‘ ان پر عمل نہیں ہوتا۔ ہمارا آئینی اور سیاسی ریکارڈ انتہائی مایوس کن ہے ‘ اس میں جمہوری روایات کے احترام کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر ایسے ایسے ' کارنامے ‘ انجام پاتے ہیں جن کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ تاریخ اُس وقت تاریخ نہیں لگتی جب آپ اس میں زندگی گزار رہے ہوں۔ ہماری آزادی کو چوتھائی صدی بھی نہیں گزری تھی کہ ہم اپنے آدھے ملک سے محروم ہوگئے۔ اپنے نظام کی کمزوریاں دُورکرنے اور اپنی قوم کو مضبوط کرنے والے عناصر کو تقویت دینے کے بجائے ہمارے سیاستدان ذاتی مفادات کے اسیر رہے۔ انہوں نے 1970ء کے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے ظاہر کی گئی عوام کی خواہش مسترد کردی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کے بجائے فوجی طاقت کا سہارا لیا۔ حقیقی پاکستان اس کے ایک بازوکی افسوناک جدائی سے ختم ہوگیا تھا، لیکن افسوس! ہم نے اپنی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ، آج تک وہی غلطیاں دہراتے جا رہے ہیں۔ 
آج بھی ہمارے سیاستدانوں نے جائز سیاسی مطالبات کا آئینی حل تلاش کرنے کے بجائے نہ صرف اس قدر طاقت استعمال کی جس کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی بلکہ اپنے پیدا کردہ بحران سے نکلنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 245 کا سہارا لے کر فوج کو بھی اس میں گھسیٹنے کی کوشش کی ہے۔ پچھلے چند دنوں کے حالات سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے پیدا کردہ سیاسی بحران حل کرنے میں کس قدر نااہل ہیں۔ ان کا سٹریٹیجک وژن اور سیاسی دانش سے تہی دامن ہونا گزشتہ دہائیوں میں اُن کے بار بار ناکام ہونے سے آشکار ہو چکا ہے۔ وہ ہمیشہ ایک خلا پیدا کرتے ہیں جسے ان کے متبادل کے طور پر فوج کو پُرکرنا پڑتا ہے۔ موجودہ صورت حال بھی ہماری قدیمی کمزوریوں اور منجمد حکومتی نظام کی آئینہ دار ہے۔ 
کسی نے درست کہا ہے : '' کچھ بھی اچانک وقوع پذیر نہیں ہوتا ‘ حتیٰ کہ زلزلے بھی زمین کی گہرائیوں سے بستیوں کی چھتوں تک یکدم حرکت پیدا نہیں کرتے‘‘۔ ہمارا موجودہ بحران بھی عوام کے عرصہ دراز سے پکنے والے غصے اور اضطراب کا اُبال ہے جس نے ہماری سیاست اور حکومتی نظام کی ناکامیوں سے جنم لیا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کی بالادستی سے قائم نظامِ اقتداراس قدرگہرا ہو چکا ہے کہ اس میں تبدیلی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ تبدیلی اشرافیہ کو موافق نہیں آتی۔ 
جانے پہچانے المیوں کے منحوس چکر سے نجات حاصل کرنے کے لیے قومی سطح پر نہایت سنجیدہ اور بامعنی جدوجہد درکار ہے جس کا مقصد مزید تاخیر کے بغیر مجموعی حکومتی نظام کی ازسرنو تدوین ہو۔ صرف انتخابات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نظام کو لازمی طور پر تبدیل کرنا چاہیے۔ انتخابی معاملے پر عدالتی تحقیقات کے علاوہ اس میں حقیقی اصلاحات لانا بھی ضروری ہے تاکہ آئندہ انتخابات میں دھاندلی نہ ہو سکے۔ اب اگر کسی ادارے کے سربراہ کو ہٹانا مقصود ہے تو اس کا تعلق لازمی طور پر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے ہونا چاہیے جو 2013ء کے انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خلفشارکا اصل ذمہ دار ہے۔ 
دریں اثنا ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے : ''مضبوط ترین کبھی اتنا مضبوط نہیں رہتا کہ ہمیشہ آقا و سردار رہے۔۔۔۔۔ آیئے ، تسلیم کر لیں کہ طاقت حق کو جنم نہیں دیتی‘‘۔ (رُوسو: معاہدہ عمرانی۔۔۔۔۔ 1762ء) 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں ) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں