میں‘ تیرہ سال قبل اس خوفناک دن‘ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے نیویارک میں تھا۔ مجھے یاد ہے‘ میں نے مین ہٹن کے فلک بوس ٹوئن ٹاورز کے غائب ہونے کا ڈرائونا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا‘ جس نے نہ صرف عالمی تاریخ بلکہ دنیا کی جغرافیائی سیاست کو بھی بدل دینا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے‘ سفارت خانوں اور یو این کے ذیلی اداروں کے سربراہوں کو‘ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز ناشتے پر بلا رکھا تھا۔ ہم ناشتے کی دعا کے درمیان میں تھے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے طیارے کے ٹکرانے کی اچانک خبر آئی۔ ہمیں سکون کے ساتھ عمارت خالی کرنے کا کہا گیا۔
ہم اُتر رہے تھے کہ نیچے لابی میں‘ لگے ٹیلی وژن پر‘ ایک اور طیارہ دوسرے ٹاور سے ٹکراتا دیکھا‘ جس سے فوراً آگ بھڑک اٹھی۔ تب واضح ہو گیا کہ یہ کوئی عام حادثہ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی اور انتہائی ظالمانہ کارروائی تھی۔ کسی کو پتہ نہیں تھا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ جو نظر آ رہا تھا وہ تھا‘ بھڑکتی ہوئی آگ اور دھوئیں کا ہیبت ناک منظر۔ امریکہ کے خلاف اس دہشت گردانہ حملے کو بیان کرنے کے لیے اگلے دن امریکی پرنٹ میڈیا کی بعض شہ سرخیاں اس طرح تھیں: ''خونی منگل‘‘، ''جنگی کارروائی‘‘ ،''قتل عام‘‘ ،''آفت ناگہانی‘‘، ''گھنائونا جرم‘‘، ''امریکی تاریخ کا بے مثال المیہ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ امریکی انتظامیہ کے دیگر ممالک سے پہلے رابطے سے ہی اس کا جارحانہ رویہ عیاں ہو گیا تھا۔ پیغام‘ بلند آہنگ اور واضح تھا‘ ''آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف!‘‘ تمام ممالک کو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں فوری طور پر دو ٹوک فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ دنیا کی واحد سپر طاقت اس وقت غیظ و غضب کے عالم میں تھی۔ اس نے (ٹوئن ٹاورز پر حملے کے) جواب کا پیمانہ اور نوعیت متعین کرنے میں کوئی تاخیر نہ کی۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے بین الاقوامی اتحاد بنانے کی خاطر فوری طور پر سفارتی محاذ پر کام کا آغاز کر دیا۔
اس مہم میں نیٹو کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے دن بارہ ستمبر کو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی میں سخت قراردادیں منظور کرائیں‘ جس سے امریکہ کے لیے دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کی راہ ہموار ہو گئی۔ دو ہفتے بعد امریکہ نے سلامتی کونسل سے‘ کارروائی کا اختیار لینے کے لیے ایک اور خصوصی قرارداد (یو این ایس سی 28 -1373 ستمبر 2001ء) منظور کرائی‘ جس میں دہشت گردی کے مقابلے کے لیے یو این کائونٹر ٹیررازم کمیٹی کے ذریعے عالمی اقدامات کرنے کا کہا گیا تھا۔ وہ دن گیا اور آج کا آیا‘ دنیا نائن الیون کے المیہ کے نتائج سے نہیں نکل سکی۔
نائن الیون پاکستان کے لیے کڑی آزمائش لایا۔ اس خوفناک دن‘ پاکستان کو اپنی تاریخ کے بدترین مخمصہ کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے فیصلہ کرنے کے اختیارات محدود اور غیر واضح تھے۔ جنرل مشرف پہلے غیر ملکی لیڈر تھے‘ جنہیں واشنگٹن کی طرف سے ''طبل جنگ‘‘ قسم کی کال ملی۔ امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے بارہ ستمبر کی شب انہیں ٹیلی فون کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے بھرپور تعاون اور مدد کا مطالبہ کیا۔ ''ایک جنرل سے دوسرے جنرل‘‘ کے نام ایک انتہائی سنجیدہ پیغام میں کولن پاول نے صاف صاف کہہ دیا کہ پاکستان کی طرف سے محض اظہارِ تعزیت اور زبانی کلامی مدد کی پیشکش سے کام نہیں چلے گا‘ بلکہ اسے دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔
جنرل مشرف نے‘ جسے داخلی مسائل اور علاقائی چیلنجوں کا سامنا تھا‘ بلا تاخیر اس سے بھی زیادہ مدد اور تعاون دینے کا وعدہ کر لیا‘ جتنا اس سے مانگا گیا تھا۔ 13 ستمبر کو امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کا تعاقب کرے گا‘ خواہ وہ کہیں بھی ہوں گے۔ انہیں ٹھکانے دینے‘ مدد کرنے اور مالی امداد فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی دن یعنی تیرہ ستمبر کو صدر جارج ڈبلیو بش نے ''دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث لوگوں کے خلاف‘‘ کارروائی میں تعاون پر آمادگی کا اظہار کرنے پر پاکستان کی ستائش کی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے‘ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔
تیرہ سال گزر گئے ہیں‘ افغان جنگ کا ابھی رسمی طور پر خاتمہ ہونا ہے۔ ابھی دنیا نے سکھ کا سانس لینا ہے لیکن اب تو معاملہ ہی اُلٹ ہو گیا ہے۔ اس پورے عرصہ میں عالمی میڈیا لوگوں کو حالات و واقعات کی صحیح تصویر دکھانے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور حملوں کا وسیع تر تناظر واضح کرنے میں اہم کردار ادا کرتا رہا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز میں متفقہ رائے تھی کہ یہ ایک جائز جنگ ہے اور یہ کہ ''دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘‘ انتقامی کارروائی نہیں‘ لیکن اب یہ جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے اور اس کا خاتمہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ چونکہ اس جنگ کی سمت درست نہیں رہی لہٰذا اب اسے جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
حتیٰ کہ اب امریکی ذرائع ابلاغ بھی محسوس کر رہے ہیں کہ جنگ شروع کرنے کا بش‘ ڈک چینی فیصلہ بہت بڑی غلطی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ نے ایک دفعہ لکھا ''دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہم نے ایک ایسے ملک کو تاراج کر دیا‘ جس کا نائن الیون کے حملوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہم نے اپنے دشمنوں کو جری بنا لیا۔ ہم نے جانی قربانیاں دیں اور بہت سی لیں۔ ہم نے کھربوں ڈالر اس میں جھونک دیے۔ ہم نے شہری آزادیوں کی قربانی دی اور انسانی اقدار سے وابستگیوں سے دامن جھٹک لیا‘‘۔ کیا صدر بش اور نائب صدر ڈک چینی نے اس لیے جنگ شروع کی کہ وہ دیانت داری سے سمجھتے تھے کہ امریکیوں کی سلامتی کی ضمانت کا یہی بہترین طریقہ ہے؟ یا عالمی سطح پر زیادہ سیاسی اور اقتصادی طاقت حاصل کرنے کے لیے یہ ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی؟
یہ ہیں وہ سوالات‘ جن کا جواب صرف تاریخ ہی دے سکے گی؛ تاہم ایک چیز واضح ہے کہ امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں غیر متعلقہ ''جنگ دہشت گردی‘‘ شروع کی۔ جسے اب ''لفظی ہیر پھیر‘ سٹریٹیجک اور قانونی گمراہی‘‘ کی صورت دیکھا جا رہا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ اس جنگ کے نتیجے میں طالبان اقتدار سے محروم ہو گئے لیکن انہیں شکست نہ دی جا سکی۔ ستم ظریفی کہ ماضی کے واقعات پر نظر ڈالنے سے کئی خیالات ذہن میں آتے ہیں۔ خواہ یہ کتنا ہی ناقابل یقین ہو‘ 1990ء کے عشرے کے وسط میں طالبان کا ظہور اور نائن الیون کے بعد افغانستان کا جمود علاقے میں ایک ''بڑی گیم‘‘ سے وابستہ ہیں‘ جس کا تعلق خطے میں تیل اور گیس کے خفیہ ذخائر سے ہے۔ ساری جنگ جن فوائد کے لیے لڑی گئی‘ اسے ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے اور وہ ہے: تیل۔
میں بحیثیت سیکرٹری جنرل‘ دس رکنی علاقائی تعاون تنظیم ''ای سی او‘‘ جس میں ایران‘ پاکستان‘ ترکی اور افغانستان کے علاوہ وسط ایشیا کی سابق چھ سوویت جمہوریائیں بھی شامل ہیں‘ 1990ء کے اوائل میں بننے والے منصوبوں کے خاکوں سے پوری طرح آگاہ ہوں‘ جن کے تحت ای سی او کے خطے اور اس سے آگے کے علاقوں میں تیل اور گیس پائپ لائنیں تعمیر کی جانا تھیں۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ افغان جنگ اپنی اصل میں مطلوب نہ تھی‘ بلکہ وسط ایشیائی خطے پر مرکوز ''گریٹ گیم‘‘ کا ایک حصہ تھی۔ جو شاید اس وسیع علاقہ میں دور رس نتائج کی حامل پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ جاری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نئی دنیا زیادہ انتشار اور تشدد سے دوچار نہ ہوتی۔ دنیا ابھی پرانے بلکہ اپنی صورت میں شدید ترین مسائل کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ میں نئے تصادم جنم لے رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخی محرومیوں کا ازالہ نہ کیا جا سکا اور نہ ہی اہم تنازعات کو حل کرنے پر توجہ دی گئی۔ جارحیت اور دشمن کو تھکا تھکا کر ختم کرنے کی جنگیں‘ اپنے دفاع کے نام پر یلغار‘ طاقت کے نشے میں سرشار حکومتی تبدیلیاں‘ انسانی المیے‘ انتہا پسندی کے رجحانات اور دہشت گردی سب مل کر اب نیو ورلڈ آرڈر کے خدوخال متعین کریں گے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)