"SAC" (space) message & send to 7575

نوبیل انعام یافتہ ’’جَنگجُو‘‘

ٹی ایس ایلیٹ نے مزاحاً نہیں کہا تھا: ''نوبیل، تابوت کا ٹکٹ ہے، جسے ملا پھر کچھ نہ کر پایا‘‘۔ بارک اوباما کو یہ ٹکٹ کرسی صدارت پر متمکن ہونے کے فوراً بعد مل گیا۔ امریکہ کی دو صدیوں سے زیادہ تاریخ کے پہلے غیر سفید فام صدر منتخب ہونے کا ایک سال مکمل کرنے سے بھی پہلے انہیں 2009ء میں کوئی کارنامہ انجام نہ دینے کے باوجود نوبیل امن انعام سے نواز دیا گیا۔
بلاشبہ، وہ ایک معجزاتی شخصیت ہیں۔ امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر منتخب ہونا بذاتہ ایک معجزہ تھا، لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد سے بلا تکان برسر پیکار سپر پاور کے سربراہ مملکت کا نوبیل امن انعام پانا اس سے بھی بڑا معجزہ ہے۔ 2009ء کے نوبیل امن انعام کے لیے منتخب ہونا خود اوباما کے لیے بھی ایک غیرمتوقع اعزاز اور ''حیران کن‘‘ امر تھا‘ لیکن انہوں نے اقتدار میں ہوتے ہوئے (serving) صدر کے طور پر دسمبر2009ء میں اوسلو جا کر یہ اعزاز وصول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ 
دوران اقتدار یہ اعزاز وصول کرنے والے دوسرے دو صدور میں سے پہلے تھیوڈور روز ویلٹ تھے‘ جنہیں 2006ء میں روس اور جاپان کے مابین جنگ ختم کرانے کے اعتراف میں اس کا حقدار سمجھا گیا اور دوسرے وڈرو ولسن تھے‘ جنہوں نے معاہدہ ورسیلز طے کرایا‘ جس کے نتیجے میں پہلی عالمی جنگ کا اختتام ہوا اور انہیں 1919ء میں یہ انعام دیا گیا۔ نوبیل کمیٹی نے ''بین الاقوامی سیاست کے لیے ایک نئی فضا پیدا کرنے اور لوگوں کے مابین سفارت کاری اور تعاون کو مضبوط کرنے کے لیے غیر معمولی مساعی بروئے کار لانے‘‘ کا اعتراف کرتے ہوئے اوباما کو اس اعزاز کا مستحق قرار دیا۔ یہ اس صدی کا سب سے بڑا مذاق ہے۔ انہیں جن ''غیرمعمولی‘‘ کوششوں کا کریڈٹ دیا گیا‘ وہ جنگ اور تصادم کی عالمی روایت کو طول دینے کے سوا کچھ نہیں۔
صدر اوباما خطابت کے جوہر دکھانے کے شناور ہیں۔ جنوری 2009ء میں امریکہ کی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر کی حیثیت سے کیپٹال ہل(Capitol Hill) میں حلف اٹھانے کی تقریب سے ان کا افتتاحی خطاب بھی شاندار تھا۔ انہوں نے وراثت میں ملنے والی بہت سے چیلنجوں کے حامل ''خوفناک روایت‘‘ کا ذکر کیا‘ جس میں مہنگی جنگیں، عالمی امیج کا زوال اور ابتر معیشت شامل تھی۔ انہوں نے ان چیلنجوں سے عہدہ برآ ہونے کا عزم ظاہرکرتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ امریکیوں کو ایک نیا امریکہ دیں گے اور دنیا کو ایک ایسے امریکہ سے متعارف کرائیں گے‘ جو اس کے اپنے اور پوری دنیا کے لیے پُرامن ہو گا۔
لیکن صرف گیارہ ماہ بعد انہوں نے اوسلو کے سٹی ہال میں نوبیل انعام وصول کرتے ہوئے یکسر ایک مختلف سکرپٹ پر خطاب کیا۔ وہ بھول گئے کہ انہوں نے افتتاحی خطاب میں اپنے پیشرو جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں کو کس طرح ہدف تنقید بنایا تھا۔ انہوں نے بش کے عہد کو امریکی تاریخ کا ''مایوس کن‘‘ باب قرار دیتے ہوئے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ ''گمشدہ مشترکہ ہدف‘‘ بحال کرکے امریکہ کو گزشتہ آٹھ برسوں سے زیادہ بہتر بنائیں گے۔ 
اوسلو میں نوبیل امن انعام یافتہ اوباما غیظ و غضب سے بھرے ہوئے تھے۔ وہ امن عالم کے علمبردار سے جنگ کے ترجمان بن کر نمودار ہوئے۔ انہوں نے اپنے تئیں جنگ کے اخلاقی پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ''انسانی سرگرمی کو شرف و تکریم عطا کرتی ہے‘‘۔ انہوں نے قیام امن کے لیے جنگوںکو جائز قرار دیا۔ انہوں نے کہا: ''غلط فہمی برطرف: دنیا میں برائی موجود ہے اور اس کے خلاف برائی کی طاقت سے لڑنا لازم ہے‘‘۔ لیجیے! ایک سال سے بھی کم عرصے میں، اوباما، قرون وسطیٰ کے نظریے پر مبنی یہ نئی ڈاکٹرائن لے آئے کہ اچھے نتائج کے حصول کے لیے بُرے طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
اس تقریب کے منتخب شرکا کے لیے یقیناً یہ ایک تکلیف دہ لمحہ ہو گا، جب اوباما نے افغانستان میں اپنی فوج کے بارے میں انتہائی غیرجذباتی انداز میں کہا: ''کچھ ماریں گے، کچھ مارے جائیں گے‘‘۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ''بعض اوقات طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے‘‘ اور یہ کہ ''ہم اپنی زندگیوں میں تصادم ختم نہیں کر سکتے‘‘۔ اوباما کی یہ جارحانہ ڈاکٹرائن یقیناً الفریڈ نوبیل کے تصور سے یکسر متصادم تھی۔ آج امریکی عوام ندامت محسوس کرتے ہوں گے کہ ان کے صدر کو وہ اعزاز دیا گیا جس کے وہ ہرگز مستحق نہیں تھے۔ نوبیل انعام دیتے وقت انہیں جن اوصاف کا حامل قرار دیا گیا‘ وہ چکنا چور ہو چکے ہیں۔
وہ نہ صرف پرانے تصادمات کو از سر نو زندہ کر رہے ہیں بلکہ بڑی ڈھٹائی سے نئے تصادموں کی راہ ہموار کرنے کے لیے کشیدگیوںکو ہوا دے رہے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں داخل ہونے کے فوراً بعد اوباما نے پاکستان میں سی آئی اے کے ڈرون حملوں میں اضافہ کر دیا۔ اگرچہ ان کا ہدف القاعدہ یا طالبان کے مشتبہ جنگجو تھے‘ لیکن یہ کارروائی اقوام متحدہ کے چارٹر اور پاکستان کی جغرافیائی خود مختاری کو پامال کرتے ہوئے کی گئی۔ نوبیل انعام ملنے سے چند روز پہلے انہوں نے تازہ دم تیس ہزار اضافی فوجی افغانستان بھیجے۔ انہیں اسی فوج کو واپس بلانے میں چار سال لگے، اس کے باوجود ان کی اچھی خاصی تعداد اب بھی افغانستان میں موجود ہے۔
افغانستان میں امن دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا۔ عراق کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ غیرقانونی جنگ ختم ہو چکی‘ لیکن اس بدقسمت ملک پر انارکی کا بدستور راج ہے۔ اس خوفناک صورت حال کے باوجود صدر اوباما نے نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف ایک نئی جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس (داعش) سے عراق اور شام کے عوام، وسیع تر مشرق وسطیٰ اور وہاں مقیم امریکی شہریوں اور تنصیبات کو خطرہ ہے۔ اپنی تازہ پالیسی تقریر میں انہوں نے اپنی نئی جنگی حکمت عملی کا انکشاف کیا‘ جس سے ان کے بقول عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کمزور اور بالآخر تباہ ہو جائے گی۔
اس حکمت عملی کے لیے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی اور عراق کی طرح اس میں بھی اقوام متحدہ کو بائی پاس کیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی پر ''رضامند شراکت داروں کا اتحاد‘‘ عملدرآمد کرے گا اور اس میں امریکی افواج کی شمولیت محدود ہو گی۔ امریکہ، دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف لڑنے والوں کو تربیت، انٹیلی جنس اور سازوسامان فراہم کرے گا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس ''برادر کُش‘‘ جنگ کے اخراجات تیل کی دولت سے مالامال خلیج کی ریاستیں برداشت کریں گی۔ اوباما نے اپنے عوام سے کہا ہے کہ وہ ''پریشان نہ ہوں، اپنے معمولات زندگی جاری رکھیں اور یہ کام اپنے (شریف النفس) کمانڈر انچیف کو کرنے دیں‘‘۔
لگتا ہے، اوباما ایک بار پھر تاریخ کے دھارے کی مخالف سمت پر ہیں۔ ان کی صدارت، دائرہ مکمل کرکے نوقدامت پسندوں (Neocons) کے اس مقام پر آ گئی ہے‘ جسے کبھی انہوں نے مسترد کر دیا تھا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پیداکردہ دولت اسلامیہ (داعش) کے خلاف جنگ کی آڑ میں، قدامت پسندوں کے اس مہیب منصوبے پر عملدرآمد کرنا مقصود ہے جس کا ہدف مشرق وسطیٰ کو امریکہ کے جیوپولیٹیکل مقاصد کے مطابق ڈھالنا ہے۔ آپ اسے کوئی بھی نام دیں، یہ ایک نوبیل امن انعام یافتہ لیڈر کی قیادت میں سامراج کی جنگ ہے۔
یہ دیکھا بھالا منظر ہے، جہاں جنگ شروع کرنے کے لیے ازخود ایک عفریت پیدا کیا جاتا ہے اور پھر اسی کے نام پر جیوپولیٹیکل مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ طالبان اور اب دولت اسلامیہ کی حقیقت اسی سکرپٹ جیسی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس بار فرقہ واریت کو ہوا دے کر مسلمان، مسلمانوں کو تہہ تیغ کریں گے۔ اس جنگ کا اختتام کچھ بھی ہو، نئی جنگی حکمت عملی کے خطے اور عالمی سطح پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
ایک بات واضح ہے، امریکہ مسلسل اقوام متحدہ اور اس کے چارٹر کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ وہ قومی ریاستوں کی جغرافیائی سلامتی اور خود مختاری کو اپنے مفادات کی خاطر پامال کر رہا ہے۔ یہ کثیرالجہت جنگ وقت کے ساتھ کئی شکلیں اختیار کرے گی، شاید یہ اوباما کے تاریخ کی کتابوں میں گم ہو جانے کے بعد بھی جاری رہے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں