بلاشبہ فرد کی طرح قوم بھی نامیاتی وجود ہے‘ جو پیدائش اور عہد طفولیت سے لے کر لڑکپن کی عمر میں شناخت کے بحران اور پھر پختہ عمری و بلوغت کے مراحل سے گزرتی ہے؛ تاہم اگر سیاسی، معاشی، معاشرتی اور اخلاقی استواری و مضبوطی سے مملو ادارہ جاتی قوت کے ذریعے اس کی نشوونما اور پرورش و پرداخت درست طور سے نہ ہو تو یہ معذور و مفلوج انسانی جسم کے مانند پہلے جمود اور بے مقصدیت سے دوچار اور پھر زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ جس طرح انسانی جسم کا ایک عضو پورے جسم کی معمول کی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے‘ بالکل اسی طرح ایک ریاست کی صحت اور آسودگی کا دار و مدار بھی اس کے مختلف اجزا کے درست کام کرنے پر ہوتا ہے۔ ہمارے معاملے میں بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان ،بانی کی جلد وفات سے اپنے عہدِ طفولیت ہی میں یتیم ہو گیا اور اس کی مربوط و منظم فطری نشوونما کو مسدود کرنے والے نظام کی بدترین خامیوں اور اصول و ضوابط سے انحراف نے اسے صحت مند شباب سے محروم کر دیا۔ یہ ایسی سیاسی و آئینی لغزشوں اور معاشی ناکامیوں سے دوچار ہوا‘ جن کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی۔ قائد اعظم ؒ کے بعد پاکستان سمت کے شعور سے محروم اور سیاسی دیوالیہ پن‘ نیز اخلاقی بنجر پن سے دوچار ہو گیا۔ یہ اپنے آپ کو ٹکڑوں میں منقسم کرنے لگا، ربع صدی سے بھی کم عرصے میں نہ صرف اپنا نصف حصہ گنوا دیا‘ بلکہ اپنی تخلیق کا جواز ہی کھو دیا۔
اپنی الم انگیز تقسیم سے حقیقی پاکستان غائب ہو گیا اور باقی ماندہ کو اس کے خود غرض، بدعنوان اور نااہل حکمرانوں نے سیاسی کھیل تماشوں کی سرزمین بنا ڈالا۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس ملک کو اس کے وجود میں آنے کے وقت ''بیسویں صدی کا معجزہ‘‘ قرار دیا گیا تھا اور جو مکمل طور پر جمہوری و آئینی جدوجہد کے ذریعے تخلیق ہوا تھا، اسے اب بھی حقیقی جمہوریت، معاشرتی انصاف اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ ہماری داستاں ایک ایسے معاشرے کی داستاں ہے جو گزشتہ 67 برس سے بے مقصد دائروں میں گھوم رہا ہے۔ ہم اپنے مستقبل کے حوالے سے عدم تیقن کے عالم میں یکے بعد دیگرے بحرانوں سے دوچار ہو کر تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں اور ایک قوم کی حیثیت سے ہم نے ایک مشترک مقصد کا شعور ،ہنوز حاصل کرنا ہے۔
ملک قومی تشخص کی تعین اور اپنی نسلی و لسانی اعتبار سے متنوع آبادی کے لیے ایک سیاسی نظام وضع کرنے کی پراگندہ کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں بیس سے زیادہ زبانیں اور تقریباً 300 مختلف بولیاں بولی جاتی ہیں۔ یہ تنوع مزمن علاقائی تنائو اور صوبائی عدم ہم آہنگی کا باعث بنا‘ جس کے نتیجے میں قوم سازی کا عمل رکاوٹوں سے دوچار ہو گیا۔ دوسرے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے نظاموں کا جائزہ لیں‘ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم وفاق کی ایک ایسی انوکھی مثال ہیں جس کا ثانی پوری دنیا میں کہیں نہیں۔ دنیا کے بیشتر بڑے اور درمیانی جسامت کے ملکوں میں انتظامی اکائیوں کے طور سے چھوٹے چھوٹے صوبے یا ریاستیں بنائی گئی ہیں۔ شاید پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں نسل اور زبان کی بنیاد پر صوبے بنائے گئے ۔
پاکستان جیسی جغرافیائی جسامت اور آبادی والا کوئی بھی ملک اتنے کم اور اتنے بڑے صوبوں کا حامل نہیں ۔ حکمرانی کا کوئی بھی طریقہ غیر مساویانہ دروبست میں کارگر نہیں ہو سکتا۔ ہمیں اپنے وجودِ سیاسی کو خلقی خامیوں سے لازماً پاک کرنا ہو گا اور اس کے لیے ہمیں اپنے وفاقی ڈھانچے کو از سر نو تشکیل دینے کے علاوہ انتظامی اعتبار سے اتنے صوبے بنانا ہوں گے‘ جتنے کہ حکمرانی کے مقاصد کے لیے ضروری ہوں۔ ہمارا موجودہ صوبائی دروبست طویل عرصے سے عدم استحکام کی وجہ بنا ہوا ہے۔ یہ نہ صرف ملک میں ناقص حکمرانی اور بدعنوانی کو فزوں تر کر رہا ہے بلکہ وفاق کی تشکیلی اکائیوں میں عدم مساوات اور محرومی کا احساس بھی بڑھا رہا ہے۔ بلوچستان اور دوسرے نسبتاً چھوٹے صوبوں میں مسلسل ''پنجابی غلبہ‘‘ تصور کی جانے والی صورت حال نیز اختیارات اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کے خلاف زیر سطح شدید کبیدہ خاطری موجود ہے۔ ماضی قریب میں نسلی یا لسانی بنیادوں پر مزید صوبے بنانے کے مطالبے کیے جا چکے ہیں۔ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو ہمارے پاس ایک ایسا ڈھیلا ڈھالا وفاقی ڈھانچہ بچ رہے گا‘ جہاں خود غرض، نامطمئن اور بدعنوان سیاست دان ملک میں تباہی برپا کیے رکھیں گے۔ یہ نظام بے بسی اور بے اختیاری کی کیفیت پیدا کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا، جس سے ہم دوچار ہو چکے ہیں۔ زمینی سرحدیں از سر نو کھینچنے اور آبپاشی کی نہروں اور معاون نہروں کے رخ از سر نو متعین کرنے سے بچنے کی غرض سے بہترین حل یہ ہو گا کہ موجودہ ڈویژنل کمشنریوں کو صوبوں میں بدل دیا جائے‘ جن کی سربراہی کسی موزوں خطاب کے حامل منتخب انتظام کاروں کو سونپ دی جائے۔ ملک کو صوبوں کی شکل میں چھوٹی انتظامی اکائیوں میں بانٹنے سے ہم نہ صرف علاقائی تلخیاں اور بے اطمینانی مٹا دیں گے بلکہ مقامی اور موثر اور اہل حکمرانی کو بھی یقینی بنا دیں گے۔ نئے صوبوں کی انتظامیہ کو منتخب کونسلوں پر مشتمل ہونا چاہیے جن کا سربراہ عوام کا منتخب کردہ ہو جس کی معاونت کے لیے پیشہ ور افسر شاہی موجود ہو۔ صوبائی اسمبلیاں، وزراء اعلیٰ، کابینائیں اور صوبوں میں اس وقت موجود بڑے سیکرٹریٹ جیسے سیکرٹریٹ نہیں ہونا چاہئیں۔ اس طرح ہمارے سیاسی نظام کے معروف فالتو حصے کی کم از کم ایک بڑی پرت ختم ہو جائے گی‘ جس سے ہونے والی بہت بڑی بچت عوام کی بہتری کے لیے براہ راست دستیاب ہو جائے گی۔
وفاقی حکومت کو چاہیے کہ صرف دس بارہ وزراء رکھے جو دفاع ، معیشت، تعلیم، خارجہ امور، قومی سلامتی، تجارت، مواصلات، انصاف اور قانون جیسے اہم شعبوں کے لیے قومی پالیسیاں بنانے کے ذمہ دار ہوں۔ باقی تمام امور و معاملات نئی صوبائی اکائیوں کو سونپ دیے جانے چاہئیں‘ جو اپنی حدود میں واقع اضلاع کی مدد کرتے ہوئے ،عدالتی اور بجٹ سے متعلق امداد سمیت پالیسی معاملات پر مرکزی حکومت سے رابطے میں رہتے ہوئے براہ راست نگرانی اور رابطے کا کردار ادا کرنے کی ذمہ دار ہوں گی۔
حکمرانی کی بنیادی اکائی موجودہ اضلاع ہونا چاہئیں۔ ہر ضلع کا سربراہ اہلیت کے مجوزہ معیار پر پورا اترنے والے عوام کے منتخب کردہ شخص کو ہونا چاہیے، جو تمام مقامی سطحوں پر چھوٹے منتخب اداروں کی مدد سے کام کرے۔ ہمیں بیوروکریسی کے دیو قامت ڈھانچوں کی ضرورت نہیں۔ اس کی بجائے مقامی سطح پر غذا، رہائش، تعلیم، صحت، سلامتی اور انصاف جیسی شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی وسائل مہیا کر کے ''ضلعی حکومتوں‘‘ کو مضبوط بنایا جانا چاہیے اور ان کی اچھی کارکردگی یقینی بنانے کے لیے نگرانی کا ایک موثر میکانزم وضع کرکے انہیں جواب دہ بنایا جانا چاہیے۔
ہم ''مزاجاً‘‘ ایسی قوم ہیں‘ جو صدارتی نظام پسند کرتی ہے؛ چنانچہ پارلیمانی نظام لازماً ترک کر دیا جانا چاہیے‘ جسے ہم کبھی اس کی روح کے مطابق نافذ کر ہی نہیں سکے۔ بالغ رائے دہی کی اساس پر استوار ایسا ''صدارتی‘‘ نظام ہمارے لیے موزوں ہے‘ جسے پاکستان کی ضرورتوں کے پیش نظر وضع کیا گیا ہو۔ ہمارے لیے متناسب نمائندگی کا نظام بھی بہتر ہو گا جو سیاسی جماعتوں کو حاصل ہونے والے عوام کے ووٹوں کے تناسب سے قومی مقننہ میں ان کی نمائندگی یقینی بنائے۔ اس طرح غیر جاگیردارانہ، غیر اشرافیہ تعلیم یافتہ درمیانے طبقے کے لوگوں کو منتخب اسمبلیوں تک رسائی حاصل ہو گی۔ ملک میں حقیقی جمہوری کلچر پروان چڑھانے کے لیے ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی لازماً جمہوری قالب میں ڈھلنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں میں نسل در نسل موروثی قیادت پر لازماً امتناع عاید ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتوں میں خفیہ رائے شماری کے تحت انتخابات کو بھی قانوناً لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ اختیار و اقتدار ناجائز طریقوں سے ہتھیا لینے والے پرانے غاصبوں سے چھٹکارا پانے کے لیے موجودہ فرسودہ نظام میں بلاتاخیر مؤثرتبدیلی لائی جانی چاہیے۔ عقل و خرد اور بے غرضی کو ہمارے لیے معیار ہونا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ ہم خود غرضی اور تنگ نظری پر مبنی سوچوں سے بالاتر ہو کر حقیقی سیاسی، معاشی، عدالتی، تعلیمی، انتظامی اور زرعی اصلاحات کے ذریعے نظام میں تبدیلیاں لائیں۔ نئے پاکستان کے لیے خواب غفلت سے جگانے والی ایک واضح اور اونچی آواز پہلے ہی بلند کی جا چکی ہے۔ نہ تو چہرے بدلنے کا کچھ فائدہ ہو گا اور نہ ہی محض انتخابات کے انعقاد سے کوئی فرق پڑے گا۔ نظام کو لازماً بدلنا ہو گا۔ حقیقت میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی تشکیل نو اس طرح کی جائے جس طرح قائد اعظم ؒ نے سوچا تھا یعنی نسلی اور لسانی لیبلوں اور فرقہ وارانہ و علاقائی عدم ہم آہنگی سے آزاد پاکستان۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)