"SAC" (space) message & send to 7575

سدا بہار دوستی

وزیر اعظم نواز شریف کے حالیہ دورۂ بیجنگ نے عوام میں نمایاں دلچسپی کے ساتھ ساتھ تَجسُّس کو بھی ابھارا‘ خصوصاً اس کے نتائج کے بارے میں حکومتی دعاوی کے بعد اس میں شدت پیدا ہوئی۔ وفاقی وزیر احسن اقبال کے مطابق اس دورے میں کم از کم 19 معاہدوں پر دستخط ہوئے جن پر عملدرآمد کے لیے چین 45.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس قدر بھاری چینی سرمایہ کاری کی نوعیت اور شرائط پر ہر طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ بعض حلقوں میں اس کے حجم اور مالیت کے پیش نظر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شاید ہم ان منصوبوں کو ہموار انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی ضمانت دینے کے قابل نہیں ہیں۔ 
اپنے نظام سے واقفیت کی بنا پر کہا جا سکتا ہے‘ بعید نہیں کہ ہم اپنی ناقابل تغیر سرشت کے باعث متعلقہ منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر اور ان کی مالیت میں اضافے کے معمول سے بچ نہ پائیں، جس کا تجربہ ہم چین کے اشتراک سے مکمل ہونے والے منصوبوں‘ خصوصاً نندی پور پلانٹ کی صورت میں کر بھی چکے ہیں۔ حقیقت کچھ بھی ہو‘ حکومت پر لازم ہے کہ وہ عوام کو چینی سرمایہ کاری کی ہمہ جہت شفافیت کا یقین دلائے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلق کی بے بہا اہمیت متقاضی ہے کہ ہم اسے اپنے اندرونی تنازعات میں نہ گھسیٹیں۔ چینی صدر کے ستمبر میں دورۂ اسلام آباد کی منسوخی پہلے ہی ہماری ہزیمت کا سبب بن چکی ہے۔
چین ہماری خارجہ پالیسی کا سنگ میل اور ایسا محکم ستون ہے، یقیناً جس پر ہمارے خطے کے امن و استحکام کا استقرار و انحصار ہے۔ اس مثالی ناتے کی بنیاد وقتی مفادات یا عارضی حالات و حوادث پر نہیں‘ یہ شخصیات حتیٰ کہ ملکی یا عالمی تغیرات سے بھی بالا ہے۔ یہ ایک سدا بہار قرابت داری ہے۔ ان روابط کا ایک بے نظیر اور خاص وصف باہمی اعتماد و اعتبار ہے جس کی بنیاد دونوں ممالک کے اُن تزویراتی مفادات کی یکجائی پر ہے جو دہائیوں کی ریاضت سے ان کی دوستی کا موجب بنی۔ 
اس پس منظر میں‘ چینیوں نے وزیر اعظم نواز شریف کے دورۂ بیجنگ پر جنم لینے والی قیاس آرائیوں کو رفع کرنے میں دیر نہیں لگائی؛ چنانچہ چین کے ایک سینئر عہدیدار نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ میں تصدیق کی کہ ماہِ رواں کے آغاز میں وزیر اعظم کے دورۂ بیجنگ کے دوران 19 معاہدوں پر دستخط ہوئے تھے۔ اگرچہ انہوں نے منصوبوں کی قطعی مالیت نہیں بتائی؛ تاہم واضح کیا کہ چین ان کی شفاف اور بروقت تکمیل کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا: ''ہم نے ان دستاویزات پر پختہ عزم کے ساتھ دستخط کیے ہیں‘ اس لیے ان پر عملدرآمد ہمارے لیے ایک چیلنج ہے‘‘۔ ان کے بقول 19 میں سے 13 منصوبوں کا تعلق توانائی سے ہے جو 2018ء تک چالو (آپریشنل) ہو جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کے یہ تمام منصوبے پاکستانی عوام کے لیے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے پاکستان ـ چین اکنامک کاریڈور‘ گوادر پورٹ اور تازہ تازہ تشکیل پانے والے ایشیا انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کا دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین بڑی شراکت داری کے طور پر ذکر کیا۔ چینی عہدیدار نے یہ بھی واضح کیا کہ پاک چین اقتصادی تعاون ہر قسم کی سیاسی شرائط سے پاک اور مبرا ہے۔ معلوم و معروف چینی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ''آزمائش کے وقت ہم اپنے دوستوں کو مصائب نہیں جھیلنے دیں گے۔ ہم پکے دوست ہیں۔۔۔۔۔ '' لوہا برادران‘‘۔۔۔۔۔ اور ہم باہمی مفاد اور تعاون کے معاملات پرگفت و شنید جاری رکھیں گے‘‘۔ 
بلاشبہ‘ دونوں ملک جائز معاملات میں ایک دوسرے کی حمایت کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ پاکستان کے لیے مسئلہ کشمیر کا پرامن حل اور اس کی آزادی و جغرافیائی سلامتی جبکہ چین کے نقطۂ نظر سے تائیوان‘ حقوق انسانی‘ تبت اور سنکیانگ کے معاملات کو اہمیت حاصل ہے۔ دوسرے ممالک کی جانب سے شرائط پر مبنی امدادی پروگراموں کے برعکس چین نے اب تک جو کیا اور اب کر رہا ہے‘ اس کا محور پاکستانی عوام ہیں۔ اس طرزِ عمل کی اساس مضبوط تزویراتی یکسانیت ہے؛ اقتصادی اور سکیورٹی تعاون اس کثیر جہتی تعلق کی جڑ اور خطے میں امن و استحکام، اس کا اہم عنصر ہے۔ 
شاہراہِ قراقرم سے گوادر پورٹ کے علاوہ صنعتی پلانٹس‘ فیکٹریاں‘ الیکٹریکل اور مکینیکل کمپلیکس‘ ہائیڈرو اور نیوکلیئر پلانٹس سمیت بجلی پیدا کرنے والے یونٹوں کا جال ہمارے ملک کی اقتصادی ترقی میں چین کی دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب ان کا مشترکہ ایجنڈا تمام شعبوں پر محیط ہے جس میں تعمیرات‘ اقتصادی اور تکنیکی تعاون اور پاک چین اقتصادی راہداری شامل ہے‘ جو پاکستان کے ساحلی علاقوں کو شمال مغربی چین کے ساتھ ملا دے گی۔ بلاشبہ، یہ ایک بھاری بھرکم ایجنڈا ہے‘ جس کی جڑیں دونوں ممالک کے عوام کے بہتر مستقبل سے متعلق خواب اور اس خطے میں امن و استحکام کی آرزُو میں پیوست ہیں۔
چین کے لیے اپنے مغربی جانب کے پسماندہ علاقوں کو تیز رفتار ترقی سے ہمکنارکرنا اس کے ''قومی اعادہ شباب‘‘ کا خواب ہے اور پاکستان کا خواب یہ ہے کہ وہ اپنے جیوپولیٹیکل محل وقوع کو ذمہ داری اور بوجھ کے بجائے ایک اثاثے میں تبدیل کرے۔ اب دونوں کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے اس مشترکہ خواب کو کس جانفشانی اور خلوص کے ساتھ حقیقت کا روپ دیتے ہیں۔ جہاں تک چینیوں کا تعلق ہے‘ وہ ہمیشہ سے اپنے اس عزم کو عملی شکل دیتے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ بے غرض اور غیر مشروط مدد فراہم کی‘ یہاں تک کہ بہت سے چینی باشندوں کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیںکیا۔ آج بھی ہزاروں چینی انجینئر اور ورکر مشکل ترین حالات میں‘ پاکستانی عوام کے لیے سڑکیں‘ پُل‘ سرنگیں‘ ڈیم‘ سکول اور ہسپتال تعمیر کرنے میں مشغول ہیں۔ 
مسائل ہماری طرف ہیں۔ سکیورٹی کی خطرناک صورت حال‘ توانائی کا بحران اور سیاسی و نوکر شاہی نظام میں کرپشن سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اگر ہم نئے پاک چین منصوبوں پر عملدرآمد اور مشترکہ اہداف حاصل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں ان مسائل کے حل پر فوری توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ چین کے ساتھ ہمارے تعاون کے صرف دو پہلوئوں کی تاریخ ملاحظہ کیجیے۔۔۔۔۔ تجارت کے امکانات اور گوادر۔۔۔۔۔ ہم نے پورا عشرہ اسے نظرانداز کیے رکھا۔ کسی نئے منصوبے کو بروقت اور مقررہ لاگت کے ساتھ مکمل کرنے سے متعلق ہماری صلاحیت کو جانچنے کے لیے یہ دو مثالیں چشم کُشا ہیں۔ 
اقتصادی سرگرمی کے لیے مطلوب بنیادی عناصر۔۔۔۔ پائیدار پالیسیاں‘ امن و امان کی مستحکم صورت حال اور توانائی سمیت معاون انفراسٹرکچر ہمارے ملک میں عنقا ہیں۔ ہماری صنعت کا پہیہ بیشتر اوقات جام رہتا ہے جس سے ہماری برآمدی پیداوار ضرورت سے کم رہتی ہے۔ ان حالات میں یہ امر تعجب خیز نہیں ہے کہ چین کے ساتھ ہماری تجارت یکطرفہ ہے۔ یہ صورت حال بھی قابل رحم ہے کہ بیس کروڑ نفوس پر مشتمل آبادی والا ملک، جس کے پاس تکنیکی مہارت کی بہتات ہے اور جس میں استعداد و صلاحیت کا ایک خزانہ موجود ہے‘ آج اپنی بندرگاہیں‘ ریلوے اور ایئرلائن خود نہیں چلا سکتا۔ ہم چینیوں کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آئیں اورگوادر پورٹ کو چلائیں۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس پالیسی ہے نہ ترجیحات کا کوئی فریم ورک اور نہ ہی ہم ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر کے صحیح طریق کار سے آشنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے فنڈز استعمال ہوئے بغیر زائدالمیعاد ہو جاتے ہیں۔ ہمارے کئی منصوبے صرف اس وجہ سے ترک کر دیے جاتے ہیں کہ حکومت کے متعلقہ اداروں میں منظم رابطہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے گلے سڑے اور فرسودہ نظام میں اقتصادی سفارت کاری‘ خواہ وہ وزیر اعظم کی سطح پر ہی کیوں نہ ہو‘ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ ایسے میں سرمایہ کاری کے لیے اِدھر اُدھر بھاگنا گھوڑے کے بغیر چھکڑا چلانے کے مترادف ہے۔ دراصل ہمیں سخت فیصلے کرکے اپنے طرزِ حکومت میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ 
آخر میں چین پاک دوستی کے بارے میں ایک گزارش! طرفین اس تعلق کو بالعموم ''پہاڑوں سے بلند تر اور سمندر سے عمیق تر‘‘ قرار دیتے ہیں۔ اب کچھ عرصے سے چینی اس تعلق خاطر کو ایک نیا نام دینے لگے ہیں۔۔۔۔۔ ''لوہا برادران‘‘ (The Iron Brothers)۔۔۔۔۔ شاید وہ اس کی پاکستانی معنویت سے آشنا نہیں ہیں۔ 
دراصل دونوں ممالک کو فرسودہ قسم کے بے معنی القابات سے اوپر اٹھنا ہو گا۔ انہیں اپنے روابط کے بارے میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حقیقت پسندی پر مبنی جچی تلی سوچ اپنانا ہو گی، جو نہ تو بہت بلند ہو نہ ہی بہت گہری؛ بلکہ اس قدر توانا اور مضبوط ہو جو تیزی سے تبدیل ہوتے علاقائی اور عالمی حقائق کا سامنا کرتے ہوئے امن‘ باہمی تعاون اور خوشحالی کے مشترکہ اہداف کو پانے کے عزم سے مالامال ہو۔ اگر پاکستان اور چین کے خصوصی تعلقات کو کوئی خاص نام دینا ناگزیر ہے تو اس کے لیے مناسب ترین ترکیب ہو گی۔۔۔۔۔ ''سدا بہار دوستی‘‘! 
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں