کسی ملک کی خارجہ پالیسی اس بنیاد پر استوار ہوتی ہے کہ ایک خود مختار ملک اور آزاد ریاست کی حیثیت سے اس کی منزل کیا ہے۔ کسی ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کرنے والا یہ بنیادی عامل ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے‘ آزادی کے وقت‘ ایلس ان ونڈرلینڈ کی طرح‘ ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ ہمیں کس راستے پر گامزن ہونا ہے۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا پہلا ''مخمصہ‘‘ ثابت ہوا۔ جون 1949ء میں ہمارے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی جانب سے سٹالن کی طرف سے ماسکو کے دورے کے لیے دی گئی دعوت قبول کرتے ہی واشنگٹن نے بھی ترنت انہیں امریکہ کے دورے کی دعوت دے دی۔ غیر فوجی (سول) اور فوجی سطح کے پرانے سامراجی روابط کی بدولت ہم فی الفور سرد جنگ کی کشاکش میں شامل ہو گئے۔ اس دوران ہمیں مسلسل ایسے مخصوص نوعیت کے بحرانوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا کہ شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کو اس کا تجربہ ہوا ہو۔ ہم آج بھی اس ''مخمصے‘‘ سے نکل نہیں پائے اور ایک کے بعد دوسرے بحران سے دوچار ہیں۔ ہم آج بھی مخالف و ناموافق فضا میں جی رہے ہیں۔ یہ امر حیرت خیز نہیں کہ جہاں تک خارجہ پالیسی سے متعلق چیلنجوں کا تعلق ہے‘ ہمارا یہ سال بھی آزادی کے بعد گزرے تمام برسوں سے مختلف نہیں رہا۔
کسی بھی ملک کے لیے یہ امر اہم ہوتا ہے کہ اس کے ہمسائے کون ہیں کیونکہ ان کی جسامت یا قوت سے قطع نظر ان کا رویہ اس ملک کی شخصیت اور کردار نیز اس کی سلامتی‘ ترقی اور وسائل کی تقسیم جیسے معاملات پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم نہ تو اپنا جغرافیہ تبدیل کر سکتے تھے‘ نہ اپنے ہمسایوں کا انتخاب کر سکتے تھے۔ جغرافیائی سیاسی (جیوپولیٹیکل) حقیقتیں جیسی بھی تھیں‘ ہمیں ان کے ساتھ ہی جینا تھا۔ اس دوران ہمیں صرف اس امر پر توجہ مرکوز رکھنا چاہیے تھی کہ اپنی آزادی اور علاقائی سالمیت کا تحفظ کس طرح کرنا ہے۔ پاکستان کے جغرافیے نے اس پر یہ بھاری ذمہ داری عائد کر دی کہ اسے نہ صرف اپنے ہمسایوں بلکہ باقی پوری دنیا پر بھی مستقل نظر رکھنا تھی اور سوچ سمجھ کر ان کے ساتھ روابط استوار کرنا تھے۔
سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کا تزویراتی محلِ وقوع عالمی حرکیات کا محور تھا اور نائن الیون کے بعد کی غیر واضح صورتحال میں بھی بے حد اہمیت کا حامل رہا۔ نائن الیون کو ہونے والے واقعات پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم پلک جھپکتے میں امریکہ کی قیادت میں اس خطے میں طویل عرصے تک لڑی جانے والی جنگ کے محوری کردار بن گئے۔ سوویت یونین کے زمانے میں نیز اس کے انہدام کے بعد کے زمانے میں افغان بحران نے پاکستان کے سماجی‘ ثقافتی‘ سیاسی‘ معاشی اور تزویراتی مفادات پر براہِ راست اثر ڈالا۔ نائن الیون کے بعد کا پاکستان مذہب کی اساس پر بننے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ''ولادت گاہ‘‘ کے طور پر معروف ہوا۔ ''دہشت گردی کے خلاف عالم گیر جنگ‘‘ میں پاکستان کا کردار دو اعتبار سے اہم رہا۔ یعنی یہ کہ وہ اس جنگ میں ایک اہم ساتھی بھی تھا اور ہدف بھی۔
اس تلخ حقیقت نے پاکستان کو اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک سنگین انداز سے متاثر کرتے ہوئے اس کی خارجہ پالیسی کی راہیں مسدود کر دیں۔ اس کے عالمی منفی تاثر نے نہ صرف اسے عالمی توجہ اور اضطراب کا مرکز بنا دیا بلکہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے سلامتی اور بقا کی اس کی دائمی جدوجہد میں اسے دشوار فیصلے کرنے پر بھی مجبور کیا۔ آج ہم دنیا کا ایسا واحد ملک ہیں جس نے اپنی سرحدوں کے اندر اپنے ہی لوگوں کے خلاف ایک مکمل جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ہم اس جنگ میں اپنا سب کچھ دائو پر لگا چکے ہیں اور مادی و انسانی نقصانات کے روپ میں اس کا بھاری خمیازہ بھی مستقل طور پر بھگت رہے ہیں۔ پشاور کا روح فرسا سانحہ کسی بھی ملک کے لیے برداشت کی آخری حد تھا۔
کسی ملک کی خارجہ پالیسی اور اس کی تشکیل و اطلاق کا انداز و طریقہ اس ملک کی داخلی پالیسیوں‘ حکمرانی کے مسائل و معاملات اور سیاسی صورتِ حال سے اس طرح مربوط ہوتا ہے کہ دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی ملک کا قوموں کی برادری میں مقام ہمیشہ اس کی سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور تزویراتی قوت کی بنیاد پر متعین ہوتا ہے۔ اگر کوئی ملک داخلی اعتبار سے کمزور اور مفلوج ہو تو وہ خارجی اعتبار سے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جہاں تک ہمارے داخلی المیوں کا تعلق ہے تو ان میں شامل ہیں‘ نصف ملک کا زیاں‘ قیادت کی نااہلی‘ حکمرانی کی ناکامی‘ سیاسی و معاشی بربادی‘ معاشرتی انتشار اور مذہبی عسکریت پسندانہ گمراہیاں۔ بلاشبہ یہ آزادی کے بعد کی ہماری مجموعی تاریخ ہے۔ ہم اس دہشت انگیز پس منظر میں 2015ء میں داخل ہو رہے ہیں۔
تقریباً ستر سال کا عرصہ ہم ایک ایسی خارجہ پالیسی پر عمل کرتے رہے‘ جس کے متعلق ہمارا خیال تھا کہ یہ خارجہ پالیسی ریاستوں کے باہمی روابط کے عالمی سطح پر مسلمہ اصولوں پر استوار ہے اور جس کے متعلق ہمارا تصور یہ تھا کہ یہ خارجہ پالیسی ہمارے زمانے کے غیرمعمولی نوعیت کے چیلنجوں کا حقیقت پسندانہ جواب پیش کرتی ہے۔ بہرحال ہم نے اس حقیقت کا ادراک کبھی نہیں کیا کہ ایک نازک محل وقوع کے حامل اور داخلی اعتبار سے غیر مستحکم اور ناقابلِ پیش گوئی ملک کے لیے داخلی روابط کے باب میں انتخاب کی گنجائش وسیع نہیں ہوتی۔ پاکستان کی داخلی ناکامیوں نے نہ صرف اس کی خارجہ پالیسی کی راہیں سنگین حد تک محدود کر دیں بلکہ خارجی سطح پر اس کے امیج اور مقام کو بھی بُری طرح متاثر کیا۔ لاریب ہم ان بحرانوں اور چیلنجوں سے سلامت نکل آئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی؟
سال کا یہ درد انگیز اختتام ایک ایسا وقت ہے کہ جب ہمیں خود احتسابی ضرور کرنا چاہیے‘ خواہ یہ کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو‘ نیز یہ جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے اپنی زندگی میں اپنے وطن کے لیے کیا کیا ہے۔ اب یہ امر اہمیت کا حامل نہیں رہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے اور کون کون سے ملک ہمارے دوست ہیں۔ دنیا کے لیے ہم ایک بے پتوار ملک ہیں‘ جسے اس کے اپنے ہی حکمرانوں نے لوٹ کر برباد کر ڈالا ہے اور جو ہر قسم کے عز و وقار سے محروم ہو چکا ہے۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے‘ ہمارا ملک تہی داماں ہو چکا ہے اور ہمارے مارکوپولو نما حکمران کاسۂ گدائی اٹھائے دنیا بھر کے دوروں سے تھکتے نہیں ہیں۔ اب دہشت گردی ہماری واحد پہچان ہے۔ ہمیں مسئلہ بھی تصور کیا جا رہا ہے اور مسئلے کا حل بھی۔ ہم قبول کریں یا نہ‘ دوسرے ملکوں میں پاکستان کا نام آتے ہی فی الفور خوف اور تشویش پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنا جو حشر کیا ہے‘ اس پر ہمیں شرمندگی و ندامت تک نہیں۔ ہم خود کش قوم بن چکے ہیں اور اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے نت نئے طریقے وضع کر رہے ہیں۔ یہ امر باعثِ حیرت نہیں کہ اب دنیا ہمارے ملک کو کرۂ ارض کا ''سب سے خطرناک مقام‘‘ قرار دیتی ہے۔ ضروری ہے کہ ہم دنیا میں اپنے ملک کا تاثر تبدیل کریں۔ یہ ملک دہشت گردی اور خوں ریزی سے بڑھ کر ایسی بہت سی وجوہ اور اثاثوں کا حامل ہے‘ جو اسے بین الاقوامی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کی شناخت دیتے ہیں۔ ہمیں اس تبدیلی کے لیے انتہا پسندی‘ جہل پسندی‘ عدم رواداری‘ عسکریت پسندی اور خونریزی و تشدد کی قوتوں سے خود کو آزاد کرانا ہو گا۔ پاکستان دوسروں سے عزت و احترام کا سلوک چاہتا ہے تو اسے خود انحصاری اپنانا ہو گی تاکہ وہ خارجی دبائو اور استحصال سے محفوظ ہو جائے۔
خارجہ پالیسی کسی ملک کی داخلی صورت کے خارجی عکس کے سوا کچھ نہیں۔ اگر کوئی ملک داخلی اعتبار سے کمزور اور مفلوج ہو تو وہ خارجی اعتبار سے کبھی کامران و فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ حد تو یہ ہے کہ سابق سوویت یونین جیسی سپر پاور بھی صرف اس وجہ سے سپر پاور کی حیثیت سے برقرار نہیں رہ سکی کہ وہ داخلی اعتبار سے کمزور اور مفلوج ہو چکی تھی۔ آج ہمیں بھی داخلی مسائل کا سامنا ہے‘ جن کی جڑیں حکمرانی کی ناکامیوں میں پیوست ہیں۔ حد یہ ہے کہ ہماری خارجی مشکلات بھی ہماری داخلی ناکامیوں کی توسیع ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم داخلی سطح پر سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط ہوں۔ خود مختار خارجہ پالیسی کا حامل ہونے کے لیے اچھی حکمرانی ضروری ہے۔
یہ ہماری تاریخ کا اہم ترین مرحلہ ہے۔ یہ امر اہم نہیں کہ دوسرے کے مفادات کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے بلکہ ہمیں اپنے قومی مفادات کی آبیاری کرنا ہو گی۔ ہمیں اپنے محوری محل وقوع کو ایک بوجھ کی بجائے اثاثہ بنانا ہو گا۔ دنیا کے ساتھ پُرامن انداز سے جینے کے لیے ہمیں اپنے ساتھ امن کے ساتھ جینا ہو گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)